جنگ کا پھیلاﺅ صرف نتین یاہوکے مفاد میں ہے!

گزشتہ سال 7اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیل فلسطین جنگ کا دائرہ کار بڑھ کر اسرائیل لبنان سے ہوتا ہوا، اسرائیل ایران جنگ تک پہنچ چکا ہے۔ جنگ کے آغاز میں ایران براہ راست فریق تو نہیں تھا مگر ایرانی سرزمین پر اسرائیل کے ٹارگٹڈ حملے میں جب حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا اور پھر حالیہ حملے میںلبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا تو ایران نے سوچا کہ اب بات بڑھ گئی ہے ، اور اب اگر ایران نے اسرائیل کا راستہ نہ روکا تو وہ بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ روندتا چلا جائے گا۔ تبھی گزشتہ روز ایران نے اسرائیلی شہر جسے ٹیکنالوجی کا ہب بھی کہا جاتا ہے پر 400بیلسٹک میزائل فائر کیے، جبکہ اسرائیل نے 180میزائلوں کی تصدیق کی جس میں سے متعدد اسرائیل ائیر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے تباہ کر دیے جبکہ کچھ میزائل اسرائیلی زمین تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حالیہ جنگ نے ایک چیز تو واضح کر دی ہے کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس معلومات نے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، کیوں کہ حسن نصر اللہ ، اسماعیل ہانیہ سمیت کئی رہنما جو شہید کر دیے گئے اُن کی نقل و حرکت اتنی محدود ہونے کے باوجود اسرائیل نے نہ صرف اُن کا پتہ لگایا بلکہ اُنہیں شہید بھی کردیا۔ خیر ہم مسلمان ملکوں کو کم از کم اتنی ٹیکنالوجی تو حاصل کرنی چاہیے کہ دشمن آپ پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے۔
خیر بات ہو رہی تھی ایران کے اسرائیل پر حالیہ حملوں کی تو تہران کی جانب سے بڑے پیمانے پر اسرائیل کے خلاف دوسرے میزائل حملے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایران اور اسرائیل کھلی جنگ کے دہانے پر آ چکے ہیں؟کیوں کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جبکہ لبنان پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل زمینی حملے کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ ایسے میں کیا خطے میں ایک نئی اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے اور کیا ایران اور اسرائیل براہِ راست ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں؟اس پر دنیا بھر میں بحث چھڑ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل جنگ کو بڑھاناجبکہ مغربی دنیا اسے ختم کرنا چاہتی ہے، چونکہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو نتین یاہو کے فلسطین میں جنگی جرائم کی انکوائریاں ہوں گی، اسی لیے وہ چاہتا ہے کہ جنگ پھیلے، کیوں کہ اگر جنگ پھیلے گی تو سب کا دھیان بٹا رہے گا، امریکا بھی اسی جنگ میں شریک رہے گا، تبھی وہ جنگ کا دائرہ کار اتنا وسیع کر دے گا کہ اگلے کئی سالوں تک اس کے اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ اور اس طرح نتین یاہو پر ہونے والی انکوائریاں بھی نہیں کھلیں گی اور ان بڑی جنگوں کے سامنے غزہ کی جنگ چھوٹی لگنا شروع ہو جائے گی۔ اس لیے ماہرین کے مطابق جنگ کو پھیلانا نتین یاہو کے مفاد میں ہے۔ لہٰذا امریکا اورمغربی دنیا کو بھی سوچنا چاہیے کہ صرف ایک بندے کی حکومت کو بچانے کے لیے انہوں نے پوری دنیا کو اس جنگ میں جھونک دیا ہے۔
اور رہی بات یہ کہ کیا اکیلا اسرائیل عرب دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے تو اس وقت امریکا اور مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے، اور 6کے قریب امریکی بحری بیڑے اس وقت اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے قرب و جوار کے سمندری علاقوں میں موجود ہیں۔ تو ایسے میں لگ تو یہی رہا ہے کہ اگر ایران اسرائیل جنگ چھڑی تو امریکا سو فیصد اس جنگ میں نیوٹرل ملک ہونے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دیتا نظر آئے گا۔ اور ویسے بھی اس وقت اگر دونوں ممالک کی جنگی قوت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے اور ایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ جس میزائل پروگرام پر وہ کافی عرصے سے کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ 2022 میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس 3000سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔ دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔میزائلوں کا یہ ذخیرہ اس نے گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یا اپنے طور پر ملک ہی میں تیار کیے ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کئی ملکوں کو میزائل برآمد بھی کرتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کہ کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کو متواتر فضا میں ہی تباہ کر کے وہ آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔آئرن ڈوم کی طرح کا دنیا میں کوئی اور دفاعی نظام نہیں ہے اور یہ بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل سے بہت زیادہ بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہو گا کہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔ اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔اور اس میں رواں سال سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ اسرائیل کے پاس جس چیز کی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور بہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔ اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186 ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 13 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔
بہرکیف یہ بات تو طے ہے کہ دونوں فریقین اس وقت مزید حملوں کی تیاریاں کر رہے ہیں، لیکن یہ بات ہمیں سمجھنی چاہیے کہ جب آپ جنگ شروع کرتے ہیں، تو یہ آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، آپ کو اس کے نتیجے کا علم ہی نہیں ہوتا، اور پھر اگلا فریق اگر توقعات سے زیادہ ہوشیار اورطاقتور نکل آئے تو پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ اور شاید آپ کے علم میں ہو کہ شام میں بھی اس وقت دو فریقین گزشتہ کئی سالوں سے لڑ رہے ہیں، وہاں ایک طرف سنی مزاحمت پسند جبکہ دوسری جانب شیعہ حکومت ہے، سنی مزاحمتی گروہوں کو امریکا کی جبکہ شیعہ حکومت کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ امریکا ابھی تک وہاں پر ایران کی حمایت یافتہ حکومت کو تو ختم نہیں کرا سکا، اس لیے اسرائیل کو ہر گز ایران کو آسان ہدف نہیں سمجھنا چاہیے۔ جبکہ یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس ساری صورتحال میں کیا چین، ترکیہ اور روس خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ہر گز نہیں! وہ مبینہ طور پر ایران کا ساتھ دیں گے، کیوں کہ یہ ممالک کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ خطے میں امریکا کا اثرو رسوخ بڑھے۔ اور ایران جنگ ہار جائے۔ اگر ایسا ہوا تو امریکا بہادر مزید بہادر ہو جائے گا اور وہ اپنی دہشت سے کسی ملک کو بھی نہیں چھوڑے گا۔ خیر بات ہو رہی تھی جنگ کے شروع ہونے کی تو یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ جب جنگ شروع ہو تو کون کون سا ملک اس کی زد میں آجائے اور کون کون سا ملک مکمل تباہ ہو جائے، اگر تو محدود جنگ ہوئی تو شاید دنیا بچ جائے، اور اگر جنگ بڑھ گئی تو شاید دنیا ہی ختم ہو جائے۔
لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اگر جنگ کا پیمانہ وسیع ہوتا ہے تو پھر سپر پاور بھی تبدیل ہو جائیں گی۔ آپ دوسری جنگ عظیم ہی کو دیکھ لیں، اُس وقت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور تھی، لیکن جب جنگ ختم ہوئی اور برطانیہ نے ہی جنگ جیتی ۔ لیکن وہ سپر پاور نہ رہا۔ اور پھر ناگاساکی اور ہیرو شیما پر پہلے ایٹمی بم گرا کر امریکا سپر پاور بن گیا۔ اب بھی اگر خدانخواستہ جنگ کا پیمانہ وسیع ہوا تو جو ملک Surviveکر گیا، پھر وہی سپر پاور ہو گا۔ یہ سپر پاور چین بھی ہوسکتا ہے، روس بھی، فرانس بھی ، امریکا بھی اور برطانیہ بھی۔ اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ جنگ میں جو ملک سب سے زیادہ طاقتور ہو ، وہی بعد میں بھی طاقتور رہتا ہے۔ آپ دوبارہ دوسری جنگ عظیم کو ہی دیکھ لیں، جرمنی (ہٹلر) خود کو دنیا کا طاقتور ترین ملک سمجھتا تھا۔ بلکہ اُس نے تو پورے یورپ پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ اور تو اور فرانس کو تین دن کے اندر اندر فتح بھی کر لیا تھا۔ لیکن اُس کا انجام کیا ہوا؟ سب نے دیکھا کہ اُسے اور اُس کے اتحادیوں کو بری طرح شکست ہوئی ۔ اس لیے ظالم کم ہی جنگ جیتتا ہے، لیکن اگر جیت بھی جائے تو ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے کہ اُس پر جنگ کے آفٹر شاکس نہ پڑے ہوں۔
اس لیے جنگ کی وسعت کا فیصلہ ہمارے بڑے ممالک کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اُنہیں اس حوالے سے خوب سوچ بچار کی ضرور ت ہے۔ اسرائیل کی جنگی خواہش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، میرے خیال میں اگر امریکا کو اس وقت اپنا اسلحہ بیچنے کا لالچ ہے تو یہ لالچ کسی اور جنگ میں پورا کر لے۔ اور ویسے بھی وہ اسرائیل کو غزہ جنگ میں اتنا اسلحہ بیچ چکا ہے، کہ گزشتہ 70سالوں میں بھی نہیں فروخت کیا ہوگا۔ لہٰذاجنگ سے جتنا بچا جائے اُتنا ہی سود مند ہے، ایسا نہ ہو کہ دنیا بھر میں پھیلی امریکا و مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے اور جنگ کوئی اور جیت جائے!

اپنا تبصرہ لکھیں