اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں

گزشتہ بارہ سال سے کمرہ بالکل ویسے کا ویسا ہے جیسا وہ جاتے وقت چھوڑ گئی تھی۔ حتیٰ کہ اس کا ہلکے اودے اور گلابی پھولوں والا جوڑا بھی ڈریسنگ روم میں ابھی تک اسی کھونٹی پر لٹکا ہوا ہے جہاں وہ اسے لٹکا کر گئی تھی۔ حالانکہ اگر وہ ہوتی تو ان میں کوئی چیز بھی وہاں ہرگز نہیں ہونی تھی جہاں وہ بارہ سالوں سے جوں کی توں پڑی ہے۔ وہ تو ہر سیزن میں کمرے کی ساری ترتیب بدل دیتی تھی۔ گرمیوں میں وہ بیڈ کو اس طرف رکھوا دیتی تھی جدھر سامنے ایئر کنڈیشنڈ لگا ہوا ہے اور سردیوں میں وہ اس کی جگہ تبدیل کرکے ادھر کر دیتی تھی جدھر یہ اب پڑا ہوا ہے۔ بیڈ کی جگہ تبدیل کرتے ہی کمرے کی باقی ساری چیزیں بھی اپنی جگہ سے ادھر اُدھر ہو جاتی تھیں۔ اللہ جانے آخری سال اس نے بیڈ کی جگہ کیوں تبدیل نہیں کی تھی۔ سو اب وہ وہیں پڑا ہے۔
میں پہلے بھی بیڈ کی بائیں طرف سوتا تھا‘ اب بھی ادھر ہی سوتا ہوں۔ ان بارہ سال میں بھی بیڈ پر اپنی جگہ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اپنے کمرے کا ہی کیا‘ میں دنیا بھر کے ہوٹلوں میں بھی بیڈ کی بائیں طرف سوتا ہوں۔ دائیں طرف سونے کی عادت ہی نہیں رہی۔ ہاں! البتہ کمرے میں صرف ایک چیز کا اضافہ ہوا ہے اور وہ اس کی تصویر ہے جس میں وہ حسبِ معمول مسکرا رہی ہے۔ یہ تصویر بالکل ویسی ہے جیسی میرے دل کے نہاں خانے میں محفوظ ہے۔ باقی سارا گھر بھی کم وبیش ویسا ہی ہے لیکن سچ یہ کہ اب کچھ بھی تو ویسا نہیں ہے۔
اب نہ چڑیاں ہیں نہ اخبار‘ نہ کپ چائے کا
ایک کرسی ہے جو دالان میں رکھی ہوئی ہے
21 اکتوبر رات دس بجے ہم اسے ہسپتال سے واپس لائے۔ اگلے روز دوپہر تک میں نے اس کا چہرہ نہ دیکھا‘ بلکہ میرا ارادہ تو اس کا چہرہ دیکھنے کا تھا ہی نہیں۔ میں اپنی یادوں میں تادیر اس کا ہمیشہ مسکراتا ہوا چہرہ محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ جب اگلے روز دوپہر اسے اٹھانے کیلئے ہم اندر لائونج میں آئے تو رخصتی سے قبل اسد نے اپنی ماں کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ دیکھ لیا۔ سفید چادر کے درمیان اس کا چہرہ تھوڑا زرد ضرور تھا مگر بالکل ویسا تھا جیسے چھبیس سال‘ چھ ماہ اور اٹھارہ دن پہلے میں نے سرخ جوڑے میں سے جھانکتا ہوا دیکھا تھا۔ اسی طرح کی ہلکی سی مسکراہٹ جو اس کا ٹریڈ مارک تھی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اس روز اس کا چہرہ نہ دیکھتا تو ایک ملال ضرور رہ جاتا۔
کئی سال تک تو ایسا رہا کہ مجھے اس کے چلے جانے کے دنوں کی گنتی بھی یاد تھی مگر پھر ایک دن میں نے دنوں کو شمار کرنا بند کر دیا۔ دل نے کہا آنے کی آس ہو تو دنوں کو شمار کیا جاتا ہے‘ بھلا جانے والے نے کون سا واپس لوٹ کر آنا ہے کہ دنوں کا شمار کیا جائے۔ لیکن معاملہ صرف دنوں کی گنتی تک ہے وگرنہ
اس کی گئی نہ یاد جھمیلوں میں بھی عطاؔ
اور آج کل تو خیر سے فرصت زیادہ ہے
بیرن کارج نیشنل پارک میں دریائے بیرن میں رین فاریسٹ کے درمیان سے گزرتے ہوئے موٹر بوٹ کے ناخدا نے موڑ مڑتے ہی پرے درختوں کے بیچ میں سے دکھائی دینے والی ایک پرانی سی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سو سال سے زیادہ پرانی یہ عمارت دراصل اس جگہ اگائے جانے والے کافی اور چائے کے باغات کے مالک کا گھر ہے۔ خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے سوچا اگر اگلی بار موقع ملا تو اسے بھی اپنے ساتھ ادھر لائوں گا اور اس گھر میں ایک دو دن قیام کا کوئی اہتمام کروں گا۔ اسے بھی میری طرح جنگلوں‘ ویرانوں‘ صحرائوں اور پہاڑوں پر خوار ہونے کا شوق تھا۔ شروع شروع میں مجھے گمان ہوا کہ خدا جانے یہ میرے ساتھ جنگلوں اور ویرانوں کی خاک چھاننے پر تیار بھی ہو گی یا نہیں لیکن بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو میرے سے بھی دو ہاتھ آگے کی چیز ہے۔ پہلی بار اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے تھوڑا تردد ہوا کہ خدا جانے یہ ہوٹل سے نکل کر درختوں کے جھنڈ میں‘ ندی نالوں کے کنارے اور ویرانوں میں پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے انجوائے کرے گی یا مصیبت سمجھ کر بھگتائے گی مگر کالام سے تھوڑا آگے اوشو پلین فاریسٹ میں دیودار کے درختوں کے جھنڈ میں‘ مٹلتان میں پھولوں کے تختوں کے بیچ اور دریائے اتروڑ کے ٹھنڈے پانی میں پائوں ڈالتے ہوئے اس کے چہرے پر جو سرخوشی دیکھی اس نے میری ساری فکر دور کر دی۔ پھر ہم نے ایسے ایسے ویرانے اور جنگل کھوجے کہ اب صرف ان کی یاد ہی رہ گئی ہے۔
سردیوں میں جنگل مجھے اپنی طرف بلاتے تھے اور کچھ نہ بن پڑا تو ملتان سے دو سوا دو گھنٹے کی مسافت پر چیچہ وطنی شہر سے اڑھائی‘ تین کلومیٹر کے فاصلے پر لوئر باری دو آب نہر کے کنارے محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہائوس میں دو تین دن کیلئے ڈیرہ لگا لیا یا قصبہ گرمانی کے پاس عیسن والا جنگل میں ڈانڈے والا ریسٹ ہائوس میں جا کر بسرام کر لیا۔ کچھ نہ ہوا تو ویرانے میں پرانے ہیڈسدھنائی ریسٹ ہاؤس جا ٹھہرے۔ شاید وہ چودھویں کی رات تھی‘ وہ میرے ساتھ جوتے اتارے دریائے سندھ کے ساتھ گیلی مٹی پر چل رہی تھی۔ اللہ جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ مجھ سے کہنے لگی کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو پھر آپ ان جنگلوں اور ویرانوں میں کس کے ساتھ آیا کریں گے؟ میں نے کہا: اول تو تمہیں کچھ ہوگا ہی نہیں۔ پاکستان میں بیوگان کی تعداد رنڈوے مردوں سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اب مجھے ان جگہوں پر تمہارے بغیر جانے کی عادت ہی نہیں رہی۔ ہنس کر کہنے لگی:آپ مردوں کی بات پر رتی برابر اعتبار نہیں۔ میرے بعد آپ کسی اور کو ان جنگلوں میں آنے کا چسکا لگا دیں گے۔ پھر کہنے لگی: اپنی آسانی کیلئے کوئی بندوبست کر لیجیے گا میری طرف سے تو اجازت ہے۔ بارہ سال ہو گئے ہیں جیپ ویلی اور پرانے دوستوں کے ساتھ کیمپنگ کے علاوہ جنگل‘ ویرانے خواب ہو گئے ہیں۔ سردیاں آتی ہیں مگر اب تو جنگل بھی مجھے آواز نہیں دیتے۔ لگتا ہے اس کے بعد جنگلوں نے بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
چند روز پہلے دوحہ ایئرپورٹ پر لمبا ٹرانزٹ تھا اور وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا‘ ایسے میں اس کی یاد بے طرح سے آ جاتی ہے۔ دو تین بار دل کیا کہ اسے فون کروں مگر کس نمبر پر؟ اس نے تو زندگی میں بھی موبائل فون نہیں رکھا تھا اور اب تو گھر کا لینڈ لائن فون بھی اتار کر کہیں رکھ دیا ہے۔ صرف اسی سے لینڈ لائن فون پر بات ہوتی تھی‘ وہ نہ رہی تو بھلا اس کا کیا کرنا تھا؟
میں جانتا ہوں بصارت کا عیب ہے لیکن
کبھی کبھی تیرا چہرہ سنائی دیتا ہے
کومل کے گھر سے کچھ فاصلے پر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ ہے۔ ہر بار دل کرتا تھا کہ اس کے اندر چلا جائوں۔ ایک روز پیدل چلتا ہوا اس جھنڈ کے پاس چلا گیا۔ ایسا گھنا اور گتھا ہوا کہ اندر جانے کی سبیل ہی نہ بن پائی۔ واپسی پر سوچتا رہا کہ اچھا ہی ہوا اس جھنڈ کے اندر نہ جا سکا۔ کیا خبر اندر چلا جاتا اور کسی کی یاد آجاتی تو شاید باہر آنے کو دل نہ کرتا۔
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
خیال آتا ہے کہ اب اس کے جانے کے بعد کے ماہ و سال کی گنتی کرنے کے بجائے ان ماہ و سال کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ انتظار کی مدت میں سے کچھ عرصہ مزید کم ہو گیا ہے۔
گزرتے جا رہے ہیں ماہ و سالِ زندگانی
مگر اک غم پسِ عمر رواں ٹھہرا ہوا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں