طبی محققین نے تقریباً 50 سال کے بعد سانس اور استھما کے مریضوں کے علاج کیلئے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
دمہ اور دائمی رکاوٹی پھیپھڑوں کی بیماری (سی او پی ڈی) کے شدید حملوں کے علاج کا ایک نیا طریقہ دریافت ہوا ہے، اس طریقے کو دمہ کے علاج میں پہلی اہم پیش رفت اور’گیم چینجر‘ قرار دیا جارہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ تحقیق پچھلے 50 سالوں میں علاج کے میدان میں ایک اہم اور بڑی کامیابی ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانوی ماہرین نے استھما مریضوں سمیت اسی طرح کی دوسری بیماریوں کو دی جانے والی دوا پر تحقیق کی، جس کے نتائج حیران کن نکلے۔
بینرلیزومیب ایک مونوکلونل اینٹی باڈی ہے جو ایوسینوفلز (سفید خون کے خلیوں) کو نشانہ بنا کر پھیپھڑوں کی سوزش کو کم کرتی ہے۔
عام طور پر یہ اینٹی باڈی شدید دمہ کے لیے کم مقدار میں بار بار دیا جاتا ہے لیکن ایک نئے کلینیکل ٹرائل میں یہ معلوم ہوا کہ فلیئر اپ کے وقت ایک انجیکشن بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
مذکورہ نتائج دی لینسٹ ریسپائریٹری میڈیسن میں شائع ہوئے، جس میں 158 مریض رضا کاروں کو شامل کیا گیا جو استھما کی بیماری میں مبتلا تھے، ان افراد کو دمہ یا سی او پی ڈی کے بعد لیے فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تھا۔
اس موقع پر دمہ کے مریضوں کا بلڈ ٹیسٹ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کس قسم کے تکلیف کا سامنا کررہے ہیں۔
ماہرین نے تمام رضاکاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کے افراد کو روایتی ادویات دیں، دوسرے کو فرضی دوائی دی گئی جب کہ تیسرے گروپ کو نئی دوائی دی گئی۔
ماہرین نے پایا کہ جن مریضوں کو فرضی دوائی دی گئی تھی، ان میں کوئی بہتری نہیں آئی جب کہ جس گروپ کے مریضوں کو ’اسٹیرائیڈ‘ ادویات سمیت استھما کی دوسری ادویات دی گئی تھیں، ان میں کچھ بہتری آئی، تاہم جن افراد کو نئی دوائی دی گئی تھی، ان میں سب سے زیادہ بہتری دیکھی گئی۔
ماہرین کے مطابق استھما کے مریضوں کو پہلے سے ہی دی جانے والی دوائی (Benralizumab) باقی ادویات سے بہتر کام کر رہی لیکن اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مذکورہ دوائی اس وقت استھما کے مریضوں کو انتہائی تکلیف میں تھوڑی مقدار میں دی جاتی ہے لیکن اب ماہرین نے پایا کہ مذکورہ دوائی کا مسلسل استعمال مریضوں کو زیادہ فائدہ دے رہا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اسٹیرائڈز کے شدید مضر اثرات ہو سکتے ہیں جیسے ذیابیطس اور ہڈیوں کی کمزوری کا بڑھنا۔ اس لیے بینرلیزومیب کا استعمال مریضوں کے لیے بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔