26ویں آئینی ترامیم کے بعد اور نئے چیف جسٹس ، جسٹس یحیٰ آفریدی کی تعیناتی کے بعد ایک سادہ سا سوال ہے، کہ کیا ایسا کرنے سے عدلیہ مضبوط ہوگی یا مزید کمزور ہو جائے گی؟ ظاہر ہے آپ جب کسی ادارے کے اختیارات چھین کر کسی دوسرے ادارے کے سپرد کرتے ہیں تو یقینا اس سے ایک ادارہ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ خیر بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ پارلیمنٹ نے جیسے تیسے کرکے اپنی بالادستی کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے، مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ دیرپا ثابت ہوگی؟ اور چونکہ ہم نے سینیارٹی کا راستہ روکا ہے،تو کیا اس سے یہ روایت نہیں پڑ جائے گی کہ جس کی حکومت ہو، وہ اپنی مرضی کا چیف جسٹس بھی لگاسکے گا۔ پھر اُسی کی اگلے کئی سال تک حکومت بنی رہے گی، کیوں کہ چیف جسٹس بھی اُس کا اپنا، آرمی چیف بھی اُس کا اپنا، چیف الیکشن کمشنر بھی اُسکا اپنا، تو کیسے ممکن ہوگا کہ ہم شفاف الیکشن کروا سکیں گے۔اس سے پھر بادی النظر میں ہوگا یہ کہ پاکستان مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزور تر ہوگا۔ اور ہم جو ابھی ہر قسم کی رینکنگ میں آخری دس نمبروں میں آتے ہیں، پھر ہمارا شمار آخری چار پانچ نمبروں میں ہوگا۔
اور پھر جن لوگوں نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو منتخب کیا ہے اُن پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ پارلیمان کی خصوصی 12 رکنی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی نمائندگی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ اور شائستہ پرویز ملک کر رہے تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضی، ایم کیو ایم کی رعنا انصار، پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر علی خان اور بیرسٹر علی ظفر، جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے حامد رضا بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے۔تحریکِ انصاف نے اگرچہ اس کمیٹی کیلئے اپنے نمائندوں کو نامزد کیا تھا تاہم بیرسٹر گوہر نے چیف جسٹس کے چناو¿ کے عمل میں حصہ لینے اور پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جن لوگوں کا اپنا سیاسی کرئیرشفاف نہیں ہے وہ کسی جج کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے۔ تو پھر شائبہ تو جاتا ہے ناں کہ یہ لوگ محض ربڑ سٹیمپ ہیں، اصل فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔
بہرحال ہم تو کہتے آئے ہیں کہ یہ سب کچھ جو گزشتہ کئی ماہ سے ہورہا تھا ، وہ اسی 25اکتوبر کیلئےہو رہا تھا، لیکن انہیں (ن لیگ و پیپلزپارٹی) کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ ان کے ایسے فیصلے ہمیشہ ان کے گلے پڑجاتے ہیں، نہیں یقین تو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ بھٹو ضیاءالحق کو ساتویں نمبر سے لائے تھے، لیکن اُسی ضیا الحق نے اُنہیں پھانسی کے تخت پر چڑھا دیا تھا۔ نواز شریف ، جنرل مشرف کو چوتھے نمبر سے لائے تھے، اُنہوں نے نواز کی پارٹی کو ہی اقتدار سے نکال باہر کر دیا تھا۔ پھر یہی نہیں سکندر مرزا ایوب خان کو لے کر آیا تھا، اُس نے کیا کیا؟ انہی کو ناکارہ کردیا تھا۔ پھر جنرل مشرف اپنا ماتحت جنرل کیانی لایا تھا، سب نے دیکھا پھر بھی مشرف کو جانا پڑا۔ الغرض کبھی کبھار آپ سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے، اور یہ ہماری سیاست کا حصہ ہے۔ لیکن تاریخ بہت ظالم ہے، وہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، وہ اس حوالے سے ہمیشہ آپ کے اقدامات کو دہراتی ہے، کہ کیا آپ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ایسا کیا یا قومی اور اجتماعی مفاد میں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں شاید سمجھ نہیں آتی ، یا شاید یہ سمجھنا نہیں چاہتے۔اور نہ ہی یہ لوگ تاریخ سے کبھی سبق سیکھتے ہیں!
خیر اب نئے چیف جسٹس کی تعیناتی ہوگئی،جسٹس یحییٰ آفریدی 26اکتوبر کو حلف اُٹھائیں گے، اور اگلے تین سال کے لیے چیف جسٹس ہوں گے، اُمید ہے، وہ اپنے اچھے فیصلوں کی روایت کو برقرار رکھیں گے، اگر اُن کے فیصلوں کے حوالے سے ہم بات کریں تو وہ ہمیشہ آئین و قانون پر عمل کرتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی 2012 میں میں پشاور ہائیکورٹ کے جج تعینات ہوئے، ہائیکورٹ میں چار سال کام کے بعد 30 دسمبر 2016 کو جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔اس عرصے کے دوران جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا تھا تو انھوں نے کچھ عرصے کیلئےاس خصوصی بینچ کی سربراہی کی تھی، تاہم پھر وہ اس خصوصی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔ پشاور ہائیکورٹ میں چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 28 جون 2018 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔ تاہم حال ہی میں وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ اُن چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر اِس وقت 59 سال ہے اور چیف جسٹس کے طور پر نام کی منظوری ہونے پر انھیں ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر تک پہنچنے سے تین برس قبل ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔ اس کی وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کیلئےہو گا اور یہ مدت مکمل ہونے کے بعد اس چیف جسٹس کو ریٹائر ہی سمجھا جائے گا، چاہے وہ 65 سال کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہو۔ویسے تو اُن کے ساتھی وکلاءان کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا لیگل کیرئر بہت بہتر ہے، انہوں نے متعدد ایسے فیصلے دیے ہیں جن کو وکلا کمیونٹی میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔انہوں نے کسی بھی معاملے میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنایا اور وہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیتے رہے۔
اُمید ہے آئندہ بھی وہ بہترین فیصلے ہی دیں گے، کیوں کہ اُن کی نیت صاف لگ رہی ہے، لیکن اس کے برعکس مجھے حکمرانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ وہ اُن سے یقینا اپنی مرضی کے فیصلے کروانا چاہ رہے ہوں گے، وہ 8فروری کے الیکشن کو لیگلائز کروانا چاہ رہے ہوں گے، وہ چاہتے ہوں گے کہ فارم 47کو فارم 45جتنی ہی اہمیت مل جائے، لیکن حقیقت کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر یہ سب کچھ ان کے برخلاف ہوگیا، تو آج نوٹ فرما لیں یہ کردار کشی بھی کریں گے، اور ہو سکے تو کالے کوٹ پہن کر عدالت پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ یہ جس جسٹس ثاقب نثار کے خلاف یہ بولتے ہیں، وہ اپنی سینیارٹی کے حساب سے ہی چیف جسٹس لگے تھے، کیا اُنہیں تحریک انصاف لے کر آئی تھی؟ بلکہ اُن کا جھکاﺅ ن لیگ کی طرف ہی تھا، تبھی انہوں نے حمزہ شہباز اور عائشہ احد کی اپنے چیمبر میں صلح کروائی تھی، اور کہا تھا کہ آپ معزز خاندانی لوگ ہیں، لہٰذالڑائی کو عدالتوں میں نہ لائیں!لیکن اب یہ لوگ اُنہیں گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ پھر افتخار چوہدری کو مشرف کے ہاتھوں خود بحال کروانے کے لیے مارچ نکالا۔ اور پھر بعد میں یہ اُسی کے خلاف ہوگئے۔ لیکن پھر وہی بات کی بات کہ انہوں نے کبھی تاریخ سے نہیں سیکھا اور نہ ہی آگے سیکھنے کا ارادہ ہے۔ یہ اپنے ذاتی اور وقتی فائدوں کیلئےکام کرتے ہیں، خواہ اس کیلئےانہیں پورا ملک ہی داﺅ پر کیوں نہ لگانا پڑے۔
اور رہی اس سارے معاملے میں تحریک انصاف کی بات تو یقینا ان لوگوں نے واقعی بہت مایوس کیا ہے، جس رات 26 ویں آئینی ترامیم ہو رہی تھیں، محض 10، 12اراکین اسمبلی میں موجود تھے، جنہوں نے وہاں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ جبکہ اُس وقت مولانا بھی فرما رہے تھے کہ ہم اتفاق رائے کر رہے ہیں، بندہ پوچھے کس بات پر اتفاقِ رائے؟ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی کہ دیکھ نہیں سکتے تھے کہ سرکار کے ارادے کیا ہیں؟ آئینی یا عدالتی اصلاحات میں کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اس سارے ناٹک کا ایک ہی مقصد ہے کہ شاہ جی کہیں چیف جسٹس نہ بن جائیں۔ اول اور آخر یہی ایک مقصد تھا، باقی سب لفاظی ہے۔
مولانا فضل الرحمن گرم و سرد دونوں چیزیں کر رہے تھے۔ ایک طرف کہہ رہے تھے کہ ہم اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حکومت کا طریقہ کار صحیح نہیں اور وہ ڈرانے اور دھمکانے سے کام لے رہی ہے۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ جیسے زیرک سیاستدان کو یہ سمجھ نہیں کہ حکومت اس سارے ناٹک سے چاہتی کیا تھی؟ جب سب کو معلوم ہے کہ مقصد محض شاہ جی کا راستہ روکنا ہے‘ کہ کوئی اور بن جائے وہ نہ چیف جسٹس بنیں تو مذاکرات کا ڈھونگ رچانے کا مقصدکیاتھا؟کیا تحریک انصاف کے قائدین بچے ہیں کہ اُنہیں سمجھ نہیں آرہی تھی؟ جب بنیادی مقصد اس سارے فعل کا مشکوک ہے تو آپ اس فعل کا حصہ کیوں بن رہے تھے؟ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ سوائے بدنامی کے اور آپ کے حصے میں کیا آ سکتا ہے؟
بہرکیف حالیہ مہینوں میں جے یو آئی سربراہ نے اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام بہت حد تک واپس پا لیا تھا۔ کیوں پھر سے اس مقام کو کھونے کا خطرہ مول لیا؟ ہر کوئی اُن کے در پر حاضری دے رہا تھا۔ اصول کی اگر بات ہے تو ایک ہی طرف کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ اگر آپ شکاریوں کے ساتھ شکار کریں اور خرگوش کے ساتھ بھی بھاگیں تو یہ تو پھر دوغلاپن کہلائے گا۔سب سے حیران کن پوزیشن البتہ پی ٹی آئی کی تھی، آپ کس چکر میں پڑے ہوئے تھے؟ آپ کا تو دوٹوک موقف ہونا چاہیے کہ سرکار ایک گھناﺅنے کھیل میں لگی ہوئی ہے جس کا مقصد اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ اور حیثیت کو نقصان پہنچاناہے۔ اور جو سیاسی جماعت جمہوری اور آئینی تقاضوں کی پاسداری کادعویٰ کرے اُسے اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ لیکن آئے روز پی ٹی آئی کے وفود بھی مولانا صاحب کے در پر حاضری دے رہے تھے۔ یہ کوئی منت سماجت کا موقع نہیں تھا۔ عام لوگوں کو سمجھ آ رہی تھی کہ حکومت کے مقاصد کیا ہیں اور ہمارے لیڈرانِ کرام اس ناٹک کا حصہ بنے ہوئے تھے۔بادی النظر میں اگر ان کے بھی مفاد پنہاں تھے، تو پھر واقعی یہ بھی مفاد پرست ہیں جو قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں!