اسے سانحہ اسلام آباد کہیں، سانحہ ڈی چوک کہیں، سانحہ جمہوریت کہیں یا کچھ اور لیکن 26نومبر کی رات جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے، کہ مشرف دور میں بھی اگر کہیں احتجاج ہوا تو زیادہ سے زیادہ واٹر ٹینک سے مظاہرین پر پانی پھینکا جاتا، آنسو گیس فائر کیے جاتے یا پولیس کو محض یہ اختیار تھا کہ مظاہرین کو 24گھنٹے یا 72گھنٹوں کے لیے حوالات میں رکھ کر چھوڑ دیا جاتا۔ لیکن اب کی بار تو سیاسی کارکنو ں پر سیدھی گولیاں چلادی گئیں،یہ بالکل سانحہ جلیانوالہ باغ جیسا تھا، جب امرتسر مشرقی پنجاب، بھارت میں سکھوں کے عہد کے ایک باغ میں جہاں 13 اپریل، 1919ءکو انگریز فوج نے سینکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیاتھا۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا۔ اُس رات مظاہرین اور سکیورٹی اداروں کی آپس میں جھڑپ نہیں تھی بلکہ وفاق اور ایک صوبے کی آپسی لڑائی کا منظر دنیا نے دیکھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے ہمارے ادارے کسی دشمن ملک کے سپاہیوں، یا خوارجیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ یقینی طور پر اسلام آباد میں جو تشدد ہوا ہے‘ اس کی مذمت ہونی چاہیے کہ ایک انسان بھی مرے تو دکھ ہوتا ہے۔
خیر اس لڑائی کے بعد تو یہ بات عقل اور سمجھ سے باہر ہو چکی ہے کہ حکمران جماعتیں تیسری قوتوں کے ہاتھوں یرغمال کیوں بن جاتی ہیں، کیوں یہ اقتدار کے لیے کسی کے ساتھ مل کر اپنے ہی سیاسی بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ جب یہ حکمران جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو وہ اپنے ہی عوام اور اپوزیشن پارٹیوں کی اس قدر دشمن بن جاتی ہیں کہ کوئی اور اُنہیں سجائی ہی نہیں دیتا۔ حالانکہ اقتدار میں آکر تو انہیں نہایت سنجیدہ ہو جانا چاہیے لیکن یہ ہٹ دھرمی پر قائم ہو جاتی ہیں، پھر ان کے لیے نا تو آئین کی کوئی اہمیت ہوتی ہے، نہ اداروں کی اور نہ ہی اپوزیشن کی۔ یہ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتے ہیں۔ اور ان کی آپسی لڑائی دیکھ کر تیسری قوتیں بھی بھرپور فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ جس کے بعد حکمران جماعت بسا اوقات اداروں کی کٹھ پتلیاں بن جاتی ہے۔ اور یہ سارا عمل اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم آئین کو اپنے پاﺅں تلے روند دیتے ہیں۔ حالانکہ سب کہتے ہیں آئین مقدم ہے، لیکن عمل کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے، آپ اس کی چھوٹی سی مثال لے لیں کہ آئین میں واضح طور لکھا ہواہے کہ 90دن میں الیکشن ہوں گے، لیکن انہوں نے سپریم کورٹ کے آرڈر پر بھی نہیں کروائے۔ اور پھر جب ڈیڑھ سال بعد کروائے تو سب نے دیکھا کہ 8فروری کو کس طرح عوام کے مینڈیٹ کو بزور قوت پیچھے دھکیل کر مرضی کی حکومت ہم پر مسلط کر دی گئی ۔
تو ایسی حرکات سے کیا ہوتا ہے، ملک میں بدامنی نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟ ہر طرف سیاسی افراتفری نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حق پوری دنیا میں سب کو ہے، لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ اگر ہم آئین کو کچھ نہیں سمجھیں گے تو کیا ہم دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی نظروں میں اپنی حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں؟ لہٰذاآئین کی پامالی ہی ہمارے مسائل کی جڑ ہے، تو پھر کیوں آئین بنایا تھا؟ درحقیقت ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ملزم کو ہر صورت اگر جیل میں رکھنا مقصود ہو تو اُس کی ایک مقدمے میں ضمانت کے بعد دوسرے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ نئے مقدمات ایسے بنائے جاتے ہیں جیسے گرفتار شخص دنیا کا سب سے بڑا جرائم پیشہ شخص ہو۔ اور پھر اگر آپ نے کسی کو گرفتار کر لیا ہے تو تمام مقدمات یا دفعات اُسی روز شامل کرلیں، ایسا کیوں کیا جاتا ہے کہ جیل کے اندر بیٹھے شخص پر نئے مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں۔ بندہ پوچھے جیل میں بیٹھ کر اُس نے کونسا کرائم کر لیا ہے؟ یہ تو سیاسی لوگ ہیں، سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، یہ لارنس بشنوئی تو ہے نہیں جو بھارت میں جیل میں بیٹھ کر پوری دنیا میں اپنی تنظیم کا نیٹ ورک چلا رہا ہو۔
لہٰذایہاں پر بھی محض اُس شخصیت کو جیل میں رکھنے کے لیے آئین کو روندا جاتا ہے، آئین کو پامال کیا جاتا ہے، اور سب سے بڑھ کراُس کے لیے باہر نکلنے والوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اگر ملک کو بچانا ہے تو اپنے آئین کی حفاظت کے لیے ”نظریہ ضرورت“ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا ہوگا۔ اور پھر اسی نظریے کے تحت یہ اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھتے ہیں۔پھر ہم آئین کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ کر لیتے ہیں کہ جس پر بعد میں بھی پچھتانا پڑتا ہے۔ جیسے 1977ءمیں ضیا الحق آیا تو سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت اُسے حکومت کرنے کے لیے آئینی تحفظ فراہم کیا۔ آپ اس سے پہلے کا ذکر کر لیں، اس سے پہلے بھی نظریہ ضرورت تھا مگر اُس کی شدت اس قدر نہیں تھی، جیسے پاکستان بننے کے سات سال بعد گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلی توڑ کر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔یہ عمل اس وقت کیا گیا جب چھ دن بعد ملک کے پہلے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا۔ پھر جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت آج تک قائم ہے، جسٹس منیر کے بارے میں ان کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت اپنے فیصلے میں وہ نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو بعد کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ ان کے فیصلے سے پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لاﺅں کا راستہ کھل گیا جو آج تک بند نہیں ہوا۔پھر ’1977 میں ضیاءالحق سے لے کر 2000 میں مشرف کے غیر قانونی اقدام کو آئین کی چھتری فراہم کرنے تک ہماری عدلیہ کے بعض سرکردہ جج نظریہ ضرورت کو قائم دائم رکھے ہوئے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ افتخار چوہدری کی بحالی تحریک کے بعد عدلیہ نے ایک کروٹ لی اور بعد میں مشرف جیسے طاقتور آدمی پر بھی مقدمہ چلا اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ بھی لگا۔لیکن پھر آپ دیکھیں تو جنرل باجوہ کی توسیع کے موقع پر نظریہ ضرورت کی جھلک انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں فریقوں میں دیکھی گئی۔
اور پھر ”نظریہ ضرورت“کے نقصانات کو مزید تقویت دوں تو کیا ذوالفقارعلی بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی نظریہ ضرورت کی پیداوار نہیںہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کو نظریہ ضرورت نے وزیر اعظم بننے کے بعد رہنے نہ دیا۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر نظریہ ضرورت کے پیچھے کوئی طاقت نہ ہو تو خود وزیراعظم ہی ہٹلر بن کر پارلیمنٹ سے پارلیمنٹ کے وجود کو ہی چھین لیتا ہے۔ جیسے آج کل ہو رہا ہے۔ بلکہ تقریباً 150 سال پہلے ساحر لدھیانوی کے قلم نے ”ورثہ“ کے عنوان سے لافانی شاہکار تخلیق کیا۔ تب ہم ساکنانِ ہند تاجِ افرنگ کی غلامی میں تھے۔ انگریزی سامراج سے آزادی کے 77 سال بعد آج ہم ایلیٹ مافیا کے قبضے میں ہیں۔ انگریز کی دربانی اور قابض مافیا میں مماثلت ڈھونڈنے کیلئے ساحر کی سحر زدہ کر دینے والی نظم ورثہ میں اپنا آپ تلاش کرتے ہیں۔
یہ وطن تیری میری نسل کی جاگیر نہیں
سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے
کتنے ذہنوں کا لہو‘ کتنی نگاہوں کا عرق
کتنے چہروں کی حیا‘ کتنی جبینوں کی شفق
خاک کی نذر ہوئی تب یہ نظارے بکھرے
بہرکیف نظریہ ضرورت صرف یہ نہیں کہ کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ سنایا ، نظریہ ضرورت یہ بھی ہے کہ ووٹ صرف وڈیروں کا ہی ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ارتقاءکے اس عمل میں نظریہ ضرورت کے نظریے کو ہم روک بھی سکتے تھے یا پھر دھیما بھی کرسکتے تھے مگر ہماری سیاسی قیادت نے حکومتیں اس طرح بھی کیں جس سے نظریہ ضرورت کی راہیں اور بھی ہموار ہوئیں۔میاں صاحب اور فیصلہ کرنے والوں سے بھی عرض ہے کہ وہ صرف سیاسی آنکھ سے پاکستان کی تاریخ کو نہ دیکھیں بلکہ ایک وسیع تناظر میں اس کا مشاہدہ کریں۔آپ نے صحیح فرمایا کرتے ہیں کہ ہماری تاریخ کا المیہ نظریہ ضرورت ہے لیکن یہ فطری اور حقیقت بھی ہے جو بات آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی باتیں آپ اُس وقت کرتے ہیں جب آپ اقتدار سے آﺅٹ ہو جاتے ہیں، پھر آپ کو نظریہ بھی یاد آتا ہے، آئین بھی یاد آتا ہے، اور اداروں کی زیادتیاں بھی۔ لیکن جیسے ہی آپ کو یا آپ کی پارٹی کو منصب ملتا ہے، آپ سب کچھ بھول کر وہی چیزیں دہراتے ہیں جن کے بعد آئین حکمرانوں کی گھر کی باندی لگنے لگتا ہے۔ لہٰذااس آئین کا احترام کریں، کل کو پھر آپ نے اپوزیشن میں ضرور آنا ہے، پھر آپ یہ نہ کہیے گا کہ مجھے کیوں نکالا؟ یا ووٹ کو عزت دو۔ کیوں کہ آئین ہے تو ہم ہیں اگر یہ نہیں ہے تو پھر کچھ نہیں ہے! اور رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی تو یقین مانیں پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی چاہتی ہے کہ وہ آئین و قانون سے بالاتر ہو اور اس کے لیے وہ عدالتوں اور مقننہ سمیت ہر ادارے کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نظریہ ضرورت اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر کام نہیں کرے گا!اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!