شامی فوج کے حماۃ سے انخلاء کے بعد حزب اختلاف کی افواج اہم شہر میں داخل ہو گئیں۔
شامی فوج کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی فورسز شدید لڑائی کے بعد حماۃ شہر میں داخل ہو گئی ہیں جس سے صدر بشار الاسد کو ایک اور بڑا دھچکا لگا ہے اور اس کے یونٹوں کو اسٹریٹیجک شہر کے باہر دوبارہ تعینات کرنا پڑا ہے۔
فوج نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ وہ شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ اور شہری لڑائی کو روکنے کے لیے” اپنی افواج کو دوبارہ تعینات کر رہی ہے۔
حزب اختلاف کے کمانڈر حسن عبدالغنی نے جمعرات کے روز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا کہ ان کے جنگجو حما میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں جس کا وہ شامی فوج کے ساتھ رات بھر شدید لڑائی کے دوران منگل سے محاصرہ کر رہے تھے۔
الجزیرہ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ حما پر قبضہ ایک “بڑی پیش رفت” ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف ایک ہفتے کے اندر وہ شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب اور اب چوتھے بڑے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
مسلح دھڑوں نے حماۃ شہر کے مضافات میں السماقیات، کفر راع، معرشحور، معردس اور فورسز کا ہیڈ کوارٹر سمجھے جانے والے بکتر بند اسکول پر قبضہ کر لیا ہے۔
شامی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماۃ گورنری میں ایک جوابی حملے میں مسلح دھڑوں کو باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ ھیئہ تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑے شامی فوج کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد حماۃ شہر کے قریب کوہ زین العابدین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔
شامی ریڈیو اور ٹی وی کے مطابق روسی فضائیہ کی مدد سے شامی فضائیہ کے حملوں میں اس ہفتے شام میں 1,600 سے زیادہ جنگجو ہلاک ہوئے ہیں، بدھ کے روز حماۃ میں کم از کم 300 عسکریت پسند مارے گئے، مسلح دھڑوں کے ٹھکانوں اور ان کی نقل و حرکت کے مقامات کو نشانہ بنانے کی وجہ سے کئی مقامات پر مسلح دھڑوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام میں مسلح دھڑوں کے حملوں کے آٹھویں روز تک اموات کی تعداد بڑھ کر 704 ہو گئی ہے، مرنے والوں میں 110 عام شہری، ’’ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی دھڑوں کے 361 عسکریت پسند، حکومتی فورسز کے 233 ارکان اور ان کے وفادار جنگجو شامل ہیں۔