خود کے فیصلے اور لمبے پچھتاوے

خود بھی دیکھ چکے ہیں کہ یوں نہ کرتے‘ کچھ اور کرتے تو زندگی مختلف ہوتی۔ قوموں کی زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے اور ہماری تاریخ میں تو بالخصوص ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کئی فیصلوں نے قومی زندگی پر کتنے گہرے اثرات چھوڑے۔ ایوب خان کی سروس کو ہی دیکھ لیجئے‘ یہ کہاں لکھا تھا کہ اُسے توسیع نہ دیں تو قومی زندگی میں خلل آ جائے گا؟ لیکن خواہ مخواہ اُن کو بٹھائے رکھا اور پھر قوم کو اس اقدام کے نتائج لمبے عرصے تک بھگتنا پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ بڑے ذہین تھے‘ اتنے ذہین کہ اُنہوں نے سمجھا کہ ضیا الحق کو نیچے سے اوپر لے کر آئیں تو بڑے فرمانبردار ثابت ہوں گے۔ اتنے سادہ اور فرمانبردار نکلے کہ بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔
اور باتو ں کو چھوڑیے اور آج کل کی بات تو بالکل ہی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن عمران خان کی ہی مثال سامنے رکھیے۔ باجوہ کی کون سی روحانی خصوصیات تھیں کہ عہدے پر اُنہیں بٹھائے رکھا؟ مدتِ ملازمت پوری ہوئی تو چلتا کرتے اورکوئی اور آ جاتا‘ جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پتا نہیں کون سا وہ زائچہ تھا یا آنکھوں کے سامنے کھنچا نقشہ کہ باجوہ جیسے شخص کو‘ جس میں کوئی خاص بات نہیں تھی‘ نہ صرف بٹھائے رکھا بلکہ باقاعدہ قانون سازی کر دی کہ توسیع در توسیع ہو سکتی ہے۔ فیض حمید کا اُس زمانے میں کلیدی کردار تھا کیونکہ بڑے اہم عہدے پر بیٹھے تھے اور خان صاحب کی قربت بھی ہمارے گرائیں کو حاصل تھی۔ اُن سے کبھی پوچھا نہیں لیکن پوچھنا چاہیے تھا کہ کون سا نسخہ اُنہوں نے خان صاحب کو پلایا کہ باجوہ کی توسیع ناگزیر سمجھی گئی۔ خان صاحب تو اپنا فیصلہ کر گئے‘ خود بھی اُس کے نتائج بھگت رہے ہیں اور قوم کو بھی اُنہوں نے ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ ایوب خان کے وقت سیاستدان پچھتائے ہوں گے‘ ضیا کے معاملے میں بھٹو ضرور بہت کچھ سوچتے ہوں گے اور اب خان صاحب کے بھی لمبے پچھتاوے کے دن ہیں۔
ایک بات بھول رہا ہوں‘ نواز شریف بھی اس مشق سے گزرے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کے بعد جنرل علی قلی خان کو چیف بننا تھا لیکن نواز شریف کی اپنی سوچ تھی یا اُن کے کان میں کھسر پھسر کی گئی کہ علی قلی پختون ہے‘ بڑی اُس کی رشتہ داریاں ہیں اور اس لحاظ سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پرویز مشرف منگلا میں کمان کر رہے تھے‘ ایک باقاعدہ لابی فوراً سرگرم ہوئی اوراُن کا نام آگے کیا۔ مشرف کے حق میں یہ کہا گیا کہ مہاجر ہے‘ کوئی اس کا ذاتی حلقۂ اثر نہیں‘ لہٰذا اپنی جگہ پہ رہے گا اور ہمارے لیے فِٹ ثابت ہوگا۔ کیسے فِٹ ہوا‘ وہ قوم نے پھر دیکھ لیا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ ہمارے لیڈرانِ کرام جب ضرورت سے زیادہ سمجھدار بننے کی کوشش کرتے ہیں‘ خود تو نقصان اٹھاتے ہی ہیں قوم کو بھی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں تو یہ عذر پیش کیا جا سکتاہے کہ محدود سوچ کے مالک تھے اور اگر دھوکا کھا گئے تو اتنی کوئی بڑی بات نہ تھی۔ لیکن کیا عمران خان کو بھی ایسی غلطی کرنی چاہیے تھی؟ میں نے تو اُن کے منہ پر کہا تھا کہ قوم کو توقع تھی کہ آپ بڑے دبنگ فیصلے کریں گے‘ میرٹ پر کام ہوگا اور جن کا مقررہ وقت ختم ہوگا اُن کی جگہ نئے لوگ لائے جائیں گے۔ میری بات کا اُنہوں نے برا نہ منایا اور یہ اُن کا بڑا پن تھا‘ میں تقریر کیے جا رہا تھا اور وہ آگے سے ہنستے رہے۔
بات البتہ تاریخ کے اوراق کو پرکھنا نہیں‘ قوم کو تو ایک پریکٹیکل مسئلہ درپیش ہے کہ ملک ایک ایسے بحران میں دھنسا پڑا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ آئین و قانون کی کیا اہمیت ہے وہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کیا معنی رکھتے ہیں اس کا درس بھی قوم کودیا جا رہا ہے۔ عدلیہ کی کیا اہمیت و فوقیت ہے وہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ انتخابات کی عزت و تکریم بھی دیکھ چکے۔ اگلے روز سلمان اکرم راجہ کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا‘ وہ فرما رہے تھے کہ زیادتیوں کے خلاف ہم ہر جگہ احتجاج کریں گے۔ جوکہ بہت اچھی چیز ہے لیکن جب اقتدار کے لیورز پر اتنی مضبوطی سے ہاتھ رکھا گیا ہو تو پریس کانفرنس قسم کے احتجاج سے ایسے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی نہیں ہو پاتی۔ جس قسم کے حالا ت سے ہم گزر رہے ہیں اُن سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمانی قسم کے احتجاج وہیں کارگر ثابت ہوتے ہیں جہاں پارلیمانی اور جمہوری اصولوں کو تسلیم کیا جائے۔ جہاں سیاست کا فریم ورک ہی بالکل مختلف ہو وہاں یہ منطق چل نہیں سکتی۔ آپشن پھر دو ہی رہ جاتے ہیں‘ یا انسان چپ سادھ لے یا رونے کو اپنا وتیرہ بنا لے۔ پاکستانی تناظر میں عملی سیاسی جدوجہد اس سے زیادہ نہیں جاتی۔ آنسو بہائیں تو بے اختیار باجوہ یاد آتے ہیں۔ قومی قسمت میں باجوہ پتا نہیں کہاں سے آن ٹپکے۔ یہ تو اپنے گھر میں کھانے کی میز پر باجوہ نے مجھ سے کہا تھا کہ نواز شریف احسان کی بات کیا کرتا ہے‘ میرٹ پر فیصلہ کرتا تو جنرل اشفاق ندیم کو فوج کا سربراہ بناتا۔ یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر دہرائے دیتا ہوں کہ کھانے کی میز پر پہنچنے سے پہلے اُن کے سسر صاحب کی میزبانیٔ شب کے مزے اٹھا چکا تھا۔ یہ یاد رہے کہ سسر صاحب اُس وقت تقریباً قوم کے سسر سمجھے جاتے تھے۔
اُس وقت ڈان لیکس کا چرچا تھا۔ راحیل شریف توسیع لینے کی پوری کوشش کر چکے تھے اور اس تناظر میں ڈان لیکس کے مسئلے کو خوب اچھالا گیا لیکن کچھ بات نہ بنی‘ جس کا کریڈٹ دیکھا جائے تو نواز شریف کو جاتا ہے‘ اور پھر وطن چھوڑ کر سرزمینِ مقدس میں ایک نیا عہدہ راحیل شریف نے سنبھالا۔ اُن کے فرائض کی ہمیں کچھ زیادہ سمجھ نہیں لیکن جو بھی ہیں آج تک ادا کر رہے ہیں۔
ایک اور بات بھی لکھ چکا ہوں لیکن بات اتنے مزے کی ہے کہ دہرانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ دورانِ ڈنر اُس انگریز زمانے کی وسیع و عریض کوٹھی کے ڈائننگ روم کی تعریف کی اور کہا کہ یہاں تزئین و آرائش بہت ہی دلکش معلوم ہو رہی ہے۔ میرے یہ کہنے پر باجوہ ایک لمحہ چپ رہے اور پھر بولے کہ جب آئے تھے یہ کوٹھی اور ڈائننگ روم فرنیچر سے بالکل خالی تھے۔ خاصے تعجب سے میں نے کہا کہ یہ تو سرکاری کوٹھی ہے‘ اس کا فرنیچر کہاں جا سکتا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ جب پیشرو گئے تھے تو اپنے ساتھ سب کچھ لے گئے۔ کھانا بہت عمدہ تھا اور جیسا عرض کیا کھانے سے پہلے باجوہ صاحب کے سسر صاحب کی میزبانی کا پورا پورا فائدہ اٹھا چکا تھا۔ سن کر تعجب تو ہوا لیکن اس بات پر کچھ نہ کہنے کو بہتر سمجھا۔
سسر صاحب اس رتبے پر کئی سال فائز رہے کیونکہ باجوہ صاحب کی خوش قسمتی بدستور قائم رہی۔ اور ہم بے وقوفوں کو دیکھیے کہ پھر نہ کبھی باجوہ کے پاس گئے نہ سسر صاحب کے۔ اب خیال آتا ہے کہ کچھ پلاٹ شلاٹ کی بات کرتے‘ ٹھیکوں کی بات چلتی۔ تھوڑا مشہور کر دیتے کہ ہماری وہاں تک پہنچ ہے‘ اور جب ایسا ہو جائے تو بڑی پارٹیاں خودبخود قریب آنے لگ پڑتی ہیں۔ اور ہم نے کیا کرنا تھا‘ فیکٹری وغیرہ تو ہم سے کوئی لگنی نہیں تھی لیکن فائلیں ہاتھ میں رکھتے‘ دستخط کرواتے‘ چائے پانی ہو جاتا۔ قسمت مسکراتی رہتی تو سیٹھ کہلانے لگتے۔ لیکن نکمے نکلے۔
صرف یہی نہیں‘ کچھ سال بعد کسی محکمے کے افسر نے ہمیں تنبیہ کی کہ ہاتھ ہولا رکھیں‘ اشارہ حضرت باجوہ کی طرف تھا۔ اسلام آباد کی ایک تقریب میں تقریر کر بیٹھے جو حساس کانوں پر ناگوار گزری۔ تقریر ختم ہوتے ہی تنبیہ کرنے والے افسرکا میسج آیا کہ ہماری بات نہیں مانی۔ اورکچھ روز بعد ایبٹ روڈ پر‘ دفتر کے قریب ہمارے کپڑوں کا خیال نہ رکھا گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں