آج بیٹھے بیٹھے قائداعظم کے یوم پیدائش پر ویسے ہی ایک سوال ذہن میں آگیا کہ اگر اس گھٹن زدہ سیاسی ماحول میں جب تمام صحافتی، عدالتی ،قانونی، معاشی، معاشرتی ، دفاعی، خارجی، داخلی و سیاسی فیصلے ”اوپر“ ہور ہے ہیں تو اگر قائداعظم آج زندہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اور اگر وہ 8فروری والے الیکشن دیکھ لیتے تو کیا کرتے؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ ہمارے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حالات ، اراکین اسمبلی و سینیٹرز کی خرید و فروخت دیکھ کر وہ کیسا محسوس ہوتے؟ وہ مملکت پاکستان کو دنیا بھر میں تقریباََ ہر ڈیپارٹمنٹ میں پیچھے دیکھ کر کس قدر پشیمان ہوتے؟ وہ 26ویں آئینی ترامیم جیسی قانونی تبدیلیوں و موشگافیوں کو دیکھ کر کس قدر زچ ہوتے؟ کیا وہ ہمارے سیاستدانوں کی بے بسی پر چلا نہ اُٹھتے؟ اور پھر اگر اُنہیں علم ہوتا کہ ہمارے سیاستدان قانون سازی کے بجائے ٹھیکیداری جیسی اضافی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھارہے ہیں تو کیا وہ ہر ایک کو لائن میں کھڑا کر کے سو سو جوتے نہیں مارتے؟اور یہی نہیں بلکہ اگر آج وہ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ ہمارا بھائی بنگلہ دیش ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے اور ہم چاروں طرف سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں تو یقینا برائی کی جڑوں کو اُکھاڑنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے۔ اور یقینا وہ ہرصورت مزاحمت کی علامت بنے ہوتے۔ کیوں کہ وہ مقتدرہ کی سیاسی میں انٹری کے بھی سخت مخالف تھے۔
انہوں نے 1946 میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہونگے۔“پھر 9جون 1947 کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ”میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ جب فیلڈ مارشل آرمی کو فتح سے ہمکنار کرتاہے تو اس کے بعد سول اتھارٹی کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔“ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ قائداعظم نئی ریاست میں سویلین کنٹرول کے حامی اور خواہشمند تھے۔
وہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے، یعنی برطانوی حکمران سول و ملٹری معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے لارڈ چیمسفورڈ کے دور میں بمبئی میں ہونے والی صوبائی کانفرنس میں شرکت کی اور مشورہ دیا کہ ہندوستان میں کرائے کی فوج کی بجائے ایک ”قومی فوج “تشکیل د ی جائے۔ جس کا کام ملکی سلامتی کو یقینی بنانا ہو، ناکہ سیاست میں عمل دخل ہو۔ لیکن افسوس اُس وقت برطانوی تسلط قائم تھا اور وہ فوج ہی کے ذریعے تمام معاملات کنٹرول کیے ہوئے تھے۔ خیر پاکستان بننے کے معاملات آگے بڑھ رہے تھے، اور چونکہ ہندوستانی فوج بھی تقسیم ہونا تھی، تو اس حوالے سے 30جون 1947ءکو افواج کی تقسیم کے لیے قائم کونسل کا اجلاس ہوا جس میں بھارت اور پاکستان کے فوجی اثاثوں کا تناسب 64اور36تھا جو کم و بیش ہندووں اور مسلمانوں کے تناسب کے برابر تھا۔ چار لاکھ فوج میں سے پاکستان کو تقریباً 33فیصد یعنی ڈیڑھ لاکھ فوج ملی۔ پاکستان کو چار ہزار فوجی افسران کی ضرورت تھی، لیکن اس کے پاس صرف ڈیڑھ ہزار افسر تھے جن میں پانچ سو برطانوی تھے ایک میجر جنرل ،2بریگیڈیئر اور 35کرنل تھے۔ گیارہ مسلم ملٹری افسر سول سروس میں شامل ہو گئے۔ عارضی کمیشن ، شارٹ سروس اور اہلیت و تجربے کے بغیر قبل از وقت ترقیاں دے کر اس کمی کو پورا کیا گیا۔ فوج اور اثاثوں کی تقسیم کے مسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلم فوج پیشہ وارانہ لحاظ سے ایک کمزور فوج تھی۔
یہ فوجی افسران تقسیم کے وقت بھی آزادی کے بجائے نوکریوں ،اپنی ترقیوں اور مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔ سپریم کمانڈر سرکلا وڈآکن لیک کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر جنرل شاہد حامد اپنی کتاب ” Disastrous Twilight“ میں آزادی سے چند روز پہلے فوجی افسران سے قائداعظم کی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ3اگست 1947 کو انہوں نے اپنے گھر پر جنرل آکن لیک، بحریہ و فضائیہ کے سربراہان، پرنسپل سٹاف آفیسرزوغیرہ کو مدعو کیا اور قائداعظم کو بھی خصوصی طور پر دعوت دی۔ تقریب میں قائداعظم خوشگوار باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔ وہ صرف اس وقت رنجیدہ و سنجیدہ ہوئے جب ایک فوجی افسر نے پاکستان میں ترقی کے بارے میں سوال کر دیا۔ قائداعظم نے جذباتی ہو کر سوال کرنے والے کو سر سے پاو¿ں تک دیکھا اور کہا: ”آپ مسلمان یا تو آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں یا دھم سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ تمام ترقیاں اپنے وقت پر ہوں گی اور پاگل پن سے یا جلد بازی میں نہیں کی جائیں گی۔“ انہی افسران کے ایک اور سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی قائداعظم ان فوجی افسران کے ارادے اور خیالات بھانپ گئے اور بڑے دو ٹوک انداز میں فرمایا: ” پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہو گی۔ جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتاہے، اُسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔“ میجر جنرل شاہد حامد کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان فوجی افسران کو آزادی اور حصول پاکستان کی خوشی کم اوراپنی نوکریوں اور ترقیوں کی فکر زیادہ تھی۔ ایک مدبر راہنما کی حیثیت سے قائداعظم کواس ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ فوجی افسران پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر بنانے کی کوششیں کریں گے، چنانچہ انہوں نے بغیر کسی ابہام کے واضح کر دیا کہ یہاں منتخب سول حکومت ہو گی اور جو اس کے برعکس خواہش رکھتاہے، وہ پاکستان منتقل ہونے کا خیال دل سے نکال دے۔
اتنی Straight Forwardبات چیت کے باوجود اندر کھاتے سیاست جاری رہی۔ اور ادارہ بانی پاکستان سے دورہوتا گیا۔ ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خاں فوجی افسران کے اس رویے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”14اگست کا دن تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کراچی میں ایک استقبالیہ دے رہے تھے جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ حاضرین میں د فاعی ملازمتوں کے چند عہدیدار بھی تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ قائد اعظم اپنے مہمانوں کے درمیان بے تکلفی سے گھوم پھر رہے ہیں، وہ فوجی افسر بھی قائداعظم کے قریب آگئے۔ انہیں وردی میں د یکھ کر قائدا عظم نے پوچھ لیا کہ آپ لوگ کیسے ہیں؟ اس بے تکلفی سے اس گروپ کے ایک افسر کرنل اکبر خاں (بعد میں راولپنڈی سازش کیس والے میجر جنرل اکبر خاں) کو حوصلہ ملا اور انہوں نے دفاعی حکمت عملی پر اپنے خیالات کی وضاحت شروع کر دی۔ جوشِ بیان میں انہوں نے ایسے معاملات پر جو ایک جمہوری نظام میں کسی سول حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں، یہ مشورہ دینا شروع کر دیا کہ دفاعی ملازمتوں کا انتظام کس طرح چلانا چاہیے۔ ابھی کرنل اکبر نے بات پوری نہیں کی تھی کہ قائداعظم نے ان کی گفتگو درمیان سے ہی قطع کر دی۔ اپنی انگلی اٹھا کر انہوں نے اکبر خاں پر کڑی نظر ڈالی اور دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کہ” یہ نہ بھولیے کہ آپ لوگ جو مسلح افواج میں ہیں، عوام کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی آپ لوگ نہیں بناتے۔ یہ ہم شہری لوگ ہیں جو ان معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ جو ذمہ داری آپ کو سونپی جائے، اسے پورا کریں۔“
چنانچہ انہوں نے ہر موقع پر سول اداروں اور سول قیادت کی بالادستی کی پر زور تلقین کی۔لیکن بعد ازاں قائد اعظم کے خدشات کو تقویت اس وقت ملی جب ایوب خاں کو مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی گئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خاں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔ قائداعظم نے رپورٹ کی فائل پر لکھا کہ ”میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔“
بہرحال مسائل بڑھتے گئے، نئے سے نئے تنازعات جنم لیتے رہے، قائداعظم کو کئی مواقع پر آن بورڈ بھی نہیں لیا جاتا رہا،،، قصہ مختصر کہ آزادی کے ایک سال بعد فوج کے عام افسر سیاستدانوں پر غلبہ پا چکے تھے۔اورباوجود یکہ پاکستان کی آزادی میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، لیکن اس آزادی کے تحفظ کے لیے پاکستان کو ایک فوج کی ضرورت تھی،،، لیکن تمام معاملات اُلٹ چل رہے تھے، تبھی بابائے قوم پریشان رہنے لگے تھے، اسی اثناءمیں انہوں نے 25مارچ 1948ءکو مشرقی بنگال کے گزٹیڈ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے براہ راست نہیں بلکہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ” آپ حاکم نہیں ہیں، آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے۔ عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ آپ ان کے خادم اور ان کے دوست ہیں۔“ قائداعظم کی یہ تقریرسول اور ملٹری افسران کے لیے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ان کی حدود کا تعین ہے اور سیاست سے دور رہنے کی تلقین و پابندی بھی۔
بہرکیف درج بالا چند حوالے میں نے اس لیے سامنے نہیں رکھے کہ خدانخواستہ قائدا عظم فوج کے سخت خلاف تھے، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ سیاستدان عملی طور پر اس قدر مضبوط ہو جائیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اتنی مہلت ہی نہ دی۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اگر قائد اعظم کو چند سال کی مزید مہلت مل جاتی تو آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔ لیکن وہ آج ہم میں نہیں ہیں،،، لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ان کی تعلیمات اور کہی ہوئی باتوں پر عمل کرکے آگے بڑھنا چاہیے لیکن اس کے برعکس اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم جتنے آج پیچھے رہ گئے ہیں، اس سے بھی زیادہ پیچھے چلے جائیں گے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی!