مصنوعی ذہانت کی اس دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو آج بھی قسمت پر یقین رکھتے ہوں گے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے وہ مل کر ہی رہتا ہے۔ جدید دنیا میں سائنس کی ترقی کے ساتھ پرانے خیالات‘ نظریات‘ مذہب اور عقائد تک بدل گئے ہیں۔ آپ انسانوں کے ارتقا کی کہانیاں پڑھیں تو آپ کو یقین نہ آئے کہ واقعی یہ انسان ہی تھے جو ایسی باتوں پر یقین کرتے تھے۔ سوفوکلیز (Sophocles) کے ڈھائی ہزار سال پرانے یونانی ڈرامے ”Oedipus the King‘‘ کو پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں انسان خود کو قسمت کے ہاتھوں کتنا بے بس محسوس کرتا تھا۔ اُس وقت دیوتاؤں سے رہنمائی لینے کا یونانیوں کا ایک خاص طریقہ تھا۔ اُن کا ایمان تھا کہ ڈیلفی کے مقام پر برگد کا جو قدیم درخت ہے‘ وہاں دیوتا رہتے ہیں۔ جس کسی کو دیوتا سے کوئی بات پوچھنا ہوتی‘ وہ وہاں ان درختوں کے جھنڈ کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی بات کرتا تھا‘ جہاں ایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوتی تھی۔ جب فریادی یا سوالی اپنی فریاد سنا چکا ہوتا تو فریاد سن کر اس درخت کے پتے ہلتے۔ اس پر وہ بوڑھی خاتون ان پتوں کے حرکت سے دیوتاؤں کا جواب سمجھ کر فریادی کو بتا دیتی تھی۔
آج کے جدید دور میں کہا جائے گا کہ وہ بڑھیا ایک طرح سے دیوتاؤں کی ترجمان یا مترجم تھی۔ تھیبز کے کنگ ایڈی پس نے بھی اپنا ایک ایلچی دوڑایا کہ جا کر دیوتاؤں سے پتا کرو کہ ہماری ریاست پر اچانک عذاب کیوں نازل ہوا ہے‘ ہم پر بلائیں کیوں برس رہی ہیں‘ ہم سے کیا قصور سرزدہوگیا ہے۔ ہم اس صورتحال میں کیا کریں۔ دیوتاؤں کی ترجمان نے اُس ایلچی کو کہا کہ جا کر بادشاہ کو بتاؤ کہ تمہاری ریاست میں ایک بے گناہ انسان کا قتل ہوا ہے‘ جب تک اس قاتل کو سزا نہیں ملے گی یا اسے جلاوطن نہیں کیا جائے گا‘ ریاست پر عذاب اسی طرح نازل ہوتے رہیں گے۔ ذرا اندازہ کریں کہ کبھی ایک انسان کے قتل پر ریاست اور اس کے شہریوں پر عذاب نازل ہوتے تھے اور جب تک قاتل کو ڈھونڈ کر اسے سزا نہ ملتی تھی وہ عذاب جاری رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کنگ ایڈی پس نے دیوتاؤں کی اس ہدایت کے بعد تفتیش شروع کرائی تو قسمت کا عجب کھیل شروع ہوا اور آخرکار وہی بادشاہ قاتل نکلا جس نے دیوتاؤں سے رہنمائی مانگی تھی۔ یہ کھیل آپ کو قسمت کے عجیب و غریب واقعات اور اتفاقات پر ایمان لانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یونانی تقدیر کے بڑے قائل تھے اور ہر چیز کو دیوتاؤں کا عمل سمجھتے تھے۔ وہی بات کہ انسان قسمت اور تقدیر کے آگے بے بس ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے دیوتا ہی کرتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں مگر لوگ قسمت یا تقدیر جیسی چیزوں پر اُس طرح یقین نہیں رکھتے‘ خصوصاً یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد ذہنی انقلابات آئے‘ جنہوں نے یورپ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ پرنٹنگ پریس کی بدولت علم پھیلا اور انسانی شعور نے سلطنتیں تک اُلٹا دیں۔ انقلابِ فرانس دراصل پرنٹنگ پریس کا پہلا سرکاری نتیجہ تھا جب روسو کے خیالات نے فرانس میں انسانی ذہنوں کو آزادی کا رومانوی نعرہ دیا اور ایک دن فرانسیسیوں نے اپنے بادشاہ اور ملکہ کا ہی سر قلم کر دیا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس انقلاب کی سرخی سے نپولین نکلا جس نے پورے یورپ کو جنگوں میں دھکیل کر لاکھوں لوگ مروا دیے۔ پرنٹنگ پریس کا دوسرا بڑا نتیجہ 1917ء کے بالشویک انقلاب کی صورت میں نکلا جب لینن جیسے نوجوانوں نے ایک اور بادشاہ کی سلطنت اُلٹ دی اور پورا شاہی خاندان مار ڈالا۔
خیر بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی۔ پاکستان میں یہ سوال بہت پوچھا جاتا ہے کہ اگر سب کچھ قسمت میں ہی لکھا ہوا ہے تو پھر آپ کو یا مجھے محنت یا کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو بھی ملنا ہے‘ گھر بیٹھے ہی مل جائے گا۔ ایسا نہیں ہے! جو لوگ گھر بیٹھ کر قسمت کی کرامات کا انتظار کرتے ہیں وہ خوش قسمت نہیں بلکہ بدقسمت ہوتے ہیں۔ خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں یہی تقدیر گھر سے نکال کر سڑک پر لے آتی ہے‘ ان سے ہجرت کراتی ہے‘ محنت مزدوری اور کام پر مجبور کرتی ہے‘ انہیں گھماتی پھراتی ہے اور اس دن کے لیے برسوں تیار کرتی ہے کہ جب ان پر قسمت کی دیوی اچانک مہربان ہو جائے۔ قسمت بھی یوں اچانک مہربان نہیں ہوتی۔ یہ بھی آپ کو سات دریا اور سات جنگل عبور کراتی ہے۔ اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہے جس کی وجہ سے آپ کی قسمت کا ستارہ ایک دن چمکے گا۔ اگر آپ مذہبی طور پر دیکھیں تو قرآن پاک میں خدا کا پیغام بڑا واضح ہے کہ جو جتنی کوشش کرتا ہے اسے اتنا ملتا ہے۔ مطلب خدا بھی کوشش کرنے والوں کو ان کی محنت کا صلہ دیتا ہے۔ تقدیر پر ایمان لا کر بیکار گھر بیٹھے لوگ اکثر خالی ہاتھ رہتے ہیں۔ اگر آپ گھر نکمے بیٹھے ہیں تو پھر تسلی رکھیں‘ آپ بدنصیب ہیں۔ خوش نصیب صرف وہی ہیں جو دریاؤں‘ جنگلوں اور صحراؤں کی خاک چھان کر منزل کی طرف رواں دواں ہیں اور ایک دن اسے پا لیتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کوئی موقع پانا چاہتے ہیں تو خود کو اس موقع کے لیے تیار رکھیں۔ اپنا ‘سی وی‘ تیار رکھیں کہ کوئی موقع نکلے تو آپ اس اسامی کے لیے مناسب امیدوار ہوں‘ پھر قسمت کا کھیل دیکھیں۔
ابھی سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی ایک طرح سے قسمت کا ہی کھیل ہے۔ صرف دو ماہ پہلے جولائی تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب نئے چیف جسٹس ہوں گے۔ اب دیکھیں کہ قسمت نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ لیکن وہی بات کہ انہوں نے اتنے برسوں میں خود کو اس عہدے کے لیے تیار کیا ہوا تھا۔ وہ پورے عمل سے گزر کر یہاں تک پہنچے تھے کہ جونہی تقدیر کو موقع ملا‘ اس نے انہیں اٹھا کر چیف جسٹس بنا دیا۔ اگر وہ آج سپریم کورٹ میں ہی نہ ہوتے تو کچھ نہیں ہونا تھا۔ پھر قسمت بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے تقدیر کی سب شرائط پوری کیں۔ اب قسمت کا کھیل بھی دیکھیں کہ جنہوں نے ان سے پہلے چیف جسٹس بننا تھا وہ اس عہدے پر پہنچنے کے لیے جو جدوجہد کررہے تھے‘ وہی ان کے خلاف گئی۔ اگر جسٹس اعجاز الاحسن نے استعفیٰ نہ دیا ہوتا تو وہ آج چیف جسٹس ہوتے۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس بننا تھا‘ لیکن جسٹس منصور بھی جلدی میں تھے اور 12جولائی کو ایک ایسا فیصلہ سنا بیٹھے جس نے سب کو چونکا دیا۔ اب اگلا انتخاب جسٹس منیب ہو سکتے تھے لیکن عدالت کے اندر تقسیم کے تاثر کی وجہ سے جو حالات بن چکے تھے‘ ان سے واضح تھا کہ عدالتی ترامیم کے بعد جسٹس منیب بھی چیف جسٹس نہیں بنیں گے۔ یوں وہ جج صاحب‘ جنہیں علم تھا کہ انہوں نے شاید چیف جسٹس بنے بغیر ہی ریٹائرڈ ہو جانا ہے اور ان کا دور دور تک چیف جسٹس بننے کا چانس نہیں تھا‘ انہیں اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ یعنی جو اس دوڑ میں ہی شامل نہ تھا‘ وہ اول آگیا۔
یہ ہے تقدیر‘ یہ ہے قسمت۔ ڈھائی ہزار سال پہلے کا اگر کوئی یونانی ڈرامہ نگار آج ہوتا تو کیا آرٹ تخلیق ہوتا۔ کمال سٹیج ڈرامہ لکھا جاتا اور سالانہ میلے پر بیٹھا یونانی مجمع تقدیر کے اس انوکھے کھیل پر حیران رہ جاتا۔