ایک قیدی اور جیلیں

پاکستان کی سیاست میں جو ڈرامائی موڑ ہم دیکھتے ہیں، وہ اکثر حیرت، مایوسی اور کبھی کبھی مزاح کے جذبات پیدا کرتے ہیں،پنجاب حکومت ایک طرف پرانے جیل قوانین کوموجودہ حالات کے مطابق تبدیل کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف اڈیالہ جیل کے ایک قیدی کی وجہ سے پورے پنجاب کو بند کر کے جیل بنا نے میں بھی ماہر ہو چکی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اسے اس سلسلے میں رولز میں ترمیم بھی نہیں کرنا پڑی،اڈیالہ جیل کے ایک قیدی کی رہائی کیلئےکیے جانے والے احتجاج کے دوران پنجاب کی سڑکوں پر جو مناظر دیکھنے کو ملے، وہ بھی کسی فلم کے مناظر سے کم نہیں تھے،ملک کے وزیر داخلہ سے لے کر اضلاع کے پولیس افسر تک بڑھکیں مار کر ”جہیڑا اگے آیا اوہنوں چھڈاں گے نہیں“ جیسے ڈائیلاگ بول کر دھمکیاں لگا رہے ہیں،احتجاج کو کنٹرول کرنے کیلئےحکومت نے پورے پنجاب کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ عوامی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی اور سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا یہ اقدامات ایک قیدی کو جیل میں رکھنے کے لئے واقعی ضروری تھے؟ عمران خان،جو کبھی پاکستان کے وزیراعظم تھے، آج اڈیالہ جیل کے ایک قیدی ہیں۔اُن کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، جو مظاہروں کی صورت میں ظاہر ہوئی، لیکن یہ مظاہرے پرامن احتجاج تک محدود نہیں رہے،بلکہ ایک طاقتور بیانیے کا حصہ بن گئے۔ عمران خان کے حامیوں کے نزدیک یہ احتجاج صرف ان کی رہائی کے لئے نہیں،بلکہ ایک نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا۔

حکومت کا ردعمل غیر معمولی تھا۔ اڈیالہ جیل کے ارد گرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، سڑکیں بند کر دی گئیں اور ایک قیدی کی حفاظت کے لئے پورے پنجاب میں ناکے لگا دیئے گئے۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، اور دیگر شہروں میں عوام کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یہ اقدام کسی حد تک معقول ہو سکتا تھا اگر صرف اڈیالہ جیل کے آس پاس کی سکیورٹی کو بڑھایا جاتا، لیکن حکومت نے پورے صوبے کو یرغمال بنا لیا، ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کی رہائی سے بچنے کے لئے پنجاب کو ایک ”بند گلی“ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جب پورے پنجاب کی سڑکیں بند ہو گئیں تو عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ لوگ اسپتالوں تک نہ جا سکے، طلباء امتحانات کے لئے وقت پر نہ پہنچ سکے، اور روزمرہ کی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو گئی،یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک قیدی کو جیل میں رکھنے کے لئے پورے صوبے کی عوام کو تکلیف میں ڈالنا جائز ہے؟

حکومت کے ان اقدامات نے یہ تاثر دیا کہ وہ عمران خان کے حامیوں کے احتجاج سے خوفزدہ ہے، راستوں کو بند کرنا اور عوام کی زندگی مفلوج کرنا نہ صرف غیر جمہوری، بلکہ ایک کمزور حکومت کی علامت بھی ہے، جمہوریت میں احتجاج عوام کا حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق حکمت عملی اپنائے۔

عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے قائد کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے مطابق، عمران خان کو جیل میں رکھنے کا مقصد ان کی مقبولیت کو ختم کرنا اور انہیں سیاست سے باہر کرنا ہے، مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت عوام کی آواز دبانے کے لئے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، اور پورے پنجاب کو جیل میں تبدیل کرنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔اس پورے کھیل میں پنجاب کی عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے صوبے میں رہتے ہیں،جہاں ایک سیاسی کشمکش چل رہی ہے اور وہ سڑکوں کی بندش اور حکومتی اقدامات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یہ پورا معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری کشمکش کی عکاسی کرتا ہے،ایک طرف حکومت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن عوام کو حکومت کے خلاف کرنے کے لئے احتجاج کو ہوا دے رہی ہے، اس کشمکش میں عوام کے مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے،جو کہ جمہوری اقدار کے لئے نقصان دہ ہے۔

یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ کیا حکومت اور اپوزیشن عوام کو مزید مشکلات میں ڈالے بغیر اپنے سیاسی معاملات حل کر سکتے ہیں؟ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے حکمرانی لیکن جب عوام کو ہی متاثر کیا جائے تو یہ جمہوریت کی ناکامی ہے،حکومت اور اپوزیشن کو چاہئے کہ مسائل کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کریں، تصادم اور ضد کی سیاست عوام اور ملک دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم پتھر کے دورمیں زندہ ہیں تو کچھ غلط نہیں کہا جاتا،یہ بات تلخ،مگر حقیقت ہے،زندگی کے کسی شعبہ میں چلے جائیں ازکار رفتہ قوانین اور ضابطوں میں ہماری زندگی بسر ہو رہی ہے،جن روایات، رسوم، اقدار،قوانین کو دنیا مدت پہلے خیر باد کہہ چکی ہمارا آج بھی ان ہی سے واسطہ ہے، بلکہ انہی کی پیروی ہمارا مقصد حیات ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی ترقی یافتہ دنیا سے سینکڑوں سال پیچھے ہیں،ستم یہ کہ ہمارے بچے تعلیم کے نام پر صرف علم کی تاریخ پڑھ رہے ہیں،کس نے کیا شے دریافت کی،کس نے کونسی جنگ کیسے جیتی،کس کی حکمرانی مثالی تھی،علم ادب فن میں کس نے کیا کارنامے انجام دئیے، امریکہ و یورپ میں طرز تعلیم کیا ہے؟یہ ہے ہماری تعلیم کا جزو لا ینفک جو تحقیق،جستجو، دریافت سے عاری ہے،ایسے ہی ہم نے اپنی دینی تعلیم میں کیا،قرااٰن مجید کیا کہتا ہے ہماری ساری جستجو اس نقطے پر مرکوز رہی قرااٰن پاک کے ذریعے اللہ رحمن ہمیں کیا حکم دے رہے ہیں اور ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں اس بارے ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی،ایسے ہی قاعدے قانون کے خلاف کسی ناپسندیدہ فعل پر بھی ہمارا کام صرف سزا دینا ہے اصلاح کی طرف شائد ہی کبھی ہمارا دھیان گیا ہو،یہی وجہ ہے کہ جیلیں جرائم کی تربیت گاہ بن چکی ہیں،سزا ملنے کے بعد انسان وہاں سے ایک بڑا جرائم پیشہ بن کر نکلتا ہے۔

جیل ریفارمز کے نام پر ان دنوں ہونے والی ترامیم کا جائزہ لیکر بتایا جائے کہ اس سے قیدیوں کو کیا ریلیف ملے گا،ریفامز کا مقصد ہونا چاہئے قیدیوں کی اصلاح، تعلیم،تربیت،ہنر مندی،تاکہ وہ جیل سے جانے کے بعد معاشرے کا مفید شہری بن سکے مگر مجوزہ ترمیم کے ذریعے صرف عہدوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں یا ایک کا اختیار دوسرے کو مل رہا ہے،بہتر ہوتا آئی جی جیل خانہ جات اور جیل سپرینڈنٹ کو بااختیار بنا کر انہیں ٹاسک دیا جاتا،پھر جو ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتا اس کو اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا اور جو ناکام ہوتا اسے نوٹس دیا جاتا،احتساب کا ایک خود کار میکنزم لاگو کیا جاتا تاکہ کرپشن،اختیارات سے تجاوز، قیدیوں پر بلا جواز تشدد کی رسم بد کا خاتمہ کیا جا سکتا اور قیدیوں سے صرف مشقت لینے کے بجائے انہیں مفید اور ذمہ دار شہری بنایا جا سکتا۔

اپنا تبصرہ لکھیں