آج خوش قسمتی سے شنگھائی تعاون تنظیم کا اسلام آباد میں اجلاس جاری ہے، اورپاکستان تحریک انصاف اسی دن احتجاج کا ارادہ بھی رکھتی تھی، جسے عین وقت پر ملتوی کردیا گیا، اُس کے احتجاج کی بڑی وجہ متوقع آئینی ترامیم اور بانی تحریک انصاف کی رہائی ہے، آگے چلنے سے پہلے شنگھائی تعاون تنظیم کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے ، جو آٹھ ممالک پر مشتمل ہے، اسے چین کے شہر شنگھائی میں 1996میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس اور تاجکستان کے رہنمائوں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ کے اراکین تھے ، ازبکستان اس میں 2001ءمیں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ءکو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ویسے تو پاکستان 2005ءسے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ءمیں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی ۔اس تنظیم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ممالک دنیا کی 40فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، اور ان کے پاس عالمی جی ڈی پی کا 32فیصد ہے۔ان کا رقبہ بالٹک سے بحرالکاہل اور قازقستان سے ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اس تنظیم کی ایک اور خاص بات بتاتا چلوں کہ یہ تنظیم سارک اور اقتصادی تعاون تنظیم سے بہتر ہے، اور 2024ءمیں اس کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے۔ تبھی اس کا 23واں سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے۔
کیا شنگھائی تعاون تنظیم کا اسلام آباد اجلاس گیم چینجر ثابت ہو گا اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے میں ایک مثالی تبدیلی کی عکاسی کرے گا؟ کیا دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا مقابلہ کرنے پر ایس سی او کی پہلے توجہ تجارت اور اقتصادی تعاون، ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے، ٹیکنالوجی اور سفر میں تعاون کو فروغ دینے، اور یوریشیا سے ہندوستان تک وسیع زمینی بڑے پیمانے پر محیط زیادہ بہترین کنیکٹیویٹی بنانے پر مرکوز ہوگی؟ کیا شنگھائی تعاون تنظیم کا اسلام آباد سربراہی اجلاس ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں نسبتاً پیش رفت کا موقع فراہم کرے گا اور کس طرح امریکہ مخالف، جس میں چین، ایران اور روس کا اشتراک ہے، اسلام آباد میں ہونے والے آئندہ پروگرام میں نمایاں ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایس سی او اسلام آباد سربراہی اجلاس کے پس منظر میں اٹھائے گئے ہیں۔ویسے تو ایس سی او کی رکنیت سے پاکستان کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کیوں کہ بھارت کو اگر ہم ایک طرف رکھیں تو دوسری طرف چین اور روس جیسے بڑے ممالک کے ساتھ ہم تجارت، مواصلات اور دیگر روابط کو گہرا کرکے ہم ترقی کر سکتے ہیں، لیکن اس کا سارا دارومدا پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، کہ ملک میں ایک طرف سیاسی افراتفری ہو اور دوسری طرف آپ حالات کے بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا! آپ لاکھ اچھا کام کر لیں مگر تاریخ آپ پر گہرا اثر نہیں چھوڑ سکتی۔ بلکہ تاریخ آپ کو ہمیشہ جابر گردانے گی۔
نہیں یقین !چلیں آپ کو ایک تازہ مثال دیتا ہوں کہ اسی ذہنیت کا سب سے بڑا مظاہرہ اسرائیل میں نظر آتا ہے۔ دنیا میں بظاہر اسرائیل سے زیادہ مذہبی ملک اور کوئی نہیں۔ ان کے حلیے دور سے ہی بتا دیتے ہیں کہ وہ کتنے عبادت گزار ہیں۔صرف اپنی نہیں، دوسروں کی الہامی کتب پر بھی اتنی مکمل تحقیق کہ عقل دنگ رہ جائے۔ دنیاوی طور پر سب سے زیادہ پڑھے لکھے، سب سے زیادہ ایجادات کرنے والے۔ ہالی ووڈ ان کی مٹھی میں ہے۔ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پہ ان کا راج ہے۔ عالمی ایڈورٹائزنگ کمپنیز سے لے کر میوزک انڈسٹری اور اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلز تک،ہر جگہ یہودیوں کا غلبہ ہے۔ اثر ورسوخ کی حد یہ ہے کہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود امریکی انتخابات پر انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رہنما اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے مرے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب دنیا کے سب سے زیادہ مذہبی اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ جب غزہ پہ حملہ کرتے ہیں تو ایسے ایسے جنگی جرائم سرانجام دیتے ہیں کہ انسانیت کا وجود شرما جائے۔ وہ ہسپتالوں میں گھس کر نومولود بچوں کی آکسیجن بند کر ڈالتے ہیں۔سارے مظالم کر چکنے کے بعد وہ دیوارِ گریہ سے سر لگا کر روتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب دھل گیا۔یہ دینی اور دنیاوی،دونوں علوم کے حساب سے دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن فلسطینیوں کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ نہیں سلجھائیں گے۔ اس وقت عبادت گزار مگر خون آشام یہودیوں کو سو فیصد یقین ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہماری حکومت اپنے مخالفین پر دھاوا بول رہی ہے، اُنہیں کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں،ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی آدھی سے زائد قیادت جیلوں میں ہے، بانی تحریک انصاف سے ملاقات نہیں کروائی جارہی، اُنہیں کس حالت میں رکھا ہوا ہے، یہ بھی کچھ علم نہیں۔ آدھے سے زیادہ بلوچستان اس وقت پاکستان مخالف ہے، وہ وفاق اور پنجاب سے متنفر ہو رہے ہیں، تبھی روزانہ پنجابیوں پر حملے ہو رہے ہیں، اور نہتے مزدور ہلاک کیے جا رہے ہیں، تبھی بے قصور کان کنوںپر ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ فائرنگ کی جارہی ہے، تبھی بسوں سے اُتار کر ایک مخصوص گروپ پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پشتونخواہ کو دیکھ لیں۔ وفاق نے پشتونخواہ کی جماعت پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگائی تو انہوں نے جرگہ بلالیا۔ جرگہ بھی کیا خوب تھا، پچاس ہزار سے زائدکا مجمع۔ مجبوراََ وفاق کو یعنی وزیر داخلہ محسن نقوی اور گورنر کے پی کو علی امین گنڈا پور کے دربار حاضری دینا پڑی۔ یہ وہی علی امین ہے جسے کچھ دن پہلے لعن طعن سے نوازا جارہا تھا۔ گنڈاپور نے کچھ عقل دلائی تب جاکر وفاقی سرکار کو ہوش آیا کہ آگ سے کھیلنے کا نقصان بہت ہوسکتا ہے۔ کل تک گنڈاپور باغی سمجھا جارہا تھا لیکن اب وہی سب کچھ ہوگیا۔ تصویر تو سب نے دیکھی ہوگی گنڈاپور بیچ میں بیٹھا ہے اور یہ دونوں صاحب اس کے دائیں بائیں۔ گنڈاپور کو بیچ میں بٹھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ جرگے کا انعقاد پرامن ماحول میں ہوا ‘نہیں تو چند روز قبل جرگے والوں پر دھاوا بولا گیاتوچاراشخاص کی اموات ہوگئیں۔ اشتعال بڑھ سکتا تھا اگروفاقی سرکار اپنی اپروچ پربضدرہتی۔ گنڈاپور نے صورتحال کو بچایا۔
حالانکہ پہلے بھی کہا جا رہا تھا کہ یہ ہمارے پاکستانی لوگ ہیں، ان سے ڈائیلاگ کریں، ایک بار نہیں دس بار کریں، اگر وہ پھر بھی نہیں مانتے تو آپ گیارھویں مرتبہ اُن سے ڈائیلاگ کریں۔ مجھے یاد آرہا ہے 90کی دہائی میں سندھ میں جب جام صادق علی اسی طرح وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔ جیسے آج کل وزیر اعظم کو بنایا ہوا ہے، جناب آصف علی زرداری کراچی کے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں زیر تفتیش تھے۔دوست احباب نے جام صاحب سے عرض کی کہ اپنے ہم وطنوں سے گفتگو محبت سے بھی کی جا سکتی ہے۔ مخالفوں کو دھونس دھاندلی سے رام کرنے کی کوشش میں محنت مشقت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ نفرتیں بھی بڑھتی ہیں۔ آج بتائیے کوئی جام صادق علی کو ان کے سرپرست صدر غلام اسحاق کو یاد رکھتا ہے اور اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ جس شخص کی زبان کاٹی جا رہی تھی۔ تشدد ہو رہا تھا۔ وہ اب اس بد قسمت مملکت کا دوسری بار سربراہ ہے۔ بڑے بڑے طاقت ور اسے سیلوٹ کرنے پر مجبور ہیں۔یہ اتفاقات کا زمانہ ہیں۔ اب ہمارے معزز چیف جسٹس کے ایّام ملازمت کے 12دن رہ گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی سالمیت کی جنگ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں لڑی جا رہی ہے۔ ریاست مرضی کی آئینی ترامیم کرنا چاہ رہی ہے، جس کے بعد وہ اختیارات کی بے پناہ مالک بن جائے گی۔ تو ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم تو کیا دنیا کی کوئی تنظیم بھی پاکستان کے حالات کو بہتر نہیں کر سکتی۔
اس لیے حکمران ہوش کے ناخن لیں، مخالفین پر اتنا جبر کریں جتنا وہ کل کو سہہ سکیں۔ آپ کو تو چاہیے تھا کہ آپ کانفرنس میں تحریک انصاف کو بھی مدعو کرتے، تاکہ اچھا تاثر قائم ہوتا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کے گھر شادی ہو تو اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب کو منائے اور تمام رشتے دار اُس کی شادی میں شرکت کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ اس موقع پر سب کو ساتھ لے کر چلتی۔ کیوں کہ ہمسائے باخبر ہیں، اُنہیں علم ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔اس لیے سرکار کو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اور ایسا ہر گزنہیں کرنا چاہیے کہ اگر کوئی آپ کی پالیسیوں کے خلاف بولنے لگے تو آپ یہ کہہ دیں کہ یہ ریاست مخالف ہیں، یا یہ کہہ دیں کہ یہ غدار لوگ ہیں۔ آپ خود ذرا بتائیں کہ تحریک انصاف کے پاس اب اور کیا چارہ رہ گیا ہے، احتجاج کے علاوہ؟ چلیں مان لیا کہ اُسے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران احتجاج نہیں کرنا چاہیے تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنے جائز مطالبات کے لیے کب احتجاج کرے؟ جب پانی سر سے گز جائے تب یا جب مرضی کی عدالتیں بن جائیں تب؟ آپ کو کم از کم یہ ضرور یاد ہونا چاہیے کہ بنگالی بھی ریاست مخالف تھے، ا±نہوں نے پھر وہ کیا کہ اُ ن تلخ یادوں کو ہم نے اپنے حافظے سے مٹادیا۔ آج بھی سانحہ مشرقی پاکستان پر بات ہو تو ہم بڑبڑانے لگتے ہیں، سیدھی بات نہیں ہوتی۔
لہٰذا ملک میں فارم 47والا جادو چلانا نسبتاً آسان تھالیکن پختونوں کے دیس میں اتنا آسان نہیں۔ پی ٹی آئی کو وہاں روکا نہ جاسکا اور نتیجتاً پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت وہاں بن گئی۔ اُس حکومت کو آج تک دل سے قبول نہ کیا گیا لیکن برداشت کرنا پڑا۔ کسی کے بس کی بات ہوتوعلی امین کو آج ہٹا دیں اور گورنرراج نافذ ہو جائے لیکن اتنا احساس پیدا ہوچکا ہے کہ یہاں بتانا ممکن نہیں! اس لیے حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اپنی اداﺅں پر ضرور غور فرمائیں!