وکلا صاحبان پھر سے عدلیہ آزادی کے نام پر تحریک چلانے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ججز بحالی کی تحریک‘ جو پرویز مشرف دور میں شروع ہوئی تھی‘ اس میں بہت سے لوگوں کالہو شامل تھا۔ اُس تحریک میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اشرافیہ اور ریٹائرڈ سول و ملٹری افسران بھی شامل تھے۔ ان سب نے لاٹھیاں کھائیں‘ گولیاں کھائیں‘ آنسو گیس اور گرفتاریاں تک بھگتیں۔ عمران خان کو بھی پرویز مشرف نے کچھ دن ڈیرہ غازی خان جیل میں بند رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے‘ جب ایک دفعہ عمران خان سپریم کورٹ میں کسی کیس میں افتخار چودھری کے سامنے کچھ دلائل دینا چاہتے تھے تو وہ کہنے لگے: میں نے زندگی میں پہلی دفعہ جیل عدلیہ کی آزادی کے لیے بھگتی تھی۔ خان کا مطلب تھا کہ آپ جس کرسی پر دوبارہ بیٹھے ہیں‘ اس میں کچھ قربانی میری بھی شامل ہے۔ لیکن افتخار چودھری نے عمران خان کو ڈانٹ کر بٹھا دیا کہ آپ بیٹھ جائیں‘ وکیلوں کو بات کرنے دیں۔ تب جو حال خان صاحب کا ہوا ہو گا‘ اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔جب عدلیہ اور ججز ”آزاد‘‘ ہو گئے تو جس وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا‘ انہیں ہی سب سے پہلے برطرف کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ یقینی طور پر اُس روز پرویز مشرف خوب ہنسے ہوں گے کہ گیلانی نے وزیراعظم کا ووٹ لیتے ہی اسمبلی میں پہلی تقریر میں پہلا آرڈر یہ دیا تھا کہ وہ جج صاحبان‘ جو ججز کالونی میں پرویز مشرف کے حکم پر قید تھے‘ انہیں رہا کیا جاتا ہے۔ اعتزاز احسن اس برطرفی کے بعد افتخارچودھری کی شان میں جو قصیدے پڑھتے تھے‘ وہ یہاں لکھنے والے نہیں ہیں۔
آزاد عدلیہ کے فیصلے ہم ثاقب نثار‘ آصف سعید کھوسہ اور عمر عطا بندیال کے فیصلوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ اگرچہ کھوسہ صاحب نے چند بڑے اور بہادرانہ فیصلے بھی کیے جو شاید کوئی اور جج نہ کرپاتا‘ لیکن جب ان کے پاس قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ گیا تو وہ ٹھنڈے پڑ گئے۔ اس وقت انہیں یہ بڑا فیصلہ کرنا تھا کہ چونکہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں‘ لہٰذا یہ توسیع نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہاں کھوسہ صاحب بیٹھ گئے۔ نظریۂ ضرورت بھاری پڑ گیا اور پارلیمنٹ کو کہا گیا کہ اس حوالے سے قانون سازی کریں اور باجوہ صاحب کو توسیع دیں۔ یوں انہوں نے توسیع کا ایک باقاعدہ قانون بنوا دیا۔ ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کے بارے سب جانتے ہیں کہ وہ کیسے فیصلے کررہے تھے اور کھلے عام کر رہے تھے۔ ایسی ہی صورتحال قاضی فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر پیدا ہوئی جب قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید ناراض ہو گئے اور وزیراعظم عمران خان نے قاضی صاحب کو ہٹانے کیلئے اپنی کابینہ سے منظوری لے کر صدر عارف علوی کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا۔ اُس وقت بھی عدلیہ بٹی ہوئی تھی۔ خیر جیسے اعتزاز احسن مشکل وقت میں افتخار چودھری کے ساتھ جڑ گئے تھے‘ اسی طرح حامد خان صاحب نے اُس مشکل وقت میں قاضی فائز عیسیٰ کا ساتھ دیا۔ اب کل پرسوں ٹویٹر (ایکس) پر حامدخان کا ایک کلپ دیکھا جس میں وہ اپنے اس فیصلے پر خوش نہیں لگ رہے تھے۔ میں نے ٹویٹر پر ہی اس کا جواب لکھا کہ قسمت دیکھیں‘ دو جج اور دو ان کے حامی وکیل۔ ان دونوں کی اپنے اپنے پسندیدہ ججز سے مایوسی کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ (ان دوستوں سے معذرت جنہوں نے یہ جواب ٹویٹر پر پہلے ہی پڑھ رکھا ہے)۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اعتزاز احسن افتخار چودھری کو بحال کرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ ججز بحالی کے بعد زرداری صاحب نے بابر اعوان کو پیچھے کر کے اعتزاز احسن سے صلح کر لی تھی تاکہ وہ افتخار چودھری سے 60 ملین ڈالرز منی لانڈرنگ کیس پر سوئس حکومت کو خط لکھنے والے ایشو پر ریلیف لے کر دیں۔ جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہینِ عدالت کا کیس بنا تو اعتزاز احسن ان کے وکیل بن گئے۔ اعتزاز احسن شاید یہ سوچ کر افتخار چودھری کے سامنے پیش ہوئے کہ افتخار چودھری ان کا لحاظ کریں گے اور ان کی بلّے بلّے ہو جائے گی کہ وزیراعظم کو بچا لیا۔ لیکن وہ گیلانی صاحب کو برطرفی سے نہ بچا سکے اور یوں اعتزاز احسن افتخار چودھری سے ناراض ہو گئے۔
حامد خان بھی اب اسی سوچ کا شکار ہیں کہ میں نے قاضی فائز عیسیٰ کا اُس وقت ساتھ دیا تھا جب میری پارٹی کی حکومت نے ان کے خلاف ریفرنس فائل کیا تھا۔ اسی بات پر وہ خان صاحب سے ناراض بھی ہو گئے۔ اب ان کی خان صاحب سے صلح ہو گئی ہے اور انہوں نے حامد خان کو سینیٹر بنا دیا ہے لہٰذا اب قاضی فائز عیسیٰ میری وکالت پر عمران خان کو ریلیف دے دیں۔ اعتزاز احسن نے بھی گیلانی صاحب کو ریلیف نہ ملنے پر اپنی رائے بدل لی تھی کیونکہ زرداری صاحب نے انہیں یہ ٹاسک دیا تھا جیسے اب عمران خان نے حامد خان کو ٹاسک دیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ سے ریلیف لے کر دو‘ جس کی تم بڑی حمایت کرتے تھے۔ اعزاز احسن کی طرح اب حامد خان نے بھی عمران خان کو ریلیف نہ ملنے پر اپنی رائے بدل لی ہے۔ اگر اعتزاز احسن اور حامد خان دونوں ذاتی ایشوز پر نہیں بلکہ اصولی طور پر افتخارچودھری اور قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کر رہے تھے تو انہیں شرمندہ ہونے یا اپنی رائے بدلنے کی ضرورت نہ تھی۔
حامد خان اس لیے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے تھے کیونکہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں انہیں سائیڈ پر کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا جب عمران خان نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل کیا تو وہ عمران خان سے ناراضی کی بنیاد پر قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ حامد خان کو یہ بھی غصہ تھا کہ ان کے پروفیشنل رقیب بابر اعوان اور فواد چودھری اُس وقت تحریک انصاف حکومت میں فرنٹ سیٹ پر تھے جبکہ حامد خان کو سیٹ چھوڑیں‘ عمران خان نے اپنی اقتدار کی بس تک میں نہیں سوار کیا۔ لہٰذا حامد خان قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت خان صاحب سے ناراضی کی وجہ سے کر رہے تھے نہ کہ کسی اصول کی بنیاد پر۔ عمران خان کو یاد تھا کہ حامد خان کا قاضی فائز عیسیٰ سے اچھا تعلق رہا‘ لہٰذابدلتے حالات میں جیل میں قید عمران خان کو بابر اعوان اور فواد چودھری کے بجائے جب حامد خان کی ضرورت پڑی تو انہوں نے زرداری صاحب والی چال چلی اور جیسے انہوں نے اعتزاز احسن کو وقت پڑنے پر انہیں اپنے قریب کر لیا تھا اُسی طرح عمران خان نے بھی حامد خان کو سینیٹر بنا دیا۔
حامد خان سینیٹر بننے کے بعد عمران خان سے نئی سیاسی محبت کی وجہ سے اب قاضی فائز عیسیٰ سے چڑ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے حامد خان کی وکالت پر خان کو ریلیف نہیں دیا۔ جیسے زرداری صاحب کا خیال تھا کہ اعتزاز احسن کے ذریعے وہ افتخار چودھری کو مینج کر لیں گے ایسے اب عمران خان کو امید تھی کہ حامد خان کے ذریعے قاضی فائر عیسیٰ مینج ہو جائیں گے۔ نہ تب افتخار چودھری اعتزاز احسن کے دام میں اترے‘ نہ اب قاضی فائز عیسیٰ حامد خان کے دام میں اُترے ہیں۔خان صاحب کی حامد خان کو سینیٹ کی دی گئی سیٹ ضائع گئی جیسے زرداری صاحب کی اعتزاز احسن کودی گئی سینیٹ کی سیٹ ضائع گئی تھی۔ اعتزاز احسن اور حامد خان اپنے قد کاٹھ کو اونچا کرنے اور اپنے نمبرز ٹانکنے کیلئے افتخار چودھری اور قاضی فائز عیسیٰ سے اپنے اپنے لیڈر کیلئے ریلیف چاہتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ مشکل وقت میں ساتھ دینے پر اب ان سے ”عدالتی معاوضہ‘‘ چاہتے تھے۔شاید اعتزاز احسن اور حامد خان نے اپنے اپنے پارٹی سربراہوں کی توقع پر پورا اترنے کے چکر میں اپنے ”احسانات‘‘ کی قیمت افتخار چودھری اور قاضی فائز عیسیٰ سے اتنی زیادہ مانگ لی کہ انہوں نے وہ قیمت دینے کے بجائے دونوں سے دوستی ختم کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔یہ ہے سارا قصہ اور دو وکیلوں کی دو ججز کے حق میں لڑی گئی ”اصولوں‘‘ کی لڑائی کا انجام۔