ریاستی جبر کے باوجود مشرقی پاکستان جیسے حالات کا کوئی حقیقی امکان نہیں

کل پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں جن کی بھاری اکثریت خیبر پختونخواہ کے پٹھانوں پر مشتمل تھی، کو دارالحکومت سے ہٹانے کیلئےکیے گئے فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی ان گنت ہلاکتوں کے بعد، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے خیبر پختونخوا کے عوام کو مزید الگ تھلگ کر دیا ہے جو شاید اب ایک علحیدگی پسند تحریک کی جانب پھر سے راغب جائیں۔
جس طرح پٹھانوں کو “افغان” اور غدار کہہ کر مارا گیا ہے اس سے 12 اگست 1948 کے بابڑہ قتل عام کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ مشرقی پاکستان جیسے حالات کے خدشات کی بات کرنے والوں کے مطابق یہ صورتحال پٹھانوں میں علحیدگی پسندگی کی تحریک دوبارہ سے پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ پاکستان میں ایسی کسی نئی علیحدگی کے امکانات بہت کم ہیں۔
1971 کے حالات اور آج کے حالات میں واضح فرق ہے۔ مشرقی پاکستان جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان سے ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا جس کے درمیان بھارت حائل تھا۔ بھارت نے اس وقت مکتی باہنی کو مکمل طور پر حمایت فراہم کی اور مشرقی پاکستان میں اپنی فوجی مداخلت کو آسان بنایا۔ آج پاکستان کے تمام صوبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور ریاست کے پاس اپنی افواج کو ملک کے کسی بھی حصے میں فوری تعینات کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جو علیحدگی کی کوششوں کو سختی سے کُچلنے کیلئےکافی ہے۔
1970 میں آنے والے سائیکلون بھولا نے بھی مشرقی پاکستان کے حالات کو بہت زیادہ خراب کیا تھا۔ اس طوفان نے تقریباً تین لاکھ سے پانچ لاکھ بنگالیوں کی جان لی اور بنگالی عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ مرکزی حکومت ان کی مدد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ اس بے حسی نے عوام کے غصے اور ناراضگی کو شدید گہرا کیا۔ موجودہ پاکستان میں اس نوعیت کی کوئی قدرتی آفت یا حکومت کی جانب سے ایسی غیر سنجیدگی دیکھنے کو نہیں ملی، جو عوامی بغاوت کا سبب بن سکتی۔
اس کے علاوہ آج کے پاکستان میں فوجی اور سیاسی حکمت عملی بدل چکی ہے۔ 1971 کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، فوج اب طاقت، مذاکرات اور مقامی سیاسی قیادت کو تقسیم کر کے کچھ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہے۔ فوج کرپشن کو بھی ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ناراضگیاں موجود ہیں، لیکن ان میں وہ ہم آہنگی اور قیادت کی کمی ہے جو شیخ مجیب الرحمان کے تحت مشرقی پاکستان کو حاصل ہوئی تھی۔
بین الاقوامی سطح پر بھی، حالات مختلف ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں بھارت اور سوویت یونین نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ آج کی عالمی طاقتیں، جیسے چین، ایک متحد پاکستان کی حمایت کرتی ہیں۔ خاص طور پر چین، جو سی پیک جیسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کو اپنے مفادات کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں فوجی اور جغرافیائی ضروریات کی وجہ سے فی الحال امریکہ کو بھی پاکستانی فوج کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے اندرونی حالات بھی علیحدگی کو مشکل بناتے ہیں۔ تمام صوبے معاشی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ وسائل کی تقسیم غیر مساوی ہے، لیکن وفاقی منصوبے اور ترقیاتی پیکیجز صوبوں کو متحد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کوئی بھی صوبہ اس وقت ایسی مضبوط عوامی حمایت یا قیادت نہیں رکھتا جو علیحدگی کے خواب کو حقیقت میں بدل سکے۔ عمران خان مقبول تو ہے لیکن وہ خود پنجابی ہے اس لیے وہ علحیدگی کی طرف نہیں جائے گا۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کے بارے میں کم ہی توجہ دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے اکثر ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو عوام کے مفادات کے خلاف ہے۔ یہ برطانوی استعماری دور کا تسلسل ہے۔ اس کے علاوہ پٹھان کمیونٹی مختلف طبقات پر مشتمل ہے، جہاں سیاسی جماعتیں جیسے اے این پی، جے یو آئی اور جے آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی وزغیرہ اپنی مقبولیت کھو دینے کے بعد پاکستانی فوج کے حق میں ہو گئی ہیں۔ مگر شاید خیبر پختونخوا (کے پی کے) کے عام لوگ شاید ظلم و جبر کا شکار ہوں اور پنجابی فوجی قیادت والی پاکستانی ریاست سے آزادی کی خواہش رکھتے ہوں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1983 میں تحریک بحالی جمہوریت کے عروج کے وقت جب پنجاب خاموش ہو گیا تھا، تو سندھ نے اس تحریک کو تیز کیا تھا۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق نے سندھ میں فوجی طاقت کے ذریعے پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کو دبانے کی کوشش کی۔ سندھی مظاہرین پر ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائی گئیں۔ تحریک کا پہلا بڑا تصادم مورو اور نوشہرو فیروز میں ہوا، جس کے بعد خیرپور ناتھن شاہ، ضلع دادو میں فوج نے شہر کے وسط میں تقریباً ایک درجن کارکنوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس جبر و تشدد کے باوجود، سندھ میں علیحدگی کی تحریک پروان نہ چڑھ سکی اگرچہ سندھی قوم پرستوں میں آج بھی پنجاب کے تسلط اور سندھ کے شہری اردو سپیکنگ گروہوں کے خلاف ختم نہ ہولا غم و غصہ موجود ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سخت حکومتی جبر علیحدگی کی تحریک کو مکمل طور پر کچل سکتا ہے۔ یہی حالت بلوچستان کی ہے جہاں علیحدگی پسند تحریک کو جبر کے ذریعے کچلنے کی کھلی چُھٹّی ہے۔
اگرچہ موجودہ حالات میں جبر اور عوامی ناراضگیاں ایک حقیقت ہیں، لیکن یہ 1971 کے علیحدگی والے حالات سے بہت مختلف ہیں۔ موجودہ بےچینی کو صرف سیاسی اصلاحات اور مکالمے کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ جغرافیائی، معاشی، اور بین الاقوامی عوامل کے ساتھ ساتھ 1971 جیسے مخصوص حالات کی عدم موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں علیحدگی کا کوئی حقیقی امکان نہیں ہے۔ چاہے بابڑا یا خیرپورناتھن شاہ جیسے واقعات دہرائے جائیں، یا انسانی اور جمہوری حقوق مکمل طور پر پامال ہو جائیں، یا عدلیہ کو 26ویں ترمیم کی بھینٹ چڑھا دیا جائے، پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں