ایڈز………… میرا قصور کیا ہے!

ایڈز دنیا کی وہ بیماری کہ جس کے بارے میں سنتے ہی ہر انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ اب اس کی موت کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے اب سسک سسک کر مرنا ہوگا، لیکن اس موت کے خوف سے زیادہ اسے شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا ہے کہ یہ بیماری کہاں سے آئی،یہ مجھے کیسے لاحق ہوئی اور جو انسان صاف ستھری اصولوں والی اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا عادی ہو اور اسے ایڈز ہو جائے تو اس کے پاس اپنے دوستوں، عزیز و اقارب، محلے داروں سے یہ ”گناہ چھپانے“ کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کسی کو کیسے بتائے کہ اسے ”ایڈز“ ہو گئی ہے۔ یہی صورتحال اِس وقت نشتر ہسپتال ملتان کے ان مریضوں کی ہے جن کو ڈاکٹروں کی ”غفلت اور نا اہلی“ سے ایڈز کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ ابھی تک ”25 یقینی مریض“سامنے آ چکے ہیں، جبکہ اندازہ درجنوں مریضوں کا لگایا گیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی ایڈز کہ ان ”25 یقینی“ مگر ”بے قصور“ مریضوں کے اہل خانہ کے ”بلڈ سکریننگ ٹیسٹ“ نہیں کئے گئے کہ پتہ چل سکے کہ کیا وہ ”کلین“ ہیں یا انہیں بھی ان کے ”شوہر یا بیوی“ سے یہ بیماری منتقل ہو چکی ہے۔ ایڈز گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سامنے آنے والی بدترین بیماری ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی نہ کوئی بیماری ایسی آتی رہی ہے جو یقینی موت بن کر سامنے آتی ہے اور لاکھوں کروڑوں جانوں کی بھینٹ لیتی ہے۔ گذشتہ صدی کے شروع تک طاعون ایک بہت بڑی بیماری تھی جو کہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جاتی تھی۔ گزشتہ صدی میں جہاں کینسر کا مرض سامنے آیا وہاں ہیپاٹائٹس نے بھی اپنا زور دکھایا، لیکن ایڈز اس لحاظ سے سب سے بدتر بیماری ہے کہ یہ ان لوگوں کو لاحق ہوتی ہے،جو اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے علاوہ کسی ”دوسرے غیر فرد“ سے جسمانی تعلق پیدا کرتے ہیں اور اس بے راہ روی کے باعث وہ ایڈز کے موذی مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ایڈز کا معاملہ اِس وقت زیادہ ”پبلک“ ہوا جب امریکہ میں ٹینس کھلاڑی آرتھر ایش کو ایڈز ہوئی (آرتھر ایش ٹینس ٹورنامنٹ یو ایس اوپن جیتنے والے پہلے سیاہ فام تھے انہوں نے آسٹریلین اوپن اور ومبلڈن اوپن بھی جیتا تھا)۔ آرتھر ایش کی ایڈز کے موذی مرض کے ہاتھوں موت کے بعد دنیا بھر میں خوف کی لہر دوڑ گئی، جس کے نتیجے میں بے راہ روی میں کچھ کمی تو ہوئی، لیکن خوفزدہ لوگوں نے ”احتیاط بھی برتنی“ شروع کر دی۔اس زمانے میں برطانیہ کی خوبصورت شہزادی اور مستقبل کی ملکہ لیڈی ڈیانا نے دنیا بھر کے ہسپتالوں میں داخل ایڈز کے مریضوں اور خصوصاً بچوں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے مصافحہ کیا، ان کے قریب بیٹھ کر گفتگو کی اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایڈز ”چھوت“ کا مرض نہیں ہے۔ بہرحال آج مقصد ایڈز کے بارے میں بتانا نہیں ہے، بلکہ ان ”بے قصور مریضوں“ کا دکھڑا رونا ہے،جو نشتر میڈیکل ہسپتال ملتان میں اس موذی مرض کا شکار ہوئے اور جس میں ان کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ لوگ وہاں پر ڈائیلسز کرانے جاتے تھے اور وہاں پر ایک دن کسی ایک ایڈز زدہ شخص کو ڈائیلسز مشین پر لٹایا گیا اور پھر غفلت کا یہ مظاہرہ بار بار کیا گیا اور درجنوں مریضوں کو دو ”ایڈز زدہ ڈائیلسز مشینوں“ پر لٹا کر انہیں یہ مرض بانٹا گیا۔

نشتر میڈیکل ہسپتال میں ایڈز بانٹنے کا یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور ”ذمہ دار مریض“ کون ہے؟ یہ تو سامنے نہیں آیا البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کو اس بارے میں 11 اکتوبر 2024ء کو پتہ چل گیا تھا کہ ”ڈائیلسز مشینوں سے ایڈز تقسیم“ ہو رہی ہے، جس کے بعد انتظامیہ نے اس سکینڈل پر پردہ ڈال دیا حتیٰ کہ ایڈز کنٹرول پروگرام والوں کو بھی اس بارے اطلاع نہیں دی گئی، لیکن کب تک؟ ایک مہینے بعد کہانی سامنے آ ہی گئی تو ہسپتال انتظامیہ نے تسلیم کیا کہ 30 مریضوں کے ایڈز میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے دو ڈائیلسز مشینیں بند کر دی ہیں۔ انتظامیہ نے ساتھ ہی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہا کہ ممکن ہے کسی مریض نے باہر سے خون لگوایا ہو جو کہ ایڈز زدہ ہو۔ حکومت نے اتنے سنگین سکینڈل کا نوٹس لیا، تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا، ہسپتال میں ڈائیلسز کے کسی بھی نئے مریض کا داخلہ بند کر دیا گیا، اب پرانے رجسٹرڈ 240 مریضوں کا ہی ڈائیلسز کیا جا رہا ہے۔ قانون کے مطابق ڈائیلسز کرانے والے ہر مریض کا چھ ماہ بعد ایڈز اور تین ماہ بعد ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ لازمی ہے۔ حکومت نے جب نشتر ہسپتال کے معاملات کی چھان بین کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا تو پتہ چلا کہ کسی بھی مریض کا ایک سال سے ایڈز ٹیسٹ نہیں ہوا تھا یعنی کہ غفلت عرصہ سے جاری تھی۔ابھی تک یہ کوئی نہیں بتا سکا کہ وہ پہلا مریض کون تھا، جس کی بدولت ایڈز اس ”نیفرالوجی وارڈ“ کے اندر پہنچی اور پھیلنا شروع ہوئی۔ اب تحقیقاتی کمیشن رپورٹ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر مہناز خاکوانی، نشتر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر کاظم، ہیڈ آف نیفرالوجی ڈاکٹر غلام، ڈاکٹر جہانگیر، ڈاکٹر پونم، سینئر رجسٹرار ڈاکٹر عالمگیر اور ہیڈ نرس ناہید کو معطل کر دیا ہے۔ ڈاکٹروں کے لائسنس منسوخ کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ پریکٹس نہیں کر سکتے، لیکن ”اس پاکستان“ میں کون پوچھتا ہے یہ ”معطل ڈاکٹر“ کسی بھی نجی ہسپتال میں جا کر بیٹھ جائیں گے اور چار چار، پانچ پانچ ہزار روپے فیس مریضوں سے وصول کریں گے تو انہیں کون روکے گا، معطلی تو ایک ڈھکوسلہ ہے، طاقتور کو معطلی ”کیا کہتی“ ہے۔ یہ بھی سنا ہے موت بانٹنے والے ڈاکٹروں سے ”ایڈز زدگان“کو ہرجانہ دلوایا جائے گا، یعنی ڈاکٹروں نے جن افراد کو ”موت بانٹی“ ہے ان بیچاروں کو ہرجانہ دیں گے۔ کیا ان ڈاکٹروں کو ایڈز زدہ ڈائیلسز مشین پر بٹھایا جا سکے گا۔ تاکہ ”انصاف“ ہو۔ انہیں بھی پتہ چلے کس طرح انہوں نے دوسروں کو ایڈز بانٹی ہے۔ خدا کرے کہ ان مریضوں کو جن میں ایڈز بانٹی گئی انہوں نے کسی رشتہ دار کو ایڈز منتقل نہ کر دی ہو۔ خدا کرے کسی اور کو یہ بیماری منتقل نہ ہوئی ہو، لیکن ایک چیز ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان میں کہیں اور کسی جگہ کوئی قانون کوئی ضابطہ کوئی اخلاقیات موجود نہیں ہیں، ہسپتالوں میں اتنی بڑی غفلت کی کوئی توقع ہی نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستان میں قانون موجود ہے کہ اگر کسی کو خون دیا جائے گا تو پہلا ٹیسٹ اس خون میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا ہوتا ہے تاکہ جب خون کسی مریض کو لگایا جائے تو وہ ”کلین“ ہو، پتہ نہیں وہ ٹیسٹ بھی صحیح ہوتے ہیں کہ نہیں۔اب تو ان ڈاکٹروں نے سب مشکوک کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں