قومیں سرِ دار پہنچ کر آزاد ہوتی ہیں

قومیں سرِ دار پہنچ کر آزاد ہوتی ہیں‘ ہم بھی 1947ء میں اس منزل سے گزرے ہیں۔ بالخصوص سرزمینِ پنجاب‘ چڑھدا اور لہندا‘ دونوں میں خون کی ندیاں اور آگ کے دریا برپا ہوئے۔ پنجاب کی تاریخ سے ناآشنا یا گروہِ پنجاب فروشاں‘ دونوں کی اطلاع کے لیے دہرانا ضروری ہے کہ سکندرِ اعظم سے اکبرِ اعظم تک سب کو پنجاب نے اپنی چھاتی کے زور سے روکا۔ اسی لیے الیگزینڈر یہاں سے مایوس ہو کر واپس گیا اور اکبرِ اعظم نصف صدی پہ محیط اپنے دورِ اقتدار میں سے 29 سال رائے عبداللہ بھٹی جیسے کرداروں سے اپنی آبائی دُم بچانے میں لگا رہا۔ نظام لوہار‘ رائے احمد کھرل‘ بھگت سنگھ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ فاتحِ کابل‘ اس تاریخ کی صرف چند مثالیں ہیں۔ اس تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سرفروش آزادی کے تحفظ کے لیے عوام اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدے اپنے خون سے لکھتے ہیں۔ شخصی حکومتوں‘ کِنگڈم اور فیفڈم (Fiefdom)میں فردِ واحد حاکم ہوتا ہے۔ ملک کے قدرتی وسائل‘ ملک کی زمینیں‘ ملک کے کاروبار اور بارڈرز فردِ واحد کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں۔ وہ جب چاہے‘ جہاں چاہے‘ جو چاہے کر ڈالے یا بانٹ ڈالے۔ اس پہ نگران نہ کوئی عدالت ہوتی ہے نہ وکالت‘ نہ عوام اور نہ ہی عوام کے سامنے جوابدہی کا نظام۔ پچھلی صدی میں آزادی بذریعہ عملی جدوجہد کے متوالوں کا سب سے بڑا آئیکون Ernesto Rafael Guevara De La Serna‘ 1928ء میں 14جون کو ارجنٹائن کے علاقے Rosarioمیں پیدا ہوا۔ اس کے والد Ernesto Guevara انجینئر تھے جبکہ والدہ Celia De La Serna ارجنٹائن کی انقلاب پسند سوشل ایکٹوسٹ تھیں۔ یہ دنیا کا واحد انقلابی لیڈر ہے جس کا نام لے کر دنیا بھر کے نوجوان اپنے انقلاب آفرین جذبوں کو مہمیز لگاتے ہیں۔ اسی آئیکون کی تصاویر دنیا کے ہر ملک میں‘ ہر نسل کے لوگ اپنے سینے پہ سجاتے ہیں اور اس کی تصویر والی ٹی شرٹس پہننا‘ تصویری بیج لگانا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس لافانی نوجوان انقلابی کے تین راہ نما اقوال پر کتابیں چھپتی ہیں‘ تحریکیں چلتی ہیں اور مقالے لکھے جاتے ہیں۔ جو یہ ہیں:
چی گویرا کا پہلا قول: انقلاب کوئی سیب کا پھل نہیں جو پک کر آپ کی جھولی میں آگرے گا۔ آپ کو یہ سیب خود گرانا پڑے گا۔
چی گویرا کا دوسرا قول: بہت سے لوگ مجھے ایڈونچرر کہیں گے اور بلاشبہ میں ایڈونچرازم پر یقین رکھتا ہوں‘ لیکن یہ ایک علیحدہ قسم کا ایڈونچرازم ہے۔
چی گویرا کا تیسرا قول: میری آخری اور سب سے بڑی انقلابی خواہش یہ ہے کہ میں عالمِ انسانیت کو ختم کرنے والی طاقتوں کے چنگل سے آزادی دلاؤں۔
چی گویرا پیشے کے اعتبار سے مسیحا تھے۔ اس انقلابی نے 1948ء سے 1953ء تک میڈیسن کی تعلیم یونیورسٹی آف بوئنوس آئرس سے حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ امپیریل ازم کے سخت مخالف‘ سوشلسٹ خیالات رکھنے والے گوریلا وار فیئر کے حامی تھے۔ صرف حامی نہیں‘ اس کٹھن راستے کے کئی ملکوں میں کماندار اور سارے براعظموں میں اس جدوجہد کے اصلی پیامبر بھی۔ چی گویرا ممتاز مصنف اور لاطینی امریکہ اور دنیا کے کئی خطوں میں آزادی کی تحریکوں کو کامیاب بنانے کا باعث بنے۔ ان تحریکوں کی بنیاد سوشلزم عالمِ انسان کے درمیان بین الاقوامی یکجہتی‘ بزورِ طاقت انقلاب اور اپنی ذات اور وسائل پر انحصار کے اصولوں پر آگے بڑھا۔ نو اکتوبر 1967ء میں بولیویا کے آزادی پسند انقلابیوں کی قیادت کرتے ہوئے چی گویرا اپنی جان قربان کرکے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آسودۂ خاک ہو گئے۔
اسی تسلسل میں ایران اگر چاہتا تو اسرائیل کے حملوں کے جواب میں ایک پُرجوش فارسی ترانہ ریلیز کر دیتا‘ لیکن اس نے بیلسٹک میزائل ریلیز کرنا پسند کیا۔ اس لیے کہ قومیں سرِ دار پہنچ کر آزاد ہوتی ہیں۔ اب بلاشبہ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایران‘ لبنان‘ حماس اور حوثی آزادی کے لیے سر ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں۔ ایران اور اس کی اتحادی تنظیموں سے زیادہ کسے معلوم ہوگا کہ ان کی لڑائی صرف نیتن یاہو سے یا اکیلے اسرائیل سے نہیں بلکہ پورے مغرب سے ہے۔ دو دن پہلے برطانیہ کے پرائم منسٹر اور بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے برسرِعام اعلان کیا کہ انہوں نے حالیہ ایران حملے میں اسرائیل کی عملی طور پر حفاظت کی ہے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ فلسطینی آزادی پسندوں کے خلاف جنگ میں کھل کر شریک ہیں۔ دوسرے 57 مسلم ممالک کی تو بات ہی کیا؟ اس دور‘ اس نئی تہذیبی اور صلیبی جنگ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا ہلکا سا نمونہ سینیٹر مشتاق احمدکی بار بار گرفتاری ہے۔ سینیٹر مشتاق کے خلاف ایف آئی آرز میں دو الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پہلا الزام یہ کہ سینیٹر مشتاق احمد اور ان کے ساتھی فلسطینی پرچم سے مسلح ہو کر سڑک پر نکلے یا اپنے ہی اسلامی جمہوریہ کے ڈی چوک کی برہنہ سڑک پر چوکڑی مار کرجا بیٹھے۔ میں نے تمام تعزیرات‘ لوکل اینڈ سپیشل لاز‘ نواز شریف کا بنایا ہوا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء‘ ایف آئی اے ایکٹ کھنگال مارے ہیں‘ برادر مقبوضہ مسلم ملک فلسطین کا قومی پرچم اٹھانا یا اسرائیل کے خلاف نعرہ لگانا پاکستان کے کسی بھی قانون کے تحت جرم نہیں ہے۔ ہاں البتہ امیگریشن قانون کے نیچے ہم ساری دنیا کے ملکوں میں جا سکتے ہیں‘ وہاں رہ سکتے ہیں لیکن صرف ایک ملک‘ اسرائیل جانے پر پابندی ہے۔
دوسرا الزام یہ ہے کہ سینیٹر مشتاق پھیپھڑوں کا زور لگا کر اسرائیل سے فلسطینی زمین کی واپسی اور القدس کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہماری اقتدار اینڈ کمپنی نے ساری دنیا کے حریت پسندوں اور آزادی مانگنے والوں کے لیے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ساری دنیا اس لیے کہ یورپی یونین‘ مغرب اور امریکہ سمیت جو ممالک غزہ پر بمباری کے سہولت کار اور شریکِ جرم ہیں‘ ان کے ہاں بھی فلسطین کے حق میں لاکھوں عیسائی‘ یہودی‘ عرب و عجم‘ افریقہ اور ایشیا کے مسلمان‘ ہندو‘ سکھ اور بے مذہب جمہوریت پسند فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں‘ فلسطین کے پرچم اٹھاتے ہیں اور فلسطینیوں کی زمین واپس کرنے کے بینر لہراتے ہیں۔ ان پہ نہ کوئی پرچہ ہوتا ہے‘ نہ کوئی گرفتاری‘ نہ کریک ڈاؤن اور نہ ہی تشدد۔ ہماری جمہوری ری پبلک میں تازہ ریکارڈ یہ بنا ہے کہ اب لوٹا‘ لوٹا نہیں کہلائے گا بلکہ لوٹا‘ لوٹا صاحب بن گیا ہے۔ اپنی من مانی کے لیے اب دستورِ پاکستان کو بیڑیاں پہنانے کی تیاریاں ہیں۔ اس طرف دیکھ کر آئین خاموشی کی زبان میں‘جبکہ آئین ساز شہرِ خاموشاں کی ندا میں یوں ہم آواز ہیں:
مرے دیار‘ کہاں تھے ترے تماشائی
کہ دیدنی تھا مرا جشن آبلہ پائی
کچھ ایسے دوست ملے شہرِ غیر میں کہ مجھے
کئی فرشتہ نفس دشمنوں کی یاد آئی

اپنا تبصرہ لکھیں