بھارتی اشرافیہ کی حب الوطنی اور پاکستانی اشرافیہ کی بے حسی !

گزشتہ روز بھارتی صنعتکار اور دنیا کے امیر ترین شخص رتن ٹاٹا کا انتقال ہوا، وہ دنیا کے امیر ترین افراد کیسے تھے؟( حالانکہ اُن کا نام کبھی کسی جریدے فوربزوغیرہ نے ٹاپ ٹین امیر ترین شخصیات میں نہیں گنا) اس حوالے سے آگے چل کر ذکر کریں گے لیکن وہ حقیقت میں وطن پرست شخصیت تھے، وہ 365ارب ڈالر کے اکیلے مالک تھے،اگر صرف ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کی بات کی جائے تو اس کی مالیت 170 ارب امریکی ڈالر ہے جو کہ انڈیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کی مالیت پاکستان کی معیشت کا تقریباً نصف ہے۔ یعنی پورے پاکستان کی جی ڈی پی سے بھی کہیں زیادہ، اُن کاکاروبار 6براعظموں تک پھیلا ہوا ہے، آپ شاید مجھ سے بھی زیادہ اُن کے بارے میں جانتے ہوں مگر اس کالم میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُنہوں نے انڈیا کے لیے کیا کیا؟ بیسیوں صدی کے اوائل میں ٹاٹا خاندان نے ایشیا کا پہلا سٹیل کارخانہ ہندوستان میں لگایا۔ اس کارخانے کے گرد ایک شہر آباد ہوا جسے جمشیدپور کا نام دیا گیا اور یہ آج انڈیا کی سٹیل سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹاٹا خاندان نے کسی قانونی پابندی کے بغیر خود ہی اپنے ملازمین کی بہبود کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں جن میں 1877 میں پینشن، 1912 میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات اور 1921 میں ماں بنے والی خواتین کے لیے مراعات شامل ہیں۔پھر اُن کے خاندان نے بھارت کا پہلا فائیو سٹار ہوٹل تاج محل بنایا جس میں جدید مغربی سسٹم بنایا گیا، اور انگریزی ویٹرز متعارف کروائے گئے۔ اس کے بعد ٹاٹا خاندان نے پہلی ائیرلائن انڈیا میں قائم کی، جس کا نام ٹاٹا ائیر لائن رکھا گیا، جسے کچھ عرصے بعد نام بدل کر ’ایئر انڈیا‘ کر دیا گیا۔لیکن ایک بار پھر اس نے اس کمپنی کو حکومت سے خرید لیا ہے۔ ایئر انڈیا کے حصول کے بعد اب ’ٹاٹا سنز‘ کے پاس تین ایئر لائنز ہیں۔ ’ایئر وسٹارا‘ جس میں ان کی ’سنگاپور ایئر لائنز‘ کے ساتھ شراکت ہے اور وہ ’ایئر ایشیا‘ میں ملائیشیا کے ساتھ شراکت دار ہیں۔
اس کے بعد ٹاٹا خاندان کمپیوٹر کو بھارت میں متعارف کروانے میں کامیاب ہوا، یعنی اس خاندان نے 1968 میں انھوں نے اپنے خاندان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے کاروبار کا آغاز کیا جو ترقی یافتہ ممالک سے منسوب کیا جاتا تھا یعنی کمپیوٹر سے متعلقہ کاروبار۔’ٹاٹا کینسلٹنسی سروسز‘ یا ’ٹی سی ایس‘ نامی یہ کمپنی دنیا بھر میں سافٹ ویئر سپلائی کرتی ہے، اور یہ اس وقت بھی ٹاٹا گروپ میں سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں میں سے ایک ہے۔اس کے علاوہ ٹاٹا موٹرز اس گروپ کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے، جو برطانوی کار ساز اداروں ’جیگوار‘ اور ’لینڈ روور‘ کی بھی مالک ہے۔ 1991 میں اس خاندان کے اہم رکن رتن ٹاٹا نے کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی قیادت میں ٹاٹا نے دنیا بھر میں اپنے کاروبار کو بڑھایا۔ ٹاٹا نے ٹیٹلی چائے، اے آئی جی انشورنس کمپنی، بوسٹن میں رٹز کارلٹن، ڈائیوو کی بھاری گاڑیاں بنانے والا یونٹ اور کورس سٹیل یورپ جیسی کمپنیاں خریدیں۔اور بھارت سے ملازمین لا کر ان کمپنیوں میں بھرتی کیے۔ تاکہ ان کا سرمایہ بھی بھارت میں ہی آئے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’کسی قوم کی ترقی کے لیے کمزور ترین اور سب سے زیادہ بے بس لوگوں کو سہارا دینے کے بجائے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ لائق اور خداداد قابلیت کے حامل لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔‘
رتن ٹاٹا دن رات اپنی کمپنی کے لیے کام کرتے اور اس دوران اُنہیں اپنی شادی کی ہوش بھی نہ رہی، اُن کے بقول اُنہوں نے چار دفعہ شادی کی کوشش کی لیکن کسی نہ کسی طرح یہ فریضہ رہتا رہتا رہ گیا۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ امبانی یا ایڈانی کی طرح کسی قسم کی تشہیر سے پرہیز کرتے تھے۔ وہ ’بکواس‘ نقطہ نظر سے پرہیز کرتے اور خاموشی کے ساتھ بغیر کسی شور شرابے کے پوری توجہ سے کام کرنے کی کوشش کرتے۔وہ اس قدر مصروف رہتے کہ ایک بار معروف بھارتی اداکار دلیپ کمار جہاز میں ساتھ والی سیٹ پر براجمان شخص کی طرف بے اعتنائی سے کسمسارہے تھے۔ اس شخص نے انکی طرف مطلق توجہ دی نہ ایک نظر دیکھا۔ دلیپ کمار کو عالمی شہرت اور ہر انڈین کے دل میں جاگزیں ہونے کا بجا زعم تھا۔ بالآخر دلیپ کمار نے ان سے پوچھ ہی لیا ”صاحب! کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟“ اس شخص نے دلیپ کمار کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ”نہیں‘ میں نے آپ کو کبھی پہلے نہیں دیکھا“۔ اس پر دلیپ کمار نے اپنا تعارف کرایا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ شروع سے کاروبار میں ایسے مصروف اور مگن ہوگیا کہ فلمیں دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ شخص بھارت کی سب سے بڑی ٹاٹا انڈسٹری کو چار چاند لگانے والوں میں سب سے آگے رتن ٹاٹا ہی تھے۔
اب میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ رتن ٹاٹا کو امیر ترین ہونے کا شرف کیوں حاصل نہیں تھا، وہ اس لیے کہ ٹاٹا گروپ کے 65 فیصد اثاثوں کے مالک چند خیراتی ادارے ہیں۔ کاروبار خیراتی اداروں کے ذریعے ہونے کی وجہ سے یہ رتن ٹاٹا کے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا جاتا اور رتن ٹاٹا کبھی بھی ارب پتی افراد کی فہرست میں جگہ نہیں بنا پاتے۔چونکہ رتن ٹاٹا کے منافع کا بیشتر حصہ خیراتی اداروں میں چلا جاتا ہے اس لیے ان کے ہاتھ صرف نیک نامی آتی ہے۔ ٹاٹا گروپ کے خیراتی کام صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جس کی ایک مثال ہارورڈ بزنس سکول کو دیے گئے 2 اعشاریہ 20 ارب ڈالرز ہیں۔ یہ رقم بزنس سکول کے ریاست میسا چوسیٹس کے شہر بوسٹن میں نئے بلاک کی تعمیر کیلئے دی گئی تھی۔
چاہے رتن ٹاٹا کاغذوں پر ارب پتی نہ ہوں لیکن پھر بھی وہ نہ صرف انتہائی امیر کبیر شخصیت ہیں بلکہ ایک ایسی ہستی ہیں جو عام لوگوں کی زندگی آسان بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ رتن ٹاٹا کے گروپ نے ہی عام لوگوں کے لیے دنیا کی سستی ترین نینو کار متعارف کرائی تھی اس کے علاوہ انہوں نے بھارت میں پینے کے صاف پانی کے حوالے سے انتہائی سستے گھریلو فلٹر متعارف کرائے تھے۔ رتن ٹاٹا نے ایک بار کہا تھا ’ میں نہیں چاہتا کہ بھارت دنیا کی معاشی سپر پاور بنے بلکہ میں بھارت کو ایک خوشحال ملک دیکھنا چاہتا ہوں‘۔
قصہ مختصر کہ وہ ہر لحاظ سے اپنے ملک کے بارے میں سوچتے تھے، لیکن اس کے برعکس ہمارے دولت مند افراد مختلف کمپنیاں بنا کر اپنے ہی عوام کو لوٹ کر اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔ اور اس کارخیر میں اکیلا بزنس مین نہیں بلکہ سیاستدان، سرکاری افسران، جرنیل سبھی شامل ہیں جن کے اثاثے اور کاروبار اپنے ملک میں ہونے کے بجائے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ رتن ٹاٹا کہا کرتے تھے کہ ”ادارے ان افراد سے بھی بالاتر اور زیادہ اہم ہوتے ہیں، جو ان اداروں کی قیادت کرتے ہیں۔“ لیکن یہاں ہر ادارے میں شخصیت پرستی عروج پر ہے، ہم اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصیات کو مضبوط کرتے ہیں۔ تبھی یہ شخصیات اتنی طاقتور ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنے علاوہ کسی کا نہیں سوچتی۔ وہ اتنی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہیں کہ وہ تمام سیاہ و سفید کی مالک بن جاتی ہیں۔ اور جب انہیں علم ہے کہ ان کے پیسے کے بارے میں سرکار پوچھ سکتی ہے کہ اتنا پیسہ کہاں سے اور کیسے بنایا تو یہ لوگ آف شور بنا کر وہاں پیسہ رکھتے ہیں،،، جیسے پانامہ لیکس تو سب کو یاد ہوگا۔ جس میں ہمارے سیاستدانوں کے بچوں کی محنت اور خون پسینے سے کمائی ہوئی رقم اگر آف شور کمپنیوں میں موجود ہے تو پاکستانیوں کو کیوں شک و شبہات کا شکار ہونا چاہئے کہ وہ رقم ناجائز طریقے سے کمائی گئی ہوگی اور منی لانڈرنگ کی خاطر آف شور کمپنیوں میں منتقل کر دی گئی۔ ہم جو اس ملک میں وزیراعظم کے عزیز ہموطن ہیں ، ہمیں یہ شکایت نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ رقم جائز ذرائع سے کمائی گئی رقم ہوگی۔ ہمیں تو صرف گلہ یہ رہا ہے کہ ان کے بچوں نے یہ رقم باہر کیوں رکھی ہے ؟
اگر ٹاٹا جیسی، امبانی یا ایڈانی جیسی شخصیات اپنے ملک کے بارے میں سوچ سکتی ہیں تو ہمارے بزنس مین ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اس وقت آپ دبئی میں دیکھ لیں، 11ہزار سے زائد پاکستانیوں نے وہاں جائیداد خرید رکھی ہیں، یہ صرف ایک ملک کی بات ہے، باقی دنیا کی بات نہیں کررہا۔ الغرض بیرون ملک پیسہ منتقل کرنے کی بیماری یا وبا پاکستان کے ان چودہ سو لوگوں میں (ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بڑے دولت مند وں کی تعداد یہ ہے) پائی جاتی ہے جن کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ اکثر کو تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے، ان کی جائیدادیں کہاں کہاں ہیں، ان کے ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ پاکستان میں اس خرابی کی بنیادی ذمہ داری تو حکمرانوں کی ہے جنہوں نے اس ملک میں یہ اعتماد سازی ہی نہیں کی کہ لوگ اس ملک میں اپنی رقم محفوظ سمجھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں کو قومی ملکیت میں لیا تو صبح کے ارب پتی شام کو کنگال ہو چکے تھے۔ اس سے قبل مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے صنعتکار وں کا سرمایہ مشرقی پاکستان میں ڈوب گیا تھا۔
آپ یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں قصور ہماری پالیسیوں کا بھی ہے، یہاں دولت مندوںکا اعتماد بھی ڈھیر ہو چکا ہے، تبھی جو لوگ ملک سے اپنا پیسہ باہر نہیں بھیج سکتے۔ وہ اپنا پیسہ گھروں میں رکھتے ہیں، ہیرے جواہرات خرید کر رکھتے ہیں، سونا خرید کر اپنی پونجی محفوظ تصور کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے ذرائع آمدن ناجائز ہیں، وہ تو بڑی رقم کے ان پرائز بانڈ کو خرید لیتے ہیں جن پر انعام نکل چکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں اعتماد موجود ہے، ان سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی دولت اپنے ملک سے باہر کیوں رکھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے فیصلے کرنے والوں کو چاہیے کہ ہمارے دولتمند افراد کا مجموعی پیسہ جو 100ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اگر وہ ہی پاکستانی بینکوں میں لایا جائے اور اُس کے لیے کسی پالیسی کا اعلان کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن بات صرف اعتماد دینے کی ہے۔ اور یہ اعتماد لانگ ٹرم پالیسیوں کے بعد ہی آتا ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں