مکّو ٹھپ اور گھاؤ گھپ

مکّو ٹھپ اور گھائو گھپ دو فرضی کردار ہیں۔ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگرپتہ نہیں کیوں جو باتیں وہ کر رہے ہیں ان میں سیاست کے کئی راز چھپے ہوئے ہیں۔

مکّو ٹھپ: مجھے کوئی ریاست کا کوتوال کہے یا اس کا ایجنٹ، میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ ریاست کے مخالفوں اور سیاست میں ٹیڑھ ڈالنے والوں کا مکّو ٹھپ کر چھوڑنا ہے۔ طاقت کا استعمال کرنا پڑے یا عقل سے مات دینی پڑی۔ ریاست اور سیاست کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں کے خلاف میری جنگ ہے اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

گھائو گھپ:مخالف مجھے لکھ لٹ کہیں، بلانوش کہیں یا کھاوُ اُڑاوُ کا الزام دیں میں اپنے لیڈر سے مخلص اور اس کا وفادار ہوں۔ میرا لیڈر سادہ ہے اسے گمراہ کیا جا رہا ہے ،غلط مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ اس کی بس یہ خواہش ہے کہ عدالت نے اس کی ضمانت لی ہے تو اسے رہا کر دیا جائے اور لوگوں سے بات کرنے کا موقع دیا جائے۔

مکّو ٹھپ:ریاست کو خان سے کوئی مسئلہ نہیں، کوئی اختلاف نہیں بس وہ اتفاق کرلے کہ اس نے ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرنا تو سب راستے کھل سکتے ہیں۔ ریاست میں سیاسی اختلاف کوئی بُری بات نہیں مگر معیشت کو نقصان پہنچانا، اہم بیرونی دوروں کیلئےمشکلات کھڑی کرنا اور خارجہ پالیسی کیلئے پیچیدگیاں پیدا کرنا ناقابل برداشت ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔

گھائو گھپ: آپ کی سب باتیں ٹھیک ہیں۔ خان کو بھڑکانے والے بہت ہیں اسے غلط مشورے دیئے جاتے ہیں، جھوٹی اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں۔ آپ کچھ ریلیف دلوائیں تاکہ میں خان کو قائل کر سکوں۔ پریڈ گرائونڈ میں ہی جلسے جلوس کی اجازت دلوا دیں۔ اب بی بی الٹے سیدھے مشورے دے رہی ہے، پریڈ گرائونڈ میں جلسہ پرامن ہوگا اور ہم جلسے کےبعد لوٹ بھی جائیں گے۔

مکّو ٹھپ:پہلے دھرنے کی کال واپس لیں، 24 نومبر کی کال تو ریاست اور حکومت کے خلاف کھلی دھمکی ہے۔ بیلا روس کے سربراہ پاکستان آ رہے ہیں یہ بڑا اہم دورہ ہے۔ اس موقع پر شہر بند ہوں، احتجاج ہو رہا ہو تو تاثر اچھا نہیں جائے گا۔ کال واپس لیں تو پھر آپ سے بات ہوسکتی ہے۔

گھائو گھپ:میری پوزیشن بڑی نازک ہے میں خود تو کچھ نہیں کرسکتا۔ احتجاج کی کال تو صرف خان ہی واپس لے سکتا ہے، ادھر بی بی نے سعودی عرب والا چن چڑھا دیا ہے دوسری طرف 24 نومبر کے انتظامات ہیں ،میں تو پھنس کر رہ گیا ہوں۔

مکّو ٹھپ:ملک سے بڑا کوئی نہیں ہوتا۔ بی بی نے سعودیہ کے حوالے سے کانٹے بو دیئے ہیں، اپنا تو خانہ خراب کیا ہی ہے ریاست کوبھی دائو پر لگا دیا ہے، اب تو ٹرمپ کارڈ بھی نہیں چلے گا۔ عالم اسلام والے خود ہی ٹرمپ کارڈ سے نمٹ لیں گے، ریاست پاکستان پر اب کوئی بوجھ نہیں پڑ سکتا۔

گھائو گھپ:ہم احسان مند ہیں کہ آپ نے اعتماد سازی کے طور پر ’’بی بی‘‘ کو رہا ہونے دیا اور دوبارہ سے گرفتار نہیں کیا۔ میری پارٹی میں زیادہ تر لوگ عقل سے عاری ہیں، جذباتی ہیں، سیاسی شعور نہیں رکھتے لیکن خان بڑا آدمی ہے عوام اسکے ساتھ ہیں اس کو کچھ ریلیف تو ملنا چاہیے۔ بی بی نے سعودی عرب کے خلاف مذہبی ٹچ دینے کی کوشش کی ’’بریلوی کارڈ‘‘ سے فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔

مکّو ٹھپ:آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی، آپ خود کشی کر رہے ہیں دنیا بھر میں سوائے آپ کے حامی پاکستانیوں کے ہر کوئی آپ سے ناراض ہے۔ کیا خلیج، کیا یورپ اور کیا امریکہ، کون سے ملک سے آپ نے بنا کر رکھی؟؟ اب یہاں مذہبی ٹچ نہیں چلتا۔ پختونخوا میں اہل ِتشیع کا قتل عام ہوا ہے اور صوبائی حکومت جس کے ہاتھ میں امن و امان ہے وہ فرقہ واریت کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاری کر رہی ہے۔

گھائو گھپ:مجبور ہیں کیا کریں؟ ہمیں آپ اسلام آباد آنے دیں ہمارا احتجاج بھی ہو جائےگا اور آپ کی حکومت کوبھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مکّو ٹھپ:کریں احتجاج۔ پہلے بشریٰ بی بی کو رہا کیا گیا جواباً کتنے وعدے پورے ہوئے؟ صاف بات ہے خان چپ کرکے بیٹھ جائے ملک کو چلنے دے، معیشت کو ترقی کرنے دے جب الیکشن آئے گا تب سیاست کرلے۔ بنی گالا میں نظر بندی بھی ممکن ہے مگر یہ احتجاج، دھرنے اور سازشی بیانات بند کرنا ہوں گے۔ اب جب تک اس کی ضمانت نہیں دی جاتی میں کوئی رعایت دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ویسے بھی احتجاجی کال ناکام ہوئی تو خان کی بارگیننگ پوزیشن اور کمزور ہو جائے گی، پارٹی کے اندر اختلافات سر چڑھ کر بولیں گے اور آپ کی پارٹی میں بغاوت بھی ہوسکتی ہے۔

گھائو گھپ:سر میں تو اتنا بااختیار نہیں میرا دل بھی امن و امان کی خرابی پر خون کے آنسو رو رہا ہے، اب 24 نومبر کی تیاری کی جائے یا اس معاملے کا حل نکالا جائے، میرے خیال میں نظر بندی اور خاموشی والا آپش اچھا ہے مگر خان مانے گا نہیں۔ اس کے مشیر پتہ نہیں کون ہیں۔ علیمہ بی بی اور بشریٰ بی بی کی لڑائی چل رہی ہے دونوں خان کو انتہا پسندانہ مشورے دیتی ہیں ہم سب اس بات سے تنگ ہیں مگر ہمارا بس نہیں چلتا۔

مکّو ٹھپ:دیکھیں سیدھی بات ہے 2018ء کے الیکشن بھی کمپیوٹر کے تیار کردہ تھے نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے مان لئے، آپ بھی 2024ء والے مان لیں۔ آپ کی حکومت میں نون والوں پر مقدمے چلے وہ جیلوں میں گئے آپ کو بھی اس عمل سے گزرنا پڑا۔ آپ نے فوج کے ساتھ مل کر نون توڑی، عدالتوں سے فیصلے کروائے سب کچھ مقتدرہ کے کہنے پر کیا آج آپ کے مخالف بھی وہی کر رہے ہیں۔ گویا ابھی حساب بھی برابر نہیں ہوا۔ عقل اور شعور سے کام لے کر سسٹم میں آ جائیں آپ کو بھی نون کی طرح آہستہ آہستہ ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا، آپ تو چاہتے ہیں کہ سارا نظام ہی منہدم ہو جائے اور خان اکیلا گلیوں میں پھرے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نظام خود کشی کرلے؟

گھائو گھپ:سر راستہ نکل سکتا ہے، دھاندلی کمیشن بنا دیں، سپریم کورٹ سے 9مئی کے واقعہ اور ملزموں کے متعلق انکوائری کروا لیں ہمارے بے گناہ رہا کردیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کو فوراً چھوڑ دیں انکے ساتھ کافی ہوگیا ہے ،کچھ اعتماد سازی کریں تو میں بھی کوشش کروں گا۔

مکّو ٹھپ:24نومبر کی کال منسوخ نہیں کی جاتی تو میرے بھی ہاتھ پائوں بندھے ہیں بلیک میلنگ سے کام نہیں چلے گا پہلے آپ احتجاج کرلیں پھر آپ سے بات ہو جائیگی۔ ہم بات کرنے کوتیار ہیں مگر معقول بات کریں ہم خود کو ذبح تو نہیں کرسکتے طاقت اور اختیار ہمارے پاس ہے پھر بھی آپ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں، یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔

گھائو گھپ:میں تو مجبور ہوں میں کوئی معقول بات کروں تو پی ٹی آئی کے سارے یوٹیوبر میرے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیتے ہیں، خان سے میری شکایتیں کرتے ہیں خان اچھا بند ہے، سر!! مگر اس کے مشیر اسے تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

مکّو ٹھپ: آپ اپنا زور لگالیں، احتجاج کے بعد دیکھیں گے کہ آگے کیسے چلنا ہے فی الحال تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

اپنا تبصرہ لکھیں