نونی، پپلیے اور عسکری ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں میں بآواز بلند اعلان کر رہا ہوں کہ میرا ہیرو گنڈا پور ہے، میرے ہیرو نے پورے ملک کو آگے لگایا ہوا ہے۔ بہادری ایسی کہ اپنے لیڈر عمران خان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، نہ رکاوٹیں اسے روک سکیں، نہ آنسو گیس کام آئی، نہ پولیس ناکے اور نہ فوج کا خوف۔ وہ سب کچھ توڑ تاڑ کر اپنے لیڈر کے حکم پر اسلام آباد پہنچ کر ہی رہا۔ اپنے لیڈر کی تابعداری میں اس نے عمران کی بہن علیمہ خان کو بھی پچھاڑ دیا، وہ خاموشی سے شہرت اور بلندی کی طرف گامزن ہے۔ اس نے بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور عمر ایوب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بے چارہ ہونہار بیرسٹر گوہر صلح کل، دانشمند اسد قیصر اور پارہ صفت عمر ایوب میرے ہیرو گنڈا پور کے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ وہ آل اِن ون ہے ۔
مجھے یہاں پر اعتراف کرنے دیں کہ مجھے اپنے ہیرو کا اعلان کرنے میں ایک دن کی دیر ہوگئی، نامور کالم نگار اظہار الحق مجھ سے بازی لے گئے اور گنڈا پور صاحب کو بادشاہی کے مرتبے پر فائز کر دیا، انکی نگاہ دوربین نے وہ کچھ دیکھ لیا جو میرے جیسا کم نگاہ نہ دیکھ سکا لیکن اب غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ملک کے اس نئے ہیرو کو بہت پہلے پہچان لیا جانا چاہئے تھا اب جبکہ چاند نکل آیا ہے تو سب کو اسے صدق دل سے مان لینا چاہئے۔ میرے ہیرو کو خدا نے حسن بھی خوب دیا ہے، اپنے لیڈر کپتان کی طرح سرو قد اور وجیہہ، اسی پر بس نہیں پگڑی پہن کر تو وہ مغل بادشاہوں کے کروفر کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے کپتان کی آواز میں وہ کشش نہیں جو میرے ہیرو کی مردانہ، سیکسی اور بھرائی ہوئی آواز میں ہے، نشیلا لہجہ دل کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ کھلے گلے کی قمیض رستم و سہراب سے زیادہ طاقت اور بھولو پہلوان سے کہیں زیادہ زورآور ہونے کی علامت ہے پھر سب سے بڑھ کر مشرقی مردانہ حسن کی علامت بڑی بڑی مونچھیں جو نہ کپتان کو نصیب ہیں اور نہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی کو۔ خدا نے اسے آسمانوں سے ہی ہیرو بنا کر اتارا ہے لوگ اسکے سحر میں گرفتار کیسے نہ ہوں، اگر میرے ہیرو کا لیڈر کپتان یونانی دیوتا ہے تو میرا ہیرو مشرقی دیوتا ہے۔
میرے ہیرو نے اپنے آپ کو مرشد کپتان کے رنگ میں اس قدر رنگ لیا ہے کہ اب یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون رانجھا ہے اور کون ہیر….
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی
دونوں کی عادات، اطوار، رنگ روپ سب کچھ ملنا شروع ہو گیا ہے مطابقت اس قدر ہے کہ دونوں ایک ہی گلشن کے شیدائی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہیرو کے مقدر میں عروج و زوال ضرور ہوتا ہے اگر زوال نہ آئے تو یونانی ڈرامے کا ہیرو عروج نہیں پاسکتا۔ اسی طرح ہیرو کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ رومانس کے تجربے سے ضرور گزرے۔ کیا مرشد اور کیا مریدِ خاص دونوں رومانس کی وادی سے کشاں کشاں گزرے ایک بار تو دونوں ایک ہی گلاب پر فدا ہوگئے مگر پھر مرید خاص کو مجبور ہو کر مرشد کیلئے قربانی دینا پڑی مگر پھر وہ گلاب نہ مرشد کا رہا اور نہ مرید ِخاص کا، مرشد سے تو اس گلاب کی اتنی بنی کہ انکی خفیہ باتیں بھی گھر گھر سنی گئیں، ایک جھوٹے نے مجھے کہا کہ مرید خاص کو گلاب کے چھینے جانے کا ابھی تک رنج ہے، مرشد سے شدید محبت بھی ہے اور کہیں نہ کہیں محبت کے چھننے پر انتقام کا جذبہ بھی لیکن یہ معمول کی بات ہے انسانی تعلقات میں اونچ نیچ تو آتی رہتی ہے لیکن مرید کے باوفا ہونے پر کوئی شک کرے تو گنڈا پور اسکو غلط ثابت کرکے دکھائے گا۔
میں تضادستانی بنیادی طور پر تماش بین ہوں، مجھے صدیوں سے تماشا پسند ہے کہیں تماشا ہو رہا ہو تو مجھے سب فکرو فاقہ بھول جاتا ہے اور میں تماشے میں کھو جاتا ہوں، بچپن میں میری امی مجھے بازار سبزی لینے بھیجتی تھیں تو میں راستے میں سرگودھا کے سردار خان سانپوں والے کے تماشا میں کھو جاتا تھا گھنٹوں وہاں کھڑا رہتا میری تلاش شروع ہوتی تو تب کہیں میں واپس گھر پہنچتا اور ڈانٹ ڈپٹ کھانا پڑتی۔ یہ تماشا میرے اندر بھی ہے اور ہم سب تضادستانیوں میں بھی ہے، جب بھارتی جہاز حملہ ہم پرآور ہوئے تو ہم چھتوں پر چڑھ کر تماشے سے محظوظ ہونے لگے، یہ تماشا ہماری گھٹی میں ہے، موہنجوداڑو سے ملنے والی ڈانسنگ گرل ’’سمپارہ‘‘ کی موجودگی بتاتی ہے کہ ایک طرف وہاں کا مذہبی پروھت عرف سائیں مذہب کی طرف بلاتا تھا تو دوسری طرف سمپارہ تماشے کیلئے موجود تھی۔ صدیوں سے میں ریچھ کتے کی لڑائی، بٹیروں کی لڑائی، کتوں کی لڑائی اور پہلوانوں کے دنگل یعنی انسانی لڑائیوں کا شوقین رہا ہوں مجھے تماشا چاہئے چاہے یہ کسی شکل میں ہو۔ انگریز حملہ آور خطے میں آئے تو مجھے ہتھیار اٹھا کر ان سے مقابلہ کرنے کی بجائے انکی گوری رنگت دیکھنے میں دلچسپی تھی تضادستانیوں نے گوروں کو پہلی بار دیکھا تو تماشائیوں کی طرح نعرہ لگایا ’’یہ تو ککے ہیں‘‘ صدیاں گزر گئیں ہم آج بھی تماشوں کے شوقین ہیں، میرا ہیرو اسی لئے گنڈا پور ہے کہ وہ بہترین تماشا گر ہے، اسے تماشا دکھانا آتا ہے ہم تضادستانیوں کو بڑھک اور دھمکیاں بھی بہت پسند ہیں، مولاجٹ ہمارا تاریخی ہیرو ہے جو گنڈا پور کی طرح آنکی آن میں کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے اور پھر بنارسی ٹھگ کے ولن کی طرح بڑھکیں لگا کر تماش بینوں کا دل خوش کر دیتا ہے۔
میرا دل آج بہت ہی خوش اور مسرور ہے کہ ہمیں صدیوں سے جس سکندر اعظم اور بابر بادشاہ کا انتظار تھا بالآخر اسکا ظہور ہو چکا، جلد یا بدیر وہ پورے ملک پر چھانے والا ہے۔ سب نوٹ فرمالیں کہ اسکی عظمت کو پہچاننے والوں میں سے میں بھی ایک ہوں اور کل کو جب وہ ہیرو سے بادشاہ بنے گا تو میں اس کے مصاحبین بلکہ مسخروں میں سے ایک ہونگا۔
میں تضادستانی خود نہیں لڑتا دوسروں کو لڑاتا ہوں یا دوسروں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا ہوں، میرا ہیرو گنڈا پور بھی اس حوالے سے میرا آئیڈیل ہے وہ جس خوبصورتی اور چابکدستی سے اپنے جلوس کو موٹر وے پر چھوڑ کر اکیلا ہی اسلام آباد پہنچا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ آسمانی اور روحانی طاقتیں بھی اس کیساتھ ہیں اسی لئے تو وہ چھلاوہ بنکر جب چاہتا ہے چھپ جاتا ہے جب چاہتا ہے ظاہر ہو جاتا ہے جہاں جانا چاہتا ہے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ میرا ہیرو ہرفن مولا ہے ہر جگہ ہر پل موجود ہے اسکا کوئی ثانی تھا نہ ہے نہ ہو گا، کہاں گئے تحریک انصاف کے صف اول، صف دوم اور صف سوم کے لیڈر ،اب اکیلا گنڈا پور ہی چلے گا، گنڈے کا ڈنڈا ہی چلے گا، علی امین ساڈا شیر اے باقی سب ہیر پھیر اے….