سنا کرتے تھے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جس کے چاروں اطراف دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہیں،تبھی پاکستان ہر ایک کیلئےایک خاص مقام رکھتا ہے۔ مگر اب لگتا ہے یہ خاص ”مقام“ ہمارے گلے پڑتا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں ازلی دشمن بھارت، دوسری طرف غیر یقینی دوست ایران(اس دوست کا کوئی پتہ نہیں کہ یہ کیا کربیٹھے، کیوں کہ حالیہ دنوں میں یہ دوست پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی بھی کر چکا ہے)، تیسری طرف خودساختہ دشمن افغانستان(اس دشمن کو ہم نے خود بنایا ہے، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر اور کبھی امریکا کو یہاں سے بھیج کر اور طالبان کے ہاتھ مضبوط کرکے)، جبکہ چوتھی طرف پر مفاد پرست دوست چین ہے(یہ دوست کبھی آپ کی امداد کو نہیں آئے گا، ہاں ہندو بنیے کی طرح مہنگا ترین قرضہ ضرور دے دیتا ہے، تاکہ وہ اپنے مفادات کیلئے یہاں آسانی سے اہداف پورے کرتا رہے)۔ان چار بڑے ممالک کا پڑوس میں ہونے کا ہمیں محض 10سے 20فیصد فائدہ ہے،اور چاروں ہمیں کسی نہ کسی طرح دبوچے ہوئے ہیں، حالانکہ اگر یہ دوست نہ ہوتے تو شاید پاکستان کی اپنی سکیورٹی پر جتنا خرچ ہو رہا ہے اُتنا نہ ہوتا۔ اور پھر مجھے رشک اُن ممالک پر ہوتا ہے جن کی نا تو کوئی سرحدہے، اور نہ کوئی فوج۔ یعنی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان وغیرہ جیسے ممالک بہترین لوکیشن پر واقع ہیں، جنہیں نہ تو خارجیوں کی کوئی پریشانی اور نہ ہی سرحدی باڑیں لگانے کا مسئلہ۔ چاروں اطراف سمندر ہی سمندر،،، اگر کہیں مسئلہ ہے تو صرف تارکین وطن کا۔ اُس کیلئے بھی ان ممالک نے باقائدہ بندوبست کر لیا ہوا ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی ہمسایہ ممالک کے رویوں کی تو یقین مانیں اس ملک میں بیرونی طاقتوں کا اتنا عمل دخل ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ خارجی کسی بھی وقت ہمارے سکیورٹی اداروں کو چکمہ دے کر ایسی کارروائی کر جاتے ہیں کہ آپ انگشت بدندنان ہو کر سوچتے رہ جاتے ہیں۔ جیسے گزشتہ روز صوبہ ”کے پی“ کے ضلع کرم میں ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ جس سے انسانیت بھی شرما جائے۔ اس سانحہ میں اب تک 50کے قریب لوگ مارے گئے ہیں،افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ ہوا کچھ یوں کہ جمعرات کو لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پارہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔حملے کا نشانہ بننے والے عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ جب قافلہ پارہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘ اب ریاست کی سنجیدگی کا حساب بھی لگا لیں کہ اسلام آباد میں اگر احتجاجی دھرنے کا اعلان ہوتا ہے تو کم و بیش 10ہزار سکیورٹی فورسز اور ایف سی اہلکاروں کو تعینات کردیا جاتا ہے، مگر یہاں 200گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ 6اہلکار تعینات کیے گئے۔ اور وہ بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہونے سے بال بال بچ گئے۔ اس سے تو سوال اُٹھتا ہے کہ یا تو یہ اہلکار اپنے بچاﺅ کیلئے سائیڈ پر ہوگئے یا مقابلہ کرنے والوں کی تعداد دیکھ کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ جبکہ کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم 14 کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔‘
قیامت خیز منظر یہ تھا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھر دوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔حالانکہ مسافروں نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاو سب ٹھیک ہو گا۔ایک خاتون مسافر اپنی روداد بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔“ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاوں گی، اور پھر جب فائرنگ ختم ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔
بہرحال میں آپ کو ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ یہ ضلع (کرم) پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے جسے جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہونے کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔’کرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔
خیر یہ تھی اس وقت ملک میں ہونے والے اُس واقعہ کی تفصیل جس میں نصف سینچری کے قریب بے گناہ ، معصوم بچے اور بڑے شہید ہوئے ہیں، ویسے تو 10بارہ شہید ہوجائیں تو ہماری خبر ہی نہیں بنتی، اگر بنتی بھی ہے تو چند لمحوں میں غائب ہو جاتی ہے، پھر نہ اُس کی انکوائری ہوتی ہے، نہ اُس میں قاتلوں کو ڈھونڈا جاتا ہے اور مقدمہ بھی بڑی مشکل سے درج ہوتا ہے۔ جبکہ فائل یہ کہہ کر بند کر دی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ خارجیوں نے کیا ہے۔ آخر ریاست کے باشندے کب تک اس ظلم عظیم کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ کیا ریاست تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرکے ان مسائل کا مستقل حل نہیں نکال سکتی؟ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ حکمران طبقہ حالات کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ اس وقت کوئی صوبہ بھی محفوظ نہیں ہے، مگر پھر بھی یہ نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں۔ اور ”روم“ جل رہا ہے۔
پھر آپ دیکھ لیجیے گا کہ 24نومبر کو بھی ملک کے حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو ایک نیاسانحہ جنم لے گا، یا ایک نیا 9مئی جنم لے سکتا ہے۔ مگر اُس سے پہلے اگر حکومت سے کہا جائے کہ تحریک انصاف سے مذاکرات کر لیں تو یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ ہماری شرائط پر ہوگا۔ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ کامن سینس کا ہی استعمال کرلیں، کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ آپ ایسا سلوک کر رہے ہیں، کیا آپ کو علم نہیں کہ دوسری جنگ عظیم جس کا ختم ہونا ناممکن تھا وہ بھی مذاکرات کی میز پر ختم ہوئی۔ انگلینڈ کے یورپ سے اخراج کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا گیا، ورنہ بغاوت کے باعث تاریخی بحران جنم لے سکتا تھا۔ اسی طرح دنیا کی بڑی بڑی لڑائیاں اور مسائل مذاکرات کے بعد ختم ہوگئے۔ لیکن اگر کچھ ختم نہیں ہو رہا تو وہ ہمارے ہاں سیاسی بحران ہے۔ کیوں کہ شاید بحران ختم کرنے والے چاہتے ہی نہیں کہ یہاں امن ہو۔ یا یہ ملک ترقی کرے۔
بہرکیف ہم کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ دنیا آہستہ آہستہ قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی نئی جہتوں سے متعارف ہو رہی ہے اور قانون سب کیلئے برابر‘ جبکہ عدل و انصاف کی ہر شخص کو بلا تخصیص فراہمی کی منزل کی طرف رواں دواں ہے جبکہ ہمارے ہاں قانون اور عدل و انصاف کا معاملہ بہتری کی بجائے روز بہ روز مزید انحطاط کی طرف مائل بہ سفر ہے۔ دنیا آگے کی طرف اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ پہلے عدل و انصاف میں یہ تفاوت اور قانون کی کسمپرسی اتنی شدت سے دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پہلے جو چیزیں کسی حد تک پردے میں ملفوف تھیں وہ اب بالکل شفاف دکھائی دے رہی ہیں۔ یعنی جو تھوڑی بہت شرم اور ایک پنجابی لفظ کے مطابق ”اوہلا“ تھا وہ اب رخصت ہو رہا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ لوگوں کا قانون پر اعتماد اور عدل و انصاف پر بھروسا بھی رخصت ہو رہا ہے۔
جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے، کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے، کمزور ہو رہا ہے، اکیلا ہو رہا ہے، معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے، دنیا بھر میں ہمیں ہر جگہ خفت اُٹھانا پڑ رہی ہے، اگر آج ہمارے وزیر اعظم نے کسی ملک کا دورہ کرنا ہوتو ترقی یافتہ ممالک تو ویسے ہی وقت نہیں دے رہے، جبکہ برابر کے ممالک ہچکچا رہے ہیں اور ہمسایوں کے عزائم تو پہلے ہی بتا چکا ہوں اور پیچھے رہ گئے ہمارے فیصلہ کرنے والے،،، اب مرضی ہے اُن کی کہ اُنہیں مزید تباہی چاہیے یا پھلتا پھولتا پاکستان؟
ہماری ترجیحات !
احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد کا لاہور سمیت تمام شہروں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے، جگہ جگہ راستے بلاک کر دیے گئے ہیں، اور اتنا کچھ کر کے پھر حکومت نے کہنا ہے کہ جلسے میں تو لوگ ہی نہیں آتے۔ اگر یہ نہیں آتے تو انہیں آپ روک کیوں رہے ہیں۔ الغرض حکومت کا بس یہی کام رہ گیا ہے، کہ اُس نے تحریک انصاف کو کیسے دبانا ہے، تبھی ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے، تبھی بلوچستان ، خیبر پختونخوا جیسے صوبوں میں ”خارجی“ جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں کارروائی کرکے چلے جاتے ہیں۔اگر خارجی بیرون ملک سے آتے ہیں تو کس نے روکنے ہیں؟ عوام نے روکنے ہیں یا ان سکیورٹی فورسز نے روکنے ہیں جنہیں بارڈر پر تعینات کیا ہے، اور وہ باڑ جو پاک افغان سرحد پر لگائی گئی تھی وہ کہاں ہے؟ اس پر تو ریاست کے اربوں روپے لگے تھے۔ لیکن حالات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ یہ ریاست پاکستان کی ناکامی ہے، ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ ان کی ترجیحات صرف یہ ہیں کہ لوگوں کو گھروں سے کیسے اُٹھانا ہے، چادر اور چار دیواری کو پامال کیسے کرنا ہے، قوانین میں راتوں رات ترامیم کیسے کرنی ہیں، کیسے اپنے پسندیدہ بندوں کو اوپر لاکر مرضی کے فیصلے کروانے ہیں۔ قصہ مختصر کہ اگر ایک بھی شہری ناحق مرتا ہے، تو ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، لیکن آپ دیکھ لیجئے گا کہ ایک دو دن میں یہ سانحہ بھی ہم بھول جائیں گے!