عمران خان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی کے ایک حالیہ بیان نے عوام اور میڈیا میں حیرت اور تنازع کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی اصل وجہ ان کا مدینہ منورہ ننگے پاؤں جانا تھا۔ ان کے مطابق، اس واقعے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایسی فون کالز موصول ہوئیں جن میں کہا گیا: “یہ تم کیا اٹھا کر لے آئے ہو؟ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اور تم شریعت کے ٹھیکیدار لے آئے ہو۔”
اس بیان پر مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا۔ تجزیہ کاروں نے اسے غیر ذمہ دارانہ اور حقیقت کے برعکس قرار دیا، جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر متعلقہ شخصیات نے اس دعوے کو مکمل طور پر جھوٹا اور بے بنیاد کہا۔ تحریک انصاف کے رہنما اس بیان کی وضاحتیں اور تاویلیں پیش کر رہے ہیں، لیکن ان کی کوششوں کا اثر محدود نظر آتا ہے۔ اندرون خانہ کئی پارٹی رہنماؤں نے اسے سیاسی خودکشی قرار دیا ہے۔
پاکستان جیسے حساس ملک میں، جہاں سیاست اور مذہب گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں، اس طرح کے بیانات مزید سیاسی اور سماجی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق، عوامی اور سیاسی رہنماؤں کو سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری اپنے خاندان کے افراد کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے اور انہیں خود بھی اپنے بیانات میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے، خاص طور پر جب یہ مذہبی جذبات یا قومی مفادات سے جڑے ہوں۔
میڈیا اور تجزیہ کار اس بیان کو تحریک انصاف کی جانب سے مذہبی جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی ایک اور مثال قرار دے رہے ہیں اور اس کے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت کی ناتجربہ کاری اور غیر سنجیدہ بیانات نے پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ بشریٰ بی بی کا حالیہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی محسوس ہوتا ہے، جو نہ صرف عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
بشریٰ ریاض وٹو سے بشریٰ خاور مانیکا اور پھر بشریٰ عمران خان نیازی تک کا سفر طے کرنے والی بشریٰ بی بی، عرف “پنکی پیرنی”، کی رسمی تعلیمی قابلیت کے بارے میں عوامی معلومات دستیاب نہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ صرف آٹھویں جماعت تک پڑھی ہوئی ہیں۔ انیس سال کی عمر میں ان کی شادی خاور مانیکا سے ہوئی، اور وہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں۔ خاور مانیکا کے مطابق، بشریٰ کو رقص کا بہت شوق تھا، اور وہ خاندان کی تقریبات میں رقص کیا کرتی تھیں۔
بعد میں، بشریٰ نے صوفی اسکالر، روحانی معلمہ، اور پیرنی کا روپ دھار لیا۔ انہوں نے دم درود، جادو ٹونے، گنڈے تعویز، اور مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ عمران خان بھی بشریٰ کی “روحانی رہنمائی” کے زیر اثر آئے، اور ان کے وزیراعظم بننے کے لیے بشریٰ نے روحانی ٹوٹکوں کا سہارا لیا۔ شریعت کے ان علمبرداروں کی کئی حرکتیں، جیسے مزاروں پر سجدے، سخت تنقید کا نشانہ بنیں۔ کہ سجدہ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے، اور ایسے غیر اسلامی رسومات توحید کے اصولوں کے خلاف ہیں۔
پاکستانی سیاست میں مذہب کا استعمال ایک پرانا رجحان ہے۔ سیاسی رہنما اکثر عوامی جذبات کو مذہبی رنگ دے کر اپنی حمایت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہب کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنا غیر اخلاقی اعمال کو چھپانے کے لیے ایک مؤثر حربہ سمجھا جاتا ہے۔ دیندار دکھنے والے افراد کو عوامی طور پر زیادہ قبولیت ملتی ہے، جو ان کے کردار پر سوال اٹھانے کو روکتا ہے۔ بشریٰ بی بی کا حالیہ بیان اسی رجحان کی ایک مثال ہے، جس میں انہوں نے شریعت کے نفاذ کو اپنی اور عمران خان کی قیادت کا بنیادی مقصد قرار دیا۔ تاہم، مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا معاشرتی تقسیم اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے بیانات نہ صرف عوامی جذبات کو بھڑکاتے ہیں بلکہ عوام کے اصل مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کے بیان کے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر ممکنہ اثرات پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جو مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، اور اسٹریٹجک روابط پر مبنی ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ہمیشہ مالی اور سفارتی مدد فراہم کی، جیسے ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگوں کے دوران یا حالیہ مالی بحرانوں میں۔
پاکستانی فوج کے اہلکار ۱۹۶۰ کی دہائی سے سعودی عرب میں تربیت اور مشاورت کے لیے تعینات ہیں۔ حالیہ برسوں میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار بھی ہے، جبکہ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور وطن کو اربوں ڈالر کی ترسیلات بھیجتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کا حالیہ بیان ایک یاد دہانی ہے کہ سیاست میں الفاظ کی اہمیت کتنی زیادہ ہوتی ہے اور سیاست سے نابلد لوگوں کو کیوں سیاست نہیں کرنی چاہیے ۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ مذہب اور خارجہ معاملات جیسے حساس موضوعات پر گفتگو کرتے وقت غیر معمولی احتیاط برتے۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف پارٹی بلکہ ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں عوامی جذبات اور مذہبی عقائد گہرے اثرات رکھتے ہیں، سیاستدانوں کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو معاشرتی تقسیم یا تنازعے کا باعث بنیں۔ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مسائل پر سنجیدہ اور مؤثر گفتگو کریں، بجائے اس کے کہ مذہبی جذبات کو ابھار کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔