سموگ کا تدارک: حکمران ہیں کہاں ؟

1945ء میں جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر جب ایٹم بم برسائے گئے تو اْس کے نتیجے میں کئی ماہ تک دھویں کے ایسے ہی بادل تھے، جیسے آج کل پنجاب کے ہیں، یقیناً پنجاب میں ٹھہرا ہوا یہ دھواں کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ ایٹم بم میں یک لخت آپ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ سموگ سے ’’سلو پوائزننگ‘‘ ہوتی ہے اور آپ آہستہ آہستہ خطرناک امراض کا شکار ہو کر موت کا شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق جو شخص لاہور میں ایک سال گزار لے گا، اْس کی زندگی کے سات سال کم ہو جائیں گے۔ ویسے اس حساب سے تو لاہورئیے اپنی زندگی پوری کر چکے ہیں اور بونس پر جی رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ادراک کرنے میں بھی کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ جنہوں نے اقدامات کرنے ہیں وہ پورا سال سوئے رہتے ہیں۔ خیر آگے بڑھنے سے پہلے سموگ کے بارے میں بتاتا چلوں کہ ماہرین کے مطابق یہ دھند اور دھویں کا مکسچر ہے جسے ہم سموگ کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ اکتوبر کے مہینے میں ہی کیوں آتی ہے اور دسمبر تک کیوں جاری رہتی ہے، ویسے اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ان میں سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں موسم سرد ہونا شروع ہوتا ہے اور ہوائیں کم چلتی ہیں، ماہرین کے مطابق ہوائیں 4 سے 5کلومیٹر فی گھنٹہ چلتی ہیں جبکہ دھویں کے ذرات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے کم از کم 6کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار چاہیے ہوتی ہے، اسلئے عمومی طور پر دھواں جہاں سے نکلتا ہے وہی ٹھہر جاتا ہے جو سموگ کا باعث بنتا ہے، ویسے تو مون سون میں بھی ہوائیں کم چلتی ہے لیکن اْن دنوں بارش کی وجہ سے دھویں کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اس سموگ کی دوسری بڑی وجہ اس خطے میں چاولوں کی فصل کی کٹائی کے بعد اْن کو آگ لگانا ہے، تبھی پنجاب کے ارد گرد کے شہروں میں سموگ کے حوالے سے کبھی لاہور پہلے نمبر پر ہوتا ہے، کبھی ملتان، تو کبھی دہلی ہوتا ہے۔ ویسے تو پرانے وقتوں میں دہلی سے لے کر پشاور تک کا پورا علاقہ پنجاب ہوا کرتا تھا، اور اس کا کلچر بھی ایک جیسا تھا۔ اس ایریا میں ان دنوں چاولوں کی فصل کی کٹائی ہوتی ہے، جس کے بعد نئی فصل لگانے کیلئے پرانی فصلوں کی باقیات کو ختم کرنے کا آسان طریقہ آگ لگانا ہوتا ہے۔ اس سے مونجی کی مضبوط جڑیں ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ طریقہ کار اب آہستہ آہستہ جان لیوا ثابت ہونے لگا ہے۔ اب پنجاب حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت انڈیا کو الزامات کے بجائے کوئی مشترکہ حل نکالنا چاہیے، چونکہ ابھی تک تو صرف دونوں اطراف سے ماہرین ہی بیانات دے رہے ہیں، جیسے انڈین ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کا یہ الزام سراسر غلط ہے، کیوں کہ ہوائیں نہیں چل رہیں تو کیسے ممکن ہے کہ سموگ پاکستان میں جائے۔ یہ صرف ایک صورت ہی ہوسکتا ہے کہ اس سموگ کو ہم میزائلوں کے ذریعے دوسرے شہر میں منتقل کریں۔ جبکہ پاکستان کی حکومت بضد ہے کہ یہ انڈیا کی کارستانی ہے۔ لیکن جو بھی ہے سوال یہ ہے کہ دونوں حکومتوں نے ماسوائے ایک دوسرے سے خط و کتابت کے ابھی تک کیا کیا ہے؟ بلکہ ہمارے ہاں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کی وزیرا علیٰ اپنے گلے میں انفیکشن کا علاج کروانے سوئٹزر لینڈ کے پرفضائمقامات پر موجود ہیں جبکہ یہی نہیں چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان بھی اْن کے ہمراہ موجود ہیں۔ درحقیقت کسی صوبے کا چیف سیکرٹری ہی اْس کے اصل انتظامی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق موصوف کا تین مہینوں میں سوئٹزرلینڈ کا دوسرا دورہ ہے۔ انکے پچھلے دورے کے دوران عمومی تاثر یہ تھا کہ وہ اپنے خاندان سے ملنے گئے تھے، لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ان کے بیٹے شمالی امریکہ میں سیٹل ہیں۔ ایسے وقت پر جب پنجاب کے عوام دھند و آلودگی میں گھلے جا رہے ہیں، پنجاب کی قیادت کا دنیا کے ’’بلیک منی کیپٹل‘‘ کی طرف یہ سفر سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں یہ وہی چیف سیکرٹری پنجاب ہیں جنہوں نے مئی 2023 کے پنجاب اسمبلی کے الیکشن سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود منعقد نہ کروائے پھر یہی نہیں بلکہ سی ایم پنجاب کسی عام طیارے سے جنیوا نہیں گئیں بلکہ وہ پاکستان ائیر فورس کے طیارے پی ایف ایف 3کے ذریعے گئے ہیں۔بہرحال جب ریاست پر آفت آئی ہو تو ایسی صورت میں بڑے سے بڑا حکمران بھی اپنے بیرون ملک دورے ملتوی کرکے اپنے عوام کے پاس رہنے اور بروقت اقدامات کرنے کے لیے موجود رہتا ہے۔ لیکن یہاں سب کچھ اْلٹ ہے۔ بہرحال جیسے چند سال قبل یہاں پنجاب میں چاولوں کی فصل کو آگ لگانا جرم تھا، اور اعلان کیا گیا تھا کہ جس ایریا میں فصل کو آگ لگائی گئی، وہاں کا ایس ایچ او ذمہ دار ہوگا، اور ایک سے زائد کیس رپورٹ ہونے پر وہاں کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا جائے گا۔ بھارت کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے، کیوں کہ وہاں کے پنجاب کی حکومت نریندر مودی کی پارٹی کی نہیں ہے، اسلئےوہاں کی حکومت بھی اس حوالے سے اقدامات کے باعث فنڈز کی کمی کا شکار ہوگی ، لیکن جو اقدامات ہو سکتے ہیں وہ تو کم از کم کرنے چاہییں۔ لیکن فی الوقت تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو بھارتی حکومت کو اس کی پرواہ ہے اور نہ ہماری حکومت کو۔ بلکہ ہمارے حکمرانوں کو تو اس وقت صرف عمران خان کی پڑی ہوئی ہے، کہ اْس کی جماعت سے کیسے دوبارہ 9مئی جیسا واقعہ رونما کروانا ہے، اْس کی پارٹی کے رہنمائوں کو کیسے اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنانا ہے اور کیسے بیرون ملک لابی کرنی ہے کہ اْن کیلئے پاکستان میں بہترین آپشن عمران خان نہیں ہم ہیں! بہرکیف کیا ہم ان شہروں میں بھی سموگ کے تدارک کے ٹھوس اور بتدریج اقدامات نہیں کرسکتے؟ کیا ہم سموگ کے تدارک کیلئے 5یا دس سالہ پلان نہیں دے سکتے؟ کیا ہم دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو مرحلہ وار بند نہیں کرسکتے، یا دوسرے شہروں میں نہیں دھکیل سکتے، ایسا کرنے سے ان کے مالکان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی، اور وہ یقیناً نئی گاڑیاں خریدیں گے، جو بڑے شہروں میں آسکتی ہیں اور دھواں بھی کم پیدا کر سکتی ہیں۔اور پرانی گاڑیاں آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی۔ کیا ہم اس قسم کے اقدامات کرکے شہریوں پرفضا ماحول نہیں دے سکتے؟ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اس وقت سموگ کا تدارک کرنے والے ہیں کہاں؟

اپنا تبصرہ لکھیں