سیاسی کارکن لائق احترام ہیں

شبِ تاریک و بیم موج و گردابی چنیں حائل

کجا د انند حال ماسبک ساران ساحل ہا

بہت تاریک رات۔ تند و تیز لہروں کا خوف۔ ایک خوفناک بھنور درپیش ہے۔ ساحل پر آرام سے کھڑے تماشا کرنے والے ہمارا حال کہاں جانتے ہیں۔

جو کچھ ہورہا ہے۔ تاریخ اور منطق کہہ رہی ہے کہ یہ ہونا ہی تھا۔ ہم 1985سے اسی طرف ہانکے گئے ہیں۔ اس سسٹم کا منطقی اور لازمی نتیجہ اسی نادر شاہی میں رُونما ہونا تھا۔

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

ساحل نصیبوں سے ملتا ہے۔ منزل مقصود کے حصول کیلئےقافلوں کا باشعور ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ راہ میں کوہ گراں بے شُمار ہوتے ہیں۔ رہبروں پر انحصار ہوتا ہے کہ وہ آپ کو کہاں کہاں سے لے جاتے ہیں۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ جن کی آنکھوں میں شہادت کی چمک تھی۔وہ اس سعادت سے ہمکنار ہوئے۔ صرف ایک شہید کی موت بھی قوم کی حیات ہوتی ہے۔ کبھی ہم آئینی ترمیم کیلئے گنتی پوری کرتے ہیں۔ کبھی ہم لاشوں کی تعداد پر ایک دوسرے سے پنجہ آزما ہوتے ہیں۔ انسان کا احترام لازمی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ارگرد اڑتی دھول کو صاف کرنے کا دن۔ ابتلائیں گزر چکیں،ایک باپ کی حیثیت سے، ایک ماں کے روپ میں، دادا دادی نانا نانی سب بہت احتیاط سے بات کریں۔ آپ کے گھر میں بھی ہر عمر کے انسان ہیں۔ محلے میں بھی، مسجد میں بھی ہر عمر کے مسلمان آرہے ہیں۔ آپ جس دفتر میں محو کار ہیں، وہاں بھی مختلف نسلیں آپ کی رفیق ہیں۔ مختلف سیاسی اور سماجی وابستگیاں ہیں۔ ہر مکتب فکر لائق احترام ہے مگر جہاں انسانی جان کا مسئلہ آجائے تو سب کو یک زبان ہونا چاہئے۔ اللہ نہ کرے کسی ماں کی گود اجڑے ،کسی بہن سے اس کا بھائی بچھڑے ،کوئی سہاگن بیوہ ہوجائے۔ یہ جو 2024اب آخری دموں پر ہے۔ یہ بڑے سقوطوں، المیوں کے بعد آیا ہے۔ 1947کی ہجرت کے دوران خون کی ندیاں، 1948میں قائد کی رحلت 1951میں، قائد ملت کی شہادت 1953میں،پنجاب میں ہنگامے، 1958مارشل لا۔1965 بھارت کی جارحیت۔ 1971 عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا۔ سب سے بڑے صوبے کی علیحدگی، ہلاکتیں،وطن کا دو لخت ہونا۔ 1977پھر مارشل لا۔ 1979ایٹمی پروگرام کے بانی، ایک متفقہ آئین کو منظور کروانے والے، اسلامی سربراہوں کو یکجا کرنے والے کی شہادت۔ 1988ایک صدر، ایک آرمی چیف کی طیارے میں موت۔ 1979سے ہی افغانستان پر روس کی لشکر کشی کے بعد ہمارے ہاں کلاشنکوف اور ہیروئن کا کلچر۔ 1985 غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں برادریوں، جاگیرداروں کا غلبہ، بم دھماکے۔ 2001نائن الیون کے بعد مسلسل دہشت گردی، آئین اور قوانین اہل تسلط کے تابع۔

1985میں ڈالر 15روپے کا تھا۔ پھر مسلسل روپے کی قدر گرتے گرتے 300 روپے تک جا پہنچی۔ دو پارٹیاں باری باری حکومت کرتی رہیں۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں،سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوےلیکن پھر اکٹھے ہوجانا۔ ایک دوسرے کے گناہوں پر پردہ ڈالنا۔ اس کلچر کے دوران ایسے شخص کو حکمران بنانا جو ان دونوں پارٹیوں سے بات بھی نہ کرے۔ برسوں سے باریوں کا سیٹ اپ خطرے میں پڑ گیا۔

ہر حکمران سیاسی ہو یا فوجی، وہ عدالتوں سے بہت تنگ آیا،ایوانوں میں اصول پرست ارکان کی تقریروں سے بھی ۔ 8فروری کے مینڈیٹ کو بھی حکمران طبقوں نے خطرہ گردانا۔ ان تمام مراحل سے ہوتے ہوئے ہم 24نومبر2024تک پہنچے ہیں۔ اہل تسلط تو ہر طرف ہیں۔ اہل تدبر اپنی عافیت گاہوں میں آرام کررہے ہیں۔

اہل تدبر ابھی سمجھ نہیں پارہے کہ حکمران طبقوں اور پی ٹی آئی دونوں نے آخری آپشن کیوں استعمال کیے۔ درمیان میں ابھی بہت سے راستے تھے جن پر چلا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی بار ایسے مواقع آئے جب براہ راست خونیں تصادم ہوسکتا تھا۔ اس سے بچا جاتا رہا۔ کیونکہ دونوں طرف اپنے ہوتے ہیں۔ فائنل کال کہیں یا آپریشن ریڈ واٹر، اس کی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی۔ اس مقابلے میں کسی کی فتح ہوئی نہ شکست،ریاست زخمی ہوئی ہے۔ اہل تدبر کے غور و فکر کی سخت ضرورت ہے کہ سیاسی کارکن کسی بھی پارٹی کے ہوں۔ وہ لائق احترام ہیں۔ جمہوریت سیاسی کارکنوں کے دم سے ہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے، ڈی چوک پہنچے۔ اپنا مقصد حاصل کیے بغیر واپس ہونے پر مجبور ہوئے۔ ان کی ذہنی حالت کیا ہوگی۔ ان کی مائوں پر کیا گزر رہی ہوگی، یہ پاکستانی ہیں، ہمارے ہم وطن ہیں،ہمارا سرمایہ، ہمارا اثاثہ۔ ان کی عمریں 15سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ ان کی توانائیاں ان کی صلاحیتیں، ان کے خواب، ان کے عزائم ہی ایک ریاست کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ریاست کا بنیادی فریضہ یہی ہے کہ ان کی طاقت جسمانی اور ذہنی صلاحیت کو ریاست کے مستقبل کی تابناکی کیلئے استعمال کرے۔ ان کے خلاف آپریشن کرکے ہم نے اگلی ایک دہائی کے خطرات مول لیے ہیں۔ ایک پارٹی انہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے لے کر آئی۔ جب وہ اتنی بڑی تعداد میں زندہ انسانوں کو لے کر چل رہی ہے۔ اس کا فخر بھی وہ ہیں۔ ان کے جلسے جلوس کی کامیابی کی بنیاد بھی وہ ہیں تو ان کی جان مال رہائش کھانا اور گھروں تک بحفاظت واپسی بھی۔ اس پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ دونوں طرف سے انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ ریاست نے انہیں انتشاری قرار دے کر آپریشن کیا۔ وہ پہلے ہی حکمران طبقوں کے دل و جان سے خلاف تھے۔ ان کی نا اہلی کا خمیازہ بے روزگاری اور بے سمتی میں بھگت رہے تھے۔ اب اس آپریشن کے دوران انہیں جس بے بسی، بے کسی، اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکمرانوںسے ان کی بیزاری میں شدت ہی آئے گی اور ایک طویل عرصے تک کیلئے۔ اسے ایک مخالف سیاسی پارٹی کی شکست فاش سمجھ کر حکمرانوں کو نوجوانوں سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے۔ یہ سوچنا چاہئے کہ یہ توانائیاں، جوش و جذبہ اب کیا راستے اختیار کرے گا،یہ طاقت کس کے کام آئے گی۔

یہ حکومت کا بھی فرض ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ریاست کا۔ ریاست کے چار ستونوں میں 1۔ انتظامیہ (جس میں سول اور عسکری دونوں شامل ہیں)۔ 2۔ مقننہ۔ (قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ)۔3 ۔عدلیہ(عظمیٰ، عالیہ اور ذیلی)۔ 4۔ میڈیا۔ (پرنٹ، برقی، سوشل)۔ حکومت اپنی میعاد تک سوچتی ہے۔ ریاست کو تو کئی دہائیوں کا سوچنا ہوتا ہے۔ گورنر راج، پارٹی پر پابندی کے تجربات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ اگر یہ نتیجہ خیز رہے ہوتے تو آج ریاست کو یہ آپریشن کیوں کرنا پڑتا۔

اپنا تبصرہ لکھیں