یوکرین کا صدر زیلنسکی ایک کلاسک مثال ہے کہ عوام میں ضرورت سے زیادہ مقبول لیڈر اپنے ملک اور عوام کو کیسے تباہ و برباد کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر مقبول لیڈر عوام کو یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ درست چوائس ہے‘ نت نئے حربے سوچتا رہتا ہے تاکہ عوام یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسی بزدل یا بیکار بندے کو سر پر چڑھا بیٹھے ہیں۔ عوام کو خوش کرتے کرتے سیاسی طور پر مقبول لیڈر بم کو لات مار کر اپنے ساتھ ساتھ پورے ملک اور عوام کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ یوکرین میں مقبول اور ہینڈسم کامیڈین صدر زیلنسکی نے یہی کچھ کیا ہے۔
آج صبح اٹھا تو پتہ چلا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے سکائی نیوز کو انٹرویو دیا ہے جس میں وہ روسی صدر کو پیشکش کر رہاہے کہ آپ جنگ بند کر دیں۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ روسی صدر تو کہہ رہے ہیں کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک روس کو وہ تمام علاقے اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ملے گی جو اس نے اس جنگ میں قبضے میں لیے ہیں۔ اس پر زیلنسکی نے کہا کہ وہ علاقے جو اس وقت روس کے قبضے میں ہیں‘ وہ رکھ سکتا ہے‘ ہم بعد میں اس کو سفارتی بات چیت میں دیکھ لیں گے۔ پھر اُن سے پوچھا گیا کہ نیٹو میں شمولیت کا کیا بنے گا؟ اس پر زیلنسکی نے جواب دیا کہ وہی‘ جس سے جنگ بندی ہو سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ صدر پوتن ان دونوں شرائط پر جنگ بندی کا اعلان کر سکتے ہیں کہ روس یوکرین کے تمام علاقے اپنے پاس رکھے گا اور یوکرین یورپ کی 32اقوام کے فوجی الائنس کا حصہ نہیں بنے گا۔
یورپی ممالک کے جس نیٹو اتحاد کیلئے زیلنسکی نے اپنے ہزاروں لوگ مروائے اور جنگ میں اپنے علاقے روس کے حوالے کیے‘ اُن یورپی ممالک نے اُسے ممبرشپ نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اپنے جہاز یا فوجی یوکرین کی مدد کیلئے بھیجے۔ ہاں اربوں ڈالرز کی امداد دی‘ اسلحہ دیا‘ اپنے ملک کے کیمپوں میں یوکرین کے لوگوں کو مفت کھانا پینا دیا۔ زیلنسکی چیختا رہا کہ ہمارے ساتھ مل کر لڑو لیکن امریکہ اور یورپی ممالک نے کہا کہ بھئی ابھی ہماری وہ نسل زندہ ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں۔ ہم اس جنگ میں نہیں گھس سکتے۔ یوں یوکرین کو اکیلے بانس پر چڑھا دیا گیا اور اس وقت حالت یہ ہے کہ یوکرین کے ہزاروں شہری جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں اپنی جان بچانے کیلئے یورپی اور دوسروں ملکوں میں بھاگ گئے ہیں۔ سینکڑوں کو روسی اٹھا کر لے گئے۔ وہی یوکرین جو کچھ عرصہ پہلے پوری دنیا کو گندم سپلائی کر رہا تھا‘ اس کے اپنے شہری اب یورپی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں خیرات پر گزارہ کررہے تھے۔ یوکرین کے میدانوں سے جو روسی افواج کے ظلم و ستم کی کہانیاں دنیا بھر کے اخبارات میں چھپیں انہوں نے تو دل دہلا دیے۔ کس طرح ہسپتالوں میں بچوں کو چھپایا گیا تاکہ روسی فوجی انہیں اغوا کرکے نہ لے جائیں۔
زیلنسکی کچھ برس پہلے تک ایک کامیڈین تھا۔ اس کا کام لوگوں کو جگتیں کرکے ہنسانا تھا۔ اس دوران جو اُس وقت یوکرینی صدر تھا‘ اس کے خلاف خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اسے روس کی حمایت حاصل ہے‘ مطلب وہ صدر پوتن کا ٹاؤٹ ہے‘ حکومت بکی ہوئی ہے۔ پھر خبریں آئیں کہ حکومت میں شامل لوگ کرپشن کر رہے ہیں‘ خود صدر بھی کرپٹ ہے۔ زیلنسکی نے کامیڈی کے انداز میں اس صورتحال پر جگتیں لگانا شروع کیں اور سابق صدر کے روسی ٹاؤٹ ہونے پر مذاق اڑانے لگا تو اسکی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ کامیڈی کرنیوالے لوگ ذہین ہوتے ہیں‘ لیکن زیلنسکی ذہین ہونے کیساتھ ساتھ خوبصورت شخصیت کا مالک بھی تھا۔ یوں ذہانت پر ہینڈسم ہونے کا تڑکا لگ گیا۔ زیلنسکی چونکہ سٹیج ڈراموں سے اوپر آیا تھا لہٰذا اپنی ذہانت اور اداکاری سے اس نے خوب رنگ جما دیا۔ اس نے ایک ڈرامے میں یوکرین کے صدر کا کردار ادا کیا جو لوگوں کو بھا گیا اور لوگوں نے اسے اپنے صدر کے روپ میں دیکھنا شروع کر دیا۔ یوں زیلنسکی کو بھی شوق چرایا کہ کیوں نہ وہ واقعی صدر بن جائے اور پھر چل سو چل۔ زیلنسکی کے دو بڑے نعرے تھے۔ ایک یہ کہ وہ یوکرین کو روسی اثر و رسوخ سے اصل آزادی دلائے گا‘ دوسرا اس نے خود کو کلین مین کے طور پر پیش کیا جو کرپٹ ایلیٹ اور کرپشن کے خلاف جہاد کر رہا تھا اور کرپٹ ایلیٹ کو اسکے انجام تک پہنچائے گا۔
روسی اثر و رسوخ کے خاتمے‘ اصل آزادی اور کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر وہ 2019ء میں یوکرین کا صدر بن گیا۔ اُس کا ماننا تھا کہ یوکرین کو روس سے اصل آزادی اُس وقت ملے گی جب یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا۔ نیٹو میں شمولیت یوکرین کی پرانی خواہش تھی لیکن روس نے دھمکی دی ہوئی تھی کہ اگر نیٹو میں شامل ہونے کی کوشش کی تو وہ یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ زیلنسکی سے پہلی یوکرینی حکومتیں روس کو بات چیت کے ذریعے اس اقدام سے روکے ہوئے تھیں لیکن زیلنسکی کے صدر بنتے ہی یوکرین کے عوام میں یہ نعرہ مقبول ہو گیا کہ اب زیلنسکی روسی صدر پوتن کو کرارا جواب دے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں نیٹو میں شامل ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ انہوں نے بھی وہی نعرہ لگایا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں۔ کچھ سمجھدار امریکن اور یورپین نے انہیں سمجھایا کہ اس چکر میں نہ پھنس جانا‘ روس کبھی یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں بننے دے گا۔ یورپی ممالک اور امریکہ تمہیں دانہ ڈال رہے ہیں کہ روس نے حملہ کیا تو یہ تمہارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ تم لوگ روس اور امریکہ کی لڑائی میں اسی طرح مارے جائو گے جیسے 44برس قبل افغانی مارے گئے تھے۔ امریکہ اور یورپ ایک دفعہ پھر نیا افغانستان ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ روس کو ایک دفعہ پھر کمزور کر سکیں جو افغانستان میں شکست و ریخت کے بعد پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ یورپین کو نیا افغانستان درکار تھا جبکہ زیلنسکی کو اپنے عوام کے سامنے ثابت کرنا تھا کہ وہ انہیں اصل آزادی دلا رہا ہے اور ان کا انتخاب بالکل درست ہے اور یوں شہباز کو ممولے سے لڑا دیا گیا۔
یورپین اور امریکن یہی چاہتے تھے۔ یوکرین کو کھل کر اسلحہ دیا‘ پیسے دیے‘ جیسے افغانستان میں افغانوں اور پاکستانیوں کو دیے تھے۔ جب روسی فوج نے تباہی پھیرنی شروع کی تو زیلنسکی چلایا کہ اب امریکن اور یورپین اس جنگ میں براہِ راست شریک ہوں تاکہ روس کو روک سکیں۔ یورپین نے کہا کہ ہم جنگ میں شریک تو ہو جائیں لیکن تھرڈ ورلڈ وار شروع ہو جائے گی۔ پوتن ہم پر میزائل مارے گا۔ اس لیے ہم پیسہ اور اسلحہ دے سکتے ہیں‘ جنگ تو یوکرین کے نوجوانوں کو ہی لڑنی پڑے گی۔ ہمیں میدانِ جنگ سے دور رکھو۔ زیلنسکی نے فوراً ایک حکم جاری کیا کہ یوکرین کا کوئی بھی شہری‘ جس کی عمر ساٹھ سال تک ہے‘ وہ یوکرین چھوڑ کر نہیں جا سکتا‘ وہ جنگ لڑے گا۔ یوں گزشتہ اڑھائی برس میں یوکرین میں تباہی اور بربادی کی کئی ہولناک داستانیں لکھی جا چکی ہیں۔ ہینڈسم زیلنسکی نے عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے کیلئے اپنی قوم کو ایک ایسی جنگ میں دھکیلا جو وہ اب مان رہا ہے کہ وہ ہار چکا ہے‘ اور وہ جنگ بندی مانگ رہا ہے۔ اب وہ سب علاقے روس کے حوالے کرنے کو تیار ہے جو اڑھائی برس قبل تک یوکرین کا حصہ تھے۔ پہلے سو پیاز کھائے اور اب سو جوتے کھانے کا تیار ہے۔ اپنے ملک کا آدھا حصہ روس کو دینے کے بعد زیلنسکی کو آرام آگیا ہے۔ یوکرین کے عوام کو بھی روس کو ٹکر دینے کا شوق تھا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں۔ ایک احمق کامیڈین اتنا ہی ڈیلیور کر سکتا تھا کہ وہ چند ماہ کی حکومت اور عوام میں اپنا چوائس درست ثابت کرنے کیلئے جنگ لڑے‘ اور آدھا ملک گنوا دے۔
کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ کسی ملک کے ہینڈسم اور پاپولر حکمران ہی اُس کی تباہی کی بنیادیں رکھتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ اگر یکم دسمبر 2024ء کو ایسی مثال دیکھنی ہے توزیلنسکی جیسے کامیڈین کو دیکھ لیں۔ ہزاروں لوگ مروا کر اور آدھا ملک گنوا کو اب پوتن سے جنگ بندی مانگ رہا ہے۔ ہینڈسم اور پاپولر سیاستدان بربادی لاتے ہیں‘ امن‘ سکون یا ترقی نہیں۔