ملک میں دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنے کا ”رواج“ اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس وقت پورا ملک ”دہشت گرد“ نظر آرہا ہے، ایسے لگتا ہے، کہ جیسے ہماری پولیس اب ہر دوسرا یا تیسرا مقدمہ ہی ”دہشت گردی“ کا قائم کرے گی، کیوں کہ اس ایکٹ کے تحت مقدمے میں پولیس کو بہت سے ”فائدے“ بھی نصیب ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس ایکٹ کے تحت ماضی میں اگر کسی پر مقدمہ درج ہوتا تھا تو وہ مقدمہ بڑا خاص سمجھا جاتا، اس مقدمے کی اہمیت بڑھ جاتی، ریاست اور عوام دونوں اُس مقدمے میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ لیکن اب یہ مذکورہ دفعات اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہر کوئی اس کی زد میں آرہا ہے۔ جیسے گزشتہ روز ایمان مزار اور اُن کے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر ہوا، ہوا کچھ یوں (ایف آئی آر کے مطابق) کہ گزشتہ ہفتے 25اکتوبر کو پولیس نے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر غیر ملکی (انگلینڈ) کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی اور ’ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر‘ آہنی بیریئرز لگا کر سڑک کو بند کیا ہوا تھا اور”تمام شہری قانون کی پاسداری کرتے ہوئے بیریئرز کے پیچھے رُکے ہوئے تھے۔“اس دوران ایمان مزاری اور ان کے شوہر وہاں پہنچے اور ’چیختے چلّاتے ہوئے بیریئرز ہٹانا شروع کر دیے۔‘پولیس نے مزید دعویٰ کیا کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے اس عمل کا مقصد ’پولیس اہلکاروں پر تشدد کر کے مہمان ٹیم میں خوف و دہشت پیدا کرنا تھا۔‘اس پر اگلے روز ان دونوں مذکورہ میاں بیوی کو گرفتار کیا گیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اوران ”عظیم دہشت گردوں“ کے لیے 30روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ جس پر عدالت نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا، تاہم تادم تحریر ان دونوں ملزمان کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ پھر اسی قسم کا ایک اور کیس بھی گزشتہ ہفتے سامنے آیا جس پر راقم نے گزشتہ کالم میں بھی سارا قصہ بیان کیا کہ قیدیوں کی وین پر حملہ کرنے اور سیاسی قیدیوں کو چھڑوانے کے کیس میں بھی پہلے سے قید 86قیدیوں پر انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کردیا۔ وہ تو بھلا ہو عدالتوں کا کہ جج صاحبان پولیس کی کرتوتوں کو جانتے ہیں تبھی وہ فوری ضمانت بھی دے دیتے ہیں۔
پھر اسلام آباد ہی میں ”غزہ مارچ“ کرنے پر سابق سینیٹر مشتاق احمد کے خلاف بھی دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا، موصوف پر مقدمہ دہشت گردی سمیت 13 دفعات کے تحت درج کیاگیا۔مقدمے کے متن کے مطابق مسجد شہدا کے باہر مظاہرین احتجاج کررہے تھے، مشتاق احمد کے کہنے پر مظاہرین نے ریڈ زون کی طرف مارچ شروع کیا، روکنے پر مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔ مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ کے ڈنڈوں سے حملہ کرنے پر 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، ملزمان کے پتھراو¿ سے 6 پبلک اور 2 سرکاری گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، چند مظاہرین نے کانسٹیبل ظفراللہ سے اینٹی رائٹس کٹ اور ہیلمٹ چھینا۔پھر یہی نہیں سینیٹر مشتاق احمد کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس نے یہاں بھی 30روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تو ملزم کے وکیل نے پولیس سے پوچھا کہ آپ ایک ماہ کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، تو کیا آپ نے اس ”دہشت گرد“ سے ٹینک ، توپیں اور خود کش جیکٹیں بر آمد کرنی ہیں جو تفتیش کے نام پر یہ بندہ پورے ایک مہینے کے لیے آپ کے حوالے کر دیا جائے؟ خیر اس قسم کے مضحکہ خیز کیسز جن کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو اُس پر عدالتیں بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔
سر پکڑنے سے یاد آیا کہ گزشتہ ماہ کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں کہ پولیس نے 28ستمبر کو لیاقت باغ میں احتجاجی مظاہرہ کرنے والی جن خواتین پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے اُن میں ایک 80سالہ خاتون پر بھی دہشت گردی کا سنگین پرچہ کاٹا گیا، جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سید امجد علی شاہ تو حقیقت میں سر پکڑ کر بیٹھ گئے، جنہوں نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر گرفتار 80 سالہ معمرخاتون روشن جہاںو دیگر6 خواتین کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیکر انہیں دہشت گردی کے مقدمات سے ڈسچارج کر کے رہا کر دیا۔اب بندہ پوچھے کہ جو ریاست اپنے بزرگوں پر دہشت گردی کے پرچے کٹوا رہی ہے تو وہ کل کو ہمارے نومولود بچوں کے ساتھ کیا کرے گی؟
لہٰذااسی دہشت گردی ایکٹ کے تحت بیشتر تحریک انصاف کے رہنماﺅں پر بھی مقدمات کیے گئے ہیں، انہی میں سے ایک مثال آپ تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ کی لے لیں، جو کہتی ہیں کہ ”مجھ پر کی گئی نئی دہشت گردی ایف آئی آرز کا متن ، لاٹھی پہ کپڑا لگا کے پٹرول ڈال کر کیلیں لگا کے آگ لگائی اور پولیس والے کی طرف دوڑ پڑیں، اس کی شرٹ پھاڑدی….“اب بندہ پوچھے کہ خواتین سے آپ کیسے اس قسم کے ایکٹ کی توقع کر سکتے ہیں،،،، مگر خداجانے ہمارے اداروں کو کیا ہوگیا ہے؟ اور خاص طور پر اسلام آباد پولیس کو۔ کہ وہ دہشت گردی سے کم پرچہ درج کرنے پر اکتفا ہی نہیں کرتی۔ یقین مانیں کہ اب تو مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ مجھ پر بھی کہیں احتجاج کرنے ، تنقیدکرنے، حتیٰ کہ تیز گاڑی چلانے پر بھی کہیں دہشت گردی کا مقدمہ دائر نہ کر دیا جائے۔ بلکہ اب تو لگتا ہے کہ ملازمین بھی اپنے مالکان کو یہ کہہ کر ڈرانے لگیں گے کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو آپ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کروا دیں گے!
اور پھر میرے خیال میں پولیس کو شاید دہشت گردی ایکٹ کے بارے میں ہی نہیں علم کہ یہ کیا ہے ۔ درحقیقت یہ ”انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ئ“ ایک پاکستانی قانون ہے جو ملک میں دہشت گردی کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے قانونی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ قانو ن قومی اسمبلی نے 20 اگست 1997ءکو منظور کیا تھا اور اس کے بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے اس پر دستخط کیے تھے۔اس ایکٹ کی بنیادی دفعات کے مطابق یہ قانون دہشت گردی سے متعلقہ جرائم کی تفتیش، مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لیے فراہم کرتا ہے، بشمول دہشت گردی کی مالی معاونت اور دھماکا خیز مواد اور آتشیں اسلحے کے استعمال۔ پر لاگو کیا جاتا ہے۔ لیکن ریاست یعنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اس کے ممکنہ غلط استعمال اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی کے بارے میں ہمیشہ تشویش پائی جاتی رہی ہے۔ اور پھر اسی وجہ سے اس ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی اور 2013، 2020میں اس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں جس کے بعد مشتبہ افراد کو 90 دن تک بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھنے کا اختیار بھی شامل کیا گیا۔
اس ایکٹ کے حوالے سے میری ایک دوست وکیل سے بات ہوئی تو اُس نے کہا کہ قصور صرف ہماری ریاست کا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا بھی ہے، جس نے تمام ممالک کو اس قانون کا پابند کیا ہوا ہے، لیکن اقوام متحدہ کو کیا معلوم کہ جہاں وہ اس قانون کے تحت دنیا بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، وہیں پاکستان جیسے ممالک میں عام عوام پر اس قسم کے مقدمات قائم کرکے اُنہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہی دہشت گردی ایکٹ کے تحت یہاں سیاسی مخالفین، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، اقلیتوں اور طلبہ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا اقوام متحدہ اس پر جان بوجھ کر خاموش ہے؟ یا وہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے؟اور پھر یہی نہیں بلکہ اس ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر ہی اسی لیے کیا جاتا ہے کہ تاکہ جلدی ضمانت نہ ہوسکے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اگر کسی سے پانچ گرام ہیروئین برآمد ہو جائے تو اُس مقدمے میں ملزم کی ضمانت ہوجاتی ہے، لیکن اگر پولیس چاہے کہ ملزم کی ضمانت نہ ہوتو وہ اُس پر دس گرام ہیروئین ڈال دیتی ہے، کیونکہ اینٹی نارکوٹکس قوانین کے تحت ایک مخصوص مقدار میں نشہ کی برآمدگی کے بعدفوری ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے رانا ثناءاللہ پر زیادہ مقدار کا مقدمہ قائم کرکے اُسے جیل میں ڈالا گیا، اور کئی مہینے اُسے زیر تفتیش رکھا گیا۔ تاکہ کسی چھوٹی عدالت سے ضمانت ہی نہ مل سکے۔
بہرکیف لاءاینڈ آرڈر کو قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ کیا؟ کہ دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنا ایک گھناﺅنا مذاق بن کر رہ گیا ہے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ اگر یہی صورتحال قائم رہی تو میرے خیال میں اگلی مردم شماری میں آدھی سے زیادہ آبادی دہشت گردوں کی ہوگی، اور مردم شماری فارم میں ایک خانہ ”دہشت گرد“، اور ایک خانہ ”عام شہری“ کا ہوگا۔ الغرض یہ قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، مطلب! آپ ریاست سے پوچھیں کہ کیا ایمان مزاری یا اُن کے شوہر دہشت گرد ہیں؟ کیا سینیٹر مشتاق احمد دہشت گرد ہیں، یا عالیہ حمزہ ، یا سمین راشد، اعجاز چوہدری یا دیگر تحریک انصاف کے قائدین دہشت گرد ہیں؟ جن پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے گئے ہیں؟ اور ایک عرصے سے جیل میں رکھا ہوا ہے؟ چلیں ! مان لیا کہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ہجوم کو لے کر سفارت خانوں کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ پولیس نے انہیں روکا ، یہ بھی درست ہے۔ روکنا چاہیے تھا۔ لیکن کیا پورے نظام قانون میں کوئی اور دفعہ نہیں ہے جو مظاہرین پر لگائی جاتی؟ سیدھا دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ کیا واقعی اسلام آباد ، یعنی دارالحکومت کی انتظامیہ اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات ہونے چاہیں؟ میں پھر یہی کہوں گا کہ دہشت گردی کے مقدمے یونہی قائم ہوتے رہے تو اگلی مردم شماری میں شہری کم اور دہشت گرد زیادہ ہو جائیں گے۔اور پھر اس قانون کا استعمال 9مئی کے بعد بڑھ گیا ہے، اس سے کسی اور کی ساکھ کو نقصان پہنچا یا نہیں مگر پولیس کی اپنی ساکھ پر ایسے نقوش چھپ رہے ہیں کہ آپ کل کلاں منہ چھپاتے پھریں گے، لیکن پھر نہ کہیے گا کہ دیر ہوگئی!