آج کی بات نہیں انسانی معاشرے کے وجود میں آتے ہی ریاست اور مملکت کے رشتے کو توانا رکھنے ،اچھی حکومت کے قیام اور حکومتی امور کو بہترین انداز میں انجام دینے کیلئے ریاست کو تین مرکزی ستونوں پر استوار کیا گیا،وقت نے اسے ایک مسلمہ حقیقت ثابت کیا،دور حاضر کی مختصر تاریخ پر ایک عمومی نظر دوڑانے سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ جس ملک میں تین ریاستی اداروں،مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ میں سے ایک بھی کمزور ہو یا اپنے فرائض کی بجا طور انجام دہی نہ کرے وہ ریاست زیادہ دیر مستحکم رہ سکتی ہے نہ معیشت کو اڑان مل سکتی ہے،اس کے انتظامی امور بہتر طور پر ادا کئے جا سکتے ہیں نہ عوامی مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی قانون کی عملداری قائم کی جا سکتی ہے۔اداروں کا اپنی آئینی حدود میں رہنا اور دوسرے ادارے میں مداخلت نہ کرنا بھی ترقی و خوشحالی اور قیام امن کیلئے از بس ضروری ہے،بدقسمتی سے ہمارے ہاں ریاستی اداروں میں دوسرے اداروں کی مداخلت کو فوجی حکومتوں اور سیاسی ادوارمیں بھی رواج دیا گیا،نتیجے میں آج چہار جانب بے یقینی،بد امنی،لا قانونیت، کرپشن، آئین کی پامالی،قانوں کی خلاف ورزی جیسے متعدد عوارض ہمارے معاشرے اور نظام کو لاحق ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلا وار انتظامیہ یعنی بیوروکریسی پر ہوا،ذوالفقار علی بھٹو دور سے قبل حکمران فوجی تھے یا سیاسی مگر انہوں نے اپنی حکومت کے استحکام اور طوالت کیلئے بیوروکریسی کا استعمال کیا،اگر چہ یہ بھی رسم بد تھی مگر چونکہ تب اقتدار و اختیار کی خواہش نے حرص و ہوس کی شکل نہیں اپنائی تھی،بیوروکریسی بھی انگریز کی تربیت یافتہ تھی،قانون کا احترام تھا،سب ادارے، محکمے ،حکمران عوام آئین کے تابع تھے لہٰذا اس برائی کے بطن سے مزید برائیوں نے جنم نہ لیا اور ہر ادارہ خاص طور پر انتظامیہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کیلئے دن رات جتن کرتی رہی اور اس کی کوششیں محض اس وجہ سے کامیاب ہوئیں کہ وہ لوگ خود غرض تھے نہ کرپٹ،آئین و قانون کو مقدم جانتے اور ابھی اخلاقی روایات بھی زندہ تھیں،بات قیام پاکستان یا برطانوی دور تک محدود نہیں،دور انگلشیہ سے قبل برصغیر میں مسلمان حکمرانوں نے بھی اپنے دور کے بہترین دماغوں کا چنائو کر کے انہیں اپنا مصاحب بنایا،جو بیک وقت مشیر بھی تھے اور منتظم بھی۔
بدقسمتی سے اب اس خطے میں لیڈرکم شعبدہ باز اور خوابوں کے سوداگر زیادہ ،ہیں چند عشرے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے جذبات کی بھٹی میں سنہرے خوابوں کاایندھن انڈیل کر اقتدار کی راہ ہموار کی تو ضیاء الحق کے بعد نوازشریف نے بھی وہی چلن اپنایا،عمران خان نے بھی اسی فارمولے پر عمل کرکے مقبولیت حاصل کی، مگر اقتدار میں آنے کے بعد کوئی ان خوابوں کو تعبیر نہ دے سکا،کچھ نہ کر پانے کیلئے جواز سب کے پاس ایک ہی ہے کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کرنے نہیں دیا گیا اور یہ جواز بھی اس وقت دیا گیا جب وہ مسند اقتدار سے بے دخل کئے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی بیوروکریسی سے نالاں تھے انہوں نے سیکڑوں سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا، ان کی معاملات پر گرفت بہت مضبوط تھی ،بہت سی خرابیاں بھٹو صاحب کے غلط فیصلوں کی بدولت بھی پیدا ہوئیں،انہی کے دور میں بابو ریاست سے زیادہ حکومتِ وقت کے مطیع و فرمانبردار ہونے لگے، 1970ء کی دہائی کے بعد سے سرکاری بابو اس معیار کے نہ رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے اور ان میں کرپشن کا زہر بھی سرائت کرنے لگا،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی یکے بعد دیگرے حکومتوں کے بعد بیوروکریٹس کا معیار پاتال کی گہرائیوں میں جا گِرا،حکمرانوں کو اس کی فکر بھی نہ تھی، بس ایک چیز کی فکر تھی اور وہ تھی وفاداری، اگر آپ دل و جان سے حکمرانوں کے ساتھ ہیں، جو وہ کہتے ہیں وہ کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں تو آپ کامیاب ہیں ورنہ آپ جتنے بھی ذہین ہوں آپ کی دال گلنے والی نہیں۔ ہرحکومت نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہی بیوروکریسی کے ساتھ اٹ کھڑکا لگا لیا تھا، ان سے سختی سے نمٹنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے ڈرنا کیا خاک تھا الٹا انہوں نے نیب کے ڈر سے کام کرنا ہی چھوڑ دیا،مفادات آڑے آئے تو بیورو کریسی میں تقسیم کا عمل بھی شروع ہو گیا۔
موجودہ بیوروکریسی جو گزشتہ چار عشروں سے شریف اور بھٹو خاندان کیساتھ کام کرتی آئی ہے اس دوران ایک عشرہ جنرل پرویز مشرف اور چودھری پرویز الٰہی کا دور نکال دیں تو باقی کے تین عشرے بیوروکریسی نے کانٹوں کی سیج پر گزارے ہیں،تقرروتبادلہ سے ان کی تقدیریں صبح و شام لکھی جاتی رہیں،البتہ جو بیوروکریٹس ریاست کے بجائے حکمرانوں کے ہو گئے اور ان کیلئے کام کرتے رہے ان کیلئے نرم گوشہ بھی تھا،تا ہم پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں بیوروکریسی کیساتھ رکھے جانے والے معاندانہ رویہ، انتقامی کارروائیوں،صبح و شام تقرر و تبادلوں ،ان کو ذاتی ملازم سمجھنے کی روش،دفتری امور کو حکمرانوں کے ڈرائنگ روم میں انجام دینے کے طویل سلسلے،گھنٹوں صاحب کے گیرج یا لان میں بیٹھ کر انتظار کرنے کی کوفت نے بیوروکریسی اور حکمرانوں میں فاصلہ بڑھا دیا جس سے معاملات میں بہت بگاڑ آیا ہے۔
ملکی پاور پالیٹکس کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہی حکومت کرتے آئے ہیں، انہوں نے خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اس ملک کی بھولی عوام کو رج کے بے وقوف بنانا ہے، ایک ہی خاندان میں سے کچھ لوگ طاقتور اداروں میں چلے جاتے ہیں تو کچھ قانون کے پاسبان بن جاتے ہیں اور کچھ جس سیاسی جماعت کی حکومت بنے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔جلال الدین اکبر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر مقامی اشرافیہ کے ساتھ مذہب کا خیال کئے بغیر رشتے داریاں قائم کیں،یہ نکتہ برِصغیر کی اشرافیہ نے بخوبی سمجھ لیا،انہوں نے بھی سیاسی شراکت کو رشتہ داریوں میں بدلا،فوجی حکمرانی آئی تو اپنی اولاد کو کمیشن دلا کر فوجی افسر بنا دیا، امرا نے کیمبرج اور آکسفورڈ پلٹ اپنی اولادوں کو افسر شاہی میں گھسایا، کوئی جج بنا تو کوئی جرنل اور کوئی ضلع کا بادشاہ ڈپٹی کمشنر بن گیا، اب کسی ایک پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تواس کی پشت پناہی کیلئےسب ایک ہوجاتے ہیں۔
ایسی بہت سی خامیاں خرابیاں ہیں جن کی بنیاد پر بیوروکریسی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا گیا،مگربیوروکریسی میں اصلاحات کوئی راکٹ سائنس نہیں،تمام سیاسی جماعتیں اس بارے میں خاموشی کی چادر تانے سو رہی ہیں،ان جماعتوں میں موجود افراد میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اداروں میں اصلاحات ہوں اور ان کی چودھراہٹ کو خطرہ لاحق ہوجائے،انتظامیہ عدلیہ ماتحت رہے،مقننہ کو تو پے در پے آئینی ترامیم سے شخص واحد کا مطیع کر لیا گیا،بیوروکریسی کو ذاتی ملازم بنا گیا،اب عدلیہ کی آزادی،خود مختاری پر کاری ضرب کی تیاری ہو رہی ہے، تاہم طے شدہ بات یہ ہے کہ جب تک ملک کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے دقیانوسی نظام کو نہیں بدلا جاتا تب تک ہمارا دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔