شہباز شریف بمقابلہ شاہد خاقان

نون نے آج تک پارٹی کی طرف سے صرف 3 وزیراعظم بنائے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف تو نونی فیملی سے ہی ہیں نونی فیملی سے باہر یہ اعزاز اور صرف شاہد خاقان عباسی کو ملا ہے۔ شہباز شریف کی شہرت ہمیشہ ایک اچھے منیجر کی تھی وہ کبھی بھی پاپولر سیاستدان نہیں رہے نہ ہی انہوں نے کبھی اس میدان میں اترنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیراعظم گڈگورننس کے حوالے سے نام کمایا۔ جنرل باجوہ اور مقتدرہ کے بہت سے لوگ ان کی قابلیت اور حکومتی امور پر ان کی کمانڈ کی تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ تین دہائیوں تک نون لیگ سے وابستہ رہے اور آج کل انہوں نے ایک نئی جماعت کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ جس کا فی الحال مستقبل روشن نظر نہیں آ رہا ۔ گزشتہ روز لاہور میں پنجابی اشرافیہ کے ساتھ شاہد خاقان عباسی کی ایک نشست ہوئی جس میں تین سابق گورنر چوہدری سرور، خواجہ طارق رحیم اور شاہد حامد، سابق وفاقی وزراء اعتزاز احسن، شفقت محمود اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر شامل تھے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈوبتے پاکستان کا ایک معاشی خاکہ پیش کیا اور اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ انقلابی تبدیلیوں کے بغیر پاکستان کا آگے چلنا محال ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے معروف صنعتکار اقبال زیڈ احمد کے گھر ہونے والے اس عشایئے میں واضح موقف اختیار کیا کہ’’ ووٹ کو عزت دو اور آئین کی پابندی کرو ‘‘کے دو اصولوں کے بغیر کسی بہتری کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔ لاہوری اشرافیہ کی اس محفل میں تمام شرکاء دل سوزی سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کو دور کرنے کی کوئی سبیل نکالی جانی چاہئے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی کہا کہ ریاست کی تقدیر اس وقت صرف دو افراد کےہاتھوں میں ہے، ایک پنڈی میں فروکش ہے اور دوسرا اڈیالہ میں اسیر ہے۔ بظاہر ان دونوں میں کسی مصالحت کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اس لئے سیاسی بحران کا کوئی حل بھی نکلتا ہوا نظر نہیں آتا، ان کا خیال تھا کہ ایک تیسرا آدمی نواز شریف تھا جو اس بحران کو حل کر سکتا تھا اگر وہ 8 یا 9فروری کو یہ ماننے کا اعلان کر دیتا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ ان کے خیال میں نون 1988ء، 1993ء اور 2007ء میں بھی ہاری۔ نون یہ شکست مان لیتی تو یہ آج کی مقبول جماعت ہوتی۔ ان کے خیال میں نواز شریف بڑے آدمی ہیں مگر انہیں بھائی اور بیٹی کی مجبوری نے سیاسی مصلحت سے کام لینے پر مجبور کر دیا مگر اس سے ووٹ کو عزت دو کا اصولی موقف بھی گیا، بیانیہ فارغ ہوا تو نون کی سیاست بھی متروک ہو کر رہ گئی ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا سب سے دلچسپ تبصرہ اپنی ہی سابقہ پارٹی نون لیگ کے موجودہ وزیراعظم پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف ایک ناکام وزیراعظم ہیں وہ مسلم لیگ نون کے صدر کے طور پر بھی مکمل ناکام رہے تھے۔ انکے خیال میں آئندہ بھی شہباز شریف کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے اور جب تک بڑے فیصلے نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک میں بہتری آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لاہوری اشرافیہ کی اس پریشانی بھری محفل میں شرکائے محفل نے بھی اپنی باری آنے پر آراء کا اظہار کیا۔ اشرافیہ کی اس محفل میں عامی صرف یہ گمنام صحافی ہی تھا۔ میری باری آئی تو میں نے انتہائی شائستہ ماحول کو خراب کرتے ہوئے بے باکی اور گستاخی سے یہ کہہ دیا کہ آج ملک جس صورتحال کا شکار ہے اس کے ذمہ دار آپ ہی تو ہیں۔ آپ نے مختلف وقتوں میں گورنریاں، وزارتیں اور سفارتیں لیں، نہ کسی اصول کا خیال رکھا نہ کبھی اپنے مفاد کی قربانی دی۔ اگر واقعی آپ اصلاح احوال چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ماضی میں کی گئی غلطیوں کی عوام سے سرعام معافی مانگیں۔ وگرنہ کل کو پھر وزارت یا کسی اہم عہدے کی پیشکش ہوگی تو آپ پھر کشاں کشاں قطار میں لگ جائیں گے۔ ہمارے زوال کی اصل وجہ تو اشرافیہ کا یہ رویہ ہے۔

سابق گورنر خواجہ طارق رحیم نے کہا اگر اعتزاز احسن جبر کے دور میں عدلیہ کی تحریک کو زیرو سے بام عروج اور منزل تک پہنچا سکتے ہیں تو نوجوانوں کی مدد سےتحریک چلا کر اب بھی ملک میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اعتزاز احسن نے سب شرکاء سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنا سو فیصد وقت اس معاملے کو سلجھانے کیلئے وقف کر سکتے ہیں، کیا آپ تیار ہیں کہ اس دوران بزنس اور نوکری کو بھول جائیں گے اور خود اپنی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے دو سال تک یہ قربانی دی کسی عدالت میں پیش نہ ہوا بس عدلیہ تحریک کی دھن میں لگا رہا۔ پھر انہوں نے سب سے سوال کیا کہ کیا آپ میں سے کوئی اپنا سو فیصد وقت اور مکمل مالی قربانی دینے کیلئے تیارہے؟ تمام تر دل سوزی اور ملکی حالات ٹھیک کرنے کے جذبےکے باوجود کوئی بھی فرد اتنی بڑی قربانی کیلئے اپنا نام پیش نہ کر سکا۔

یہاں تک تو ایک شبینہ محفل کی کہانی تھی جو میں نے لفظ بہ لفظ بیان کر دی۔ اب آگے میرا تجزیہ ہے۔ بظاہر مقتدرہ اور شہباز حکومت میں اس وقت گاڑھی چھن رہی ہے، شہباز حکومت مقتدرہ کی اُس وقت تک مجبوری ہے جب تک تحریک انصاف کی طاقت ٹوٹ نہیں جاتی جونہی تحریک انصاف کا خطرہ کم ہوگا شہباز حکومت کے خلاف تین نکاتی چارج شیٹ کا ڈھول دھیمے سروں میں بجنا شروع ہو جائے گا۔ پہلا نکتہ سیاسی بیانئے کی عدم موجودگی اور مقتدرہ کو عوامی حمایت فراہم نہ کرنا، دوسرا نکتہ فیصلہ نہ کرسکنے کی صلاحیت اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کی ہر وزیر کے راستے میں رکاوٹیں اور عملدرآمد نہ کرنے کا بڑھتا ہوا الزام، تیسرا نکتہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں رابطے کا فقدان اور متضاد راستوں پر چلنا، میرا ناقص تجزیہ یہ ہے کہ اگر واقعی یہ چارج شیٹ سیاسی حکومت اور مقتدرہ کے تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے تو پارلیمان کے اندر سے ہی قومی حکومت کی راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس قومی حکومت میں کمزور تحریک انصاف، ناکام نون لیگ، مقتدرہ کی دو فیورٹ سندھی جماعتیں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور دوسری جماعتیں شامل ہوں گی۔ یہ حکومت دو سال کیلئےبننے کا امکان ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس قومی حکومت کے متوقع وزیراعظم کا نام ایک اہم وفاقی وزیر، بلاول بھٹو اور شاہد خاقان عباسی میں سے کسی ایک کا ہو سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی پارلیمان کے رکن نہیں ہیں مگر وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں اور قومی حکومت بنانے کے حامی۔ ہو سکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو بھی کسی نہ کسی طرح پارلیمان کا رکن بنوا دیا جائے۔ میرا یہ تجزیہ کسی انفارمیشن یا خفیہ خبر کی بنیاد پر نہیں،یہ تضادستان کے بدلتے حالات اور ادارہ جاتی دبائو کی روشنی میں ہے، ماضی میں بھی یہی عناصر تبدیلیوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔ مستقبل میں بھی یہی عناصر تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ شہباز شریف حکومت کی بقاء تحریک انصاف کے طاقتور رہنے میں ہے جبکہ تحریک انصاف کا مفاد شہباز حکومت کے کمزور ہونے میں ہے اور مقتدرہ کا مفاد سب جماعتوں کی ’’نام نہاد قیادتوں‘‘ سے چھٹکارے میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ گیم آن ہے ترامیم کے بعد جلد ہی تبدیلیوں کے اشارے شروع ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں