دہی کھانے کا موسم

میں 1998ء سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں۔ اس دوران کئی حکومتیں بنتی ٹوٹتی دیکھی ہیں۔ کئی سیاسی رومانس اپنی نظروں کے سامنے دم توڑتے دیکھے۔ میرے اندر 2007ء تک سیاست اور سیاستدان کیلئے رومانس موجود تھا۔ پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور مجھے ان سیاستدانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو سخت مایوسی ہوئی۔ رہی سہی کسر نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں پوری ہو گئی۔ پھر جب عمران خان کو باری ملی اوران کی حکومت ملتی دیکھنے کا موقع ملا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔ اب آپ کہیں گے کہ اس دوران جنرل پرویز مشرف کا دور بھی تو گزرا تھا‘ تب آپ کا کیا ردِعمل رہا؟ مشرف دور میں جن چند لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک میں بھی تھا۔ مجھے حکومت اور وزرا کے بیک ٹو بیک سکینڈلز بریک کرنے پر تین دفعہ ‘بیسٹ رپورٹر‘ کا اعزاز ملا اور وہ تینوں سکینڈلز مشرف حکومت میں ہونے والی کرپشن سے متعلق تھے۔ ویسے بھی غیر جمہوری اور جمہوری حکومتوں کا کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ غیر جمہوری حکومتیں نہ منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ لوگوں سے ووٹ لے کر اخلاقی اور سیاسی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہیں لہٰذا وہ میڈیا اور عوامی رائے کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہیں۔ وہ دھڑلے سے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر اپنی مرضی کی حکمرانی کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ رعایت سیاستدانوں کو دی جا سکتی ہے؟ مجھے برسوں تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی کرتا ہوں کہ میرا رویہ سیاستدانوں کے ساتھ سخت رہا ہے۔ اکثر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ جب آپ سیاستدانوں کی کرپشن کے سکینڈلز اور خبریں نکالتے ہیں تو اس سے سیاست‘ جمہوریت اور سیاستدان کمزور ہوتے ہیں۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ آپ آمروں کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔
مطلب سیاستدانوں کو کھلی چھٹی ہونی چاہیے‘ اوراگر آپ نے ان پر تنقید کی تو آپ مقتدرہ کے ایجنٹ ہیں۔ آپ سیاست اور سیاستدانوں کے دشمن ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیاستدان خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کریں‘ اس لیے آپ انہیں شک کا فائدہ دیتے رہیں۔ وہ فرینڈز اور فیملی پیکیج کے ساتھ لوٹ مار مچاتے رہیں‘ آپ کو بلیک میل کرتے رہیں کہ اگر اُن پر تنقید کی تو پھر تم پر آمر حکمران مسلط ہو جائے گا‘ اب سوچ لو کہ تمہارے لیے کون بہتر ہے۔ یوں وہ ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں لیکن وہ خود پر ایمانداری یا گورننس کا ڈسپلن نہیں رکھتے۔اب یہی دیکھ لیں کہ آصف زرداری کے پہلے دورِ صدارت کا تمام عرصہ ایک ہی چیز کا دفاع کرنے میں گزر گیا کہ سب نے جنیوا بینکوں میں پڑے ساٹھ ملین ڈالرز کی حفاظت کرنی ہے‘ چاہے اس عمل میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کیوں نہ کرانا پڑے۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ اپنے اس چار سالہ دور میں 400 دن ملک سے باہر رہے۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ میں انہوں نے 120 سے زائد غیر ملکی دورے کیے‘ آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ نہ گئے‘ ایک سال تک سینیٹ کا منہ نہ دیکھا‘ آٹھ ماہ تک کابینہ اجلاس نہ بلایا۔ جو بندہ وزیراعظم بن کر 400 دن ملک سے باہر رہا ہو اور ایک ایک سال تک پارلیمنٹ کا منہ تک نہ دیکھتا ہو‘ وہ بعد میں یہ پوچھتا اچھا لگتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ہم ان پر تنقید کرتے تھے تو ان کے حامی یہ طعنہ دیتے تھے کہ آپ لوگ غیرجمہوری طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ سب سیاستدان اور ان کے حواری یہی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے تو نہیں بدلنا‘ ہم ایسے ہی رہیں گے‘ تم صحافی ہمارے ساتھ ایڈجسٹ کرو۔ اگر نہیں کرو گے تو تم جمہوریت دشمن ہو۔
عمران خان واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے حلف لیتے ہی ایک شاہی حکم نامہ جاری کیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے جارج بش کے تاریخی قول کو دہرا دیا ہو کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن‘ آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔ یہی کچھ خان صاحب نے کیا اور جو اُن کے ساتھ مل گیا وہ فرشتہ ثابت ہوگیا‘ دھل گیا‘ چاہے وہ کرپٹ تھا‘ ریٹائر فوجی تھا یا پھر صحافی اور یوٹیوبر۔ یعنی اس دور میں آپ تبھی اچھے صحافی کہلا سکتے تھے جب آپ حکومت کی پالیسیوں کی اندھا دھند حمایت کرتے۔ میں کئی صحافی دوستوں کو جانتا ہوں جو یوٹیوب اور ٹی وی سکرین پر متضاد نقطۂ نظر بیان کر رہے تھے۔ یعنی یوٹیوب پر وہ عمران خان کے حامی اور ٹی وی شوز میں خان کے خلاف تھے۔ یوں انہوں نے خان کے فالوورز کو بھی خوش کیا ہوا تھا اور یوٹیوب سے ڈالرز کما رہے تھے اور سکرین پر انہوں نے مقتدرہ اور حکومت کو بھی خوش رکھا ہوا تھا۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ سارا مسئلہ پیسے کا ہے۔ اس کا صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ سب لوگ صحافت کے نام پر دھندا کر رہے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان سیاسی حکومتوں اور حکمرانوں کی کامیابی تھی کہ وہ صحافیوں کو دوست اور دشمن میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ چند صحافی دوست جیسے نصرت جاوید صاحب اب بھی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں‘ جو ہمارے دوست یا دشمن والے نعرے کا شکار نہیں ہوئے‘ انہوں نے بہت کچھ بھگتا بھی لیکن کمپرومائز نہیں کیا۔ مجھے اکثر سننا پڑتا ہے کہ تم عمران خان پر بہت تنقید کرتے ہو۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے قوم کی طرح صحافیوں کی توقعات کو بھی آسمان پر چڑھا دیا۔ جب بھی وہ بات کرتے تو لگتا کہ انہیں بس موقع دیں تو وہ چند دنوں میں ملک اور قوم کو آسمان پر لے جائیں گے لیکن جب موقع ملا تو ان کے بڑے بڑے نعروں کے اندر سے پہلے بزدار اور محمود خان نکلے اور اب علی امین گنڈاپور۔
2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو بڑا ایڈوانٹیج تھا کہ پیپلز پارٹی نے بھٹو دور سے لے کر 2013ء تک چار دفعہ حکومت کر لی تھی تو نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم بن چکے تھے۔ لہٰذا لوگوں کو ان کے اچھے برے پہلوؤں کا علم تھا جبکہ عمران خان وہ سیاسی گھوڑا تھا جس نے ابھی ڈربی ریس نہیں دوڑی تھی لہٰذا وہ اکیلا کھڑا ہو کر کچھ بھی کہہ سکتا تھا اور انہوں نے بھی ضرورت سے زیادہ کہہ دیا۔ عوام کی توقعات کا لیول اوپر کیا‘ یہ سوچے بغیر کہ وہ پوری کر سکیں گے یا نہیں۔ خیر اس میں عمران خان کو اکیلے الزام نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ یہی کام شریف خاندان بھی کرتا آیا‘ جب شہباز شریف نے زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑ کر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے پاکستان سے لوٹے چھ کروڑ ڈالر واپس لانے کا اعلان کیا۔ ڈالرز تو واپس نہ لائے جا سکے لیکن آصف زرداری کے صاحبزادے کو اپنا وزیر خارجہ بنا کر ‘یس پرائم منسٹر‘ کہنے پر مجبور ضرور کیا۔
میجر (ر) عامر اکثر کہتے ہیں کہ نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بڑی محنت سے اپنی کرسی عمران خان کو پیش کی کہ آپ نے سڑکوں پر بہت رُل لیا‘ اب میری جگہ سنبھالیں۔ ان کا مطلب تھا کہ نواز شریف نے ایسی غلطیاں کیں جو عمران خان کے کام آئیں۔ عمران خان کو موقع ملا کہ وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے قریب ہو گئے۔ اگرچہ میرا خیال تھا کہ ان تینوں کے اپنے اپنے مفادات تھے جو انہیں قریب لائے۔ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع تو جنرل فیض کو 2022ء میں آرمی چیف کا عہدہ چاہیے تھا جبکہ عمران خان نے ہر قیمت پر وزیراعظم بننا تھا۔ لہٰذا تینوں کے مفادات جڑ گئے مگر جتنی محنت نواز شریف نے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے پر کی تھی‘ اتنی ہی عمران خان نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے پر کی۔
شہباز شریف ہوں یا عمران خان‘ دونوں نے یہ راز پا لیا کہ اقتدار کا راستہ مقتدرہ سے ہی ہو کر جاتا ہے۔ شہباز شریف بہرحال سیانے نکلے۔ انہوں نے نواز شریف اور عمران خان کے اقتدار سے باہر نکلنے پر ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ بس نوکری کرو‘ ہیرو ازم نواز شریف اور عمران خان کیلئے چھوڑ دو۔ اور یقین کریں اگر شہباز شریف کی حکمرانی کو دیکھیں تو ان سے بہتر نوکری آج تک کسی نے نہیں کی۔ مقتدرہ سے لڑنے جھگڑنے کا بوجھ انہوں نے اپنے بھائی اور خان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے اور وہ خود مزے سے دہی کھا رہے ہیں۔ اس ماحول میں میٹھی دہی کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں