جنگ عظیم کا ڈھکوسلہ

پچھلے سال اسی مہینے میں حماس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تو کوئی عقل کا اندھا ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ ردعمل شدید نہیں ہو گا۔ اسی لیے اس وقت بھی سنجیدہ حلقوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ حماس نے کیا سوچ کر اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ بعض لوگوں کا اندازہ تھا کہ اسرائیل کو ٹریپ کر کے لڑائی میں گھسیٹا گیا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جال میں پھنستا چلا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ غزہ پر روز قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ پچاس ہزار شہری جان سے گئے، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں زخمی ہیں، کئی معذور ہو چکے۔ اسرائیل نے کیا خاک ٹریپ ہونا تھا الٹا اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز فراہم کر دیا گیا۔ جب یہ لڑائی شروع ہوئی تو یہ واضح تھا کہ کوئی دوسرا ملک اس میں براہ راست حصہ دار نہیں بنے گا۔ لبنان، عراق، شام اور پھر یمن میں اپنے ساتھ ہاتھ ہوتا دیکھ کر عرب ممالک نہ صرف امریکی پالیسیوں سے خبردار ہو گئے بلکہ اپنے وسائل کو بھی جنگوں میں جھونکنا بند کر دیا۔ اسی منظر نامے کے دوران اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل تہران گئے۔ ایران کی اعلیٰ قیادت سے مدد مانگی مگر ان کی مراد بر نہیں آئی، ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو خیال کرتا تھا کہ ایران خطے میں موجود اپنی پراکسیز کے ذریعے لڑائی کو بڑھائے گا لیکن اس کا سب سے بڑا حامی گروپ حزب اللہ بھی مختلف مواقع پر کھلی جنگ میں الجھنے سے گریز کرتا رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ ایک ایسا عمل ہے جو ایک بار شروع ہو جائے تو صرف فریقین ہی نہیں اصل منصوبہ سازوں کے ہاتھوں سے بھی نکل جاتا ہے۔ پچھلی چار دہائیوں سے امریکہ نے اس امر کو یقینی بنایا کہ خطے میں طاقت کا توازن رہے، ایران اور اسرائیل کا براہ راست ٹکراو نہ ہو۔ بے تحاشا دولت اور قدرتی وسائل سے مالا مال عرب ممالک اپنے تحفظ کے لیے امریکہ کو بھاری فیس ادا کرتے رہیں۔ گریٹر اسرائیل کے لیے صیہونی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس لیے وہ بھی جارحیت سے باز نہیں آیا۔ اسرائیل نے اس دوران سب سے زیادہ کام اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط بنانے پر کیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوئے ایرانی صدر رئیسی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جانے والے اسماعیل ہانیہ کو تہران کے محفوظ فوجی علاقے میں نشانہ بنا کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ حسن نصراللہ کو ٹارگٹ کرنے سے پہلے اور بعد میں حزب اللہ کے کمانڈروں کو چن چن کر مارا گیا۔ اسی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی بدولت شام میں کئی عسکری ٹھکانے اڑا دئیے گئے۔ یمن میں حوثیوں کی فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔ ان حالات میں نتن یاہو کا اقوام متحدہ جا کر یہ دعویٰ کرنا کہ ایران سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی اس کی پہنچ سے دور نہیں، بے جا نہیں ہے۔ اسی لیے حسن نصراللہ پر حملے کے فوری بعد ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی کو کسی محفوظ اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ منگل کو ایران نے اسرائیل پر چار سو میزائلوں سے جو حملہ کیا وہ اپریل میں کیے جانے والے حملہ جیسا ہی تھا جس سے کوئی خاص نقصان نہ ہو سکا۔ اتنا ضرور ہے کہ اب اسرائیل کو جوابی کارروائی کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ اپنے خلاف موثر مزاحمت نہ پا کر نیتن یاہو کا غرور آسمان کو چھو رہا ہے۔ تین روز قبل کی جانے والی پریس کانفرنس میں اس نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے حکمران امن و خوشحالی نہیں چاہیے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ ایرانی عوام کو موجودہ حکمران گروہ کے خلاف بغاوت کے لیے اُکسا رہا ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل اس بار ایرانی حملوں کا جواب دے گا۔ اس حملے کی نوعیت کیا ہو گی اور اس کے بعد ایران میں عوامی ردعمل کیسا آئے گا؟ مستقبل کے نقشے کا سار دار و مدار اسی پر ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنا ہو گا کہ امریکہ اس معاملے میں کس حد تک کھل کر سامنے آتا ہے۔ یہ کہنا کہ تیسری جنگ عظیم یا کوئی بہت بڑی جنگ شروع ہونے والی قطعاً درست نہیں۔ ایران کی موجودہ قیادت اور کم از کم چار ممالک میں موجود اس کی پراکسیز کے لیے نیا امتحان شروع ہو سکتا ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل پر ایران کے حملے سے اگر کوئی نقصان نہیں ہوا تب بھی کسی نے ہمت تو دکھائی، ان کی اپنی رائے ہے۔ لیکن یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ خالی میزائل چلا کر بپھرے بیل کو سرخ کپڑا دکھایا جائے اور لاکھوں اور جانیں خطرے میں ڈال دی جائیں۔ ہمارے دوست عامر یعقوب نے جامع تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ’’جنگ میں چھوٹے سے چھوٹے حملے کے لیے بھی کسی مخصوص ہدف کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کا مقصد دشمن کی کسی جاری پیش قدمی کو روکنا یا اسے کسی ممکنہ ردعمل کی صلاحیت سے محروم کرنا ہوتا ہے۔ ہدف اور مطلوبہ مقصد کے تعین کے بغیر دشمن کی فضائی حدود میں میزائل داغنے کو فوجی حملہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لیے لوگ اس عمل کو محض آتشبازی کا مظاہرہ کہہ رہے ہیں، فوجی ہدف کا تو ذکر ہی کیا کسی سویلین ہدف کو بھی نشانہ نہ بنایا جا سکا، یہاں تک کہ جنوبی لبنان میں پیش قدمی کرنے والے دستوں کو بھی نشانہ نہ بنایا گیا۔‘‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کارروائی کا اصل مقصد اپنے ہی عوام کو مطمئن کرنا اور دیگر ممالک میں اپنے حامیوں کے حوصلہ بلند کرنا تھا۔ دوسری بات یہ کہ کسی عرب ملک نے حماس کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے کہا اور نہ ہی بعد میں مسلح کارروائیوں کی حمایت کی۔ عرب سپرنگ کی آڑ میں خاک و خون کا جو کھیل کھیلا گیا وہ یمن لڑائی تک پہنچا تو ان ممالک کی نوجوان قیادت نے اس گریٹ گیم کو بھانپ کر کنارا کشی اختیار کر لی تھی۔ تاریخ شاہد ہے جنگ کبھی بغیر تیاری اور بغیر منصوبہ بندی نہیں لڑی جاتی، گوریلا وار کا تصور بالکل مختلف ہے، اب کہا جا رہا ہے کہ لڑائی چھڑ ہی گئی ہے تو تنقید نہ کریں، دشمن بربادی پھیلاتا جا رہا ہے، بلین ڈالر کا سوال یہی ہے کہ حماس کو اسرائیل پر حملہ کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟

اپنا تبصرہ لکھیں