میرے لاہور پر بھی اک نظر ہو

بدلتے حالات،آئے روز سامنے آنے والے مسائل، اعتراضات، اختلافات، زمان و مکاں،زبان و بیاں، رنگ ونسل،رسم و رواج کرہ ارض کا حسن ہیں،زمین ایک گلدستہ ہے، جس پر لاکھوں قسم کے رنگ، ترنگ، مہک، تاثیر والے پھل،پھول،مختلف سائز اور رنگ والے درخت پودے اس کی نیرنگی کا سبب ہیں، ایشیاء، امریکہ، یورپ، آسٹریلیا زمین کو خطوں میں تقسیم کرتے ہیں۔چند دن پہلے میں نے کینیڈا کے فال سیزن اور درختوں کے پتوں کے حسین رنگوں کا ذکر کیا تو پیارے دوست مظہر برلاس کا فون آ گیا، وہ ان دِنوں شاداں و فرحاں ہیں،ان کا ٹرمپ جیت گیا ہے انہوں نے امریکی الیکشن والے روز اپنے کالم کی سرخی دی تھی،آج ٹرمپ جیت جائے گا، میرے ساتھ انکی فون پر گفتگو میں ٹرمپ کی بجائے انہوں نے درختوں کی بات کی ”گورایہ صاحب ساڈے خطے تے درخت کوئی گھٹ سوہنے نیں؟پر او مکدے جاندے نیں،اونہاں دا وی ذکر کریا کرو“ مظہر کی بات بالکل درست ہے کچھ عرصہ قبل میں نے ہی ان کے ساتھ اپنے پنجاب اور پاکستان کے درختوں کا ذکر کیا تھا،میں نے انہیں بتایا تھا کہ ہمارے خطے میں ون کا ایک درخت ہوتا تھا جو ہمیں سڑکوں کے ساتھ ساتھ ملتا تھا اس کی چھاؤں بہت گھنی ہوتی تھی اور اس پر میٹھی میٹھی پیلو لگی ہوتی تھیں،اب وہ نظر نہیں آتا۔ہمارے پنجابی کے عظیم شاعر شریف کنجاہی نے اس درخت پر نظم لکھی تھی، جس کا عنوان ”ون دا بوٹا“ہے۔

میں ون دا سنگھنا بوٹا
ٹھنڈیاں میریاں چھاواں
مٹھیاں میریاں پیلوں
وے توں راہیا جاندیا
بھکھن بھانیا ماندیا
آ جا جھٹ کو ساہ لے
میریاں پیلوں کھا لے
میری چھاویں بہہ لے

کینیڈا کے فال سیزن ہی کے حوالے سے سینئر صحافی اور عزیز دوست میاں حبیب صاحب کا لاہور سے میسج آیا کہ آپ نے بہت اچھا نقشہ کھینچا ہے،کینیڈا میں تو خزاں کا بھی حُسن ہے اور لاہور میں نومبر کا خوبصورت مہینہ بھی سموگ کی نذر ہو گیا ہے،اس پر بھی کچھ کہیں۔مجھے لاہور کی اس حالت پر عہد حاضر کے ایک بڑے شاعر شعیب بن عزیز کا دعائیہ شعر یاد آ گیا۔

میرے لاہور پر بھی اک نظر ہو
تیرا مکہ رہے آباد یا رب

اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں،ہر خطے کی اپنی تاریخ ہے اور ہر خطے میں مختلف قسم کی نسل، رنگ، زبان، مذہب، کلچر کے لوگ آباد ہیں۔انسانوں کی یہ تقسیم و تفریق زمین کے باسیوں کے ملٹی کلچرل ہونے کی دلیل ہے،لیکن اگر یہ سارا حسن اور خوبصورتی کسی ایک ملک میں یکجا دیکھنا ہو تو کینیڈا اس حوالے سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ہر رنگ،نسل،مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جن کی اپنی زبان اور ثقافت ہے اور انہیں اپنے مذہب،کلچر اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے، یورپ کی سفید،ایشیاء کی گندمی اور افریقہ کی کالی رنگت کے عوام کی بڑی تعداد اس قدرت کے حسین نظاروں سے لدے پھندے ملک کی خوبصورتی کو مزید نکھارتی ہے،ہر کوئی دوسرے کے حقوق کا احترام کرتا اور اپنے فرائض کی ادائیگی فرض سمجھ کر کرتا ہے۔

یہاں کسی کو چرچ کے گھنٹال کی آواز پر اعتراض ہے نہ کسی مندر کی گھنٹی پر، مسجد میں اذان پر کو ئی معترض ہے نہ یہودی معبد وں پر،کسی کو عید،دیوالی،کرسمس کی تقریبات سے بھی کوئی ایشو نہیں،بلکہ ہر کوئی ایک دوسرے کی خوشی کی تقریبات اور مذہبی تہواروں میں شرکت کر کے د وسروں کی دلجوئی کی کوشش کرتا ہے،ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ جن کی خوشی کا موقع ہے ان کو زیادہ سے زیادہ لطف اٹھانے کا موقع اور سہولت دی جائے،اگرچہ اکثریتی مذہب عیسائیت ہے حکومت میں بھی اس مذہب کے پیروکاروں کا غلبہ ہے، مگر حکومتی سطح پر بھی کسی دیگر مذہب اورکلچر رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ دلجوئی کی جاتی ہے،سہولت فراہم کی جاتی ہے، وزیراعظم تو ہر کلچر کے لوگوں کی خوشی میں بنفس ِ نفیس شرکت کرتے ہیں،موجودہ وزیر اعظم جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو تو ہر مذہب کے عبادت خانوں میں گئے اور کامیابی دلانے پر شکریہ اداکیا،یہ ہے رواداری، وضع داری، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ،اور ایسی ہی سوچ معاشرے کو استحکام دیتی ہے۔ اہم بات یہ کہ یہاں کوئی کسی کے مذہبی نظریات،رسوم و رواج، روایات، رنگ، نسل کا مذاق نہیں اڑاتا،سب اپنے حال میں مست ہیں،سب کی نگاہ دوسروں کے عیوب کی بجائے اپنی کاکردگی پر ہوتی ہے،اس گلدستہ میں یکسانیت صرف کینیڈا ہے،جو اس جنت ارضی کے قواعد و ضوابط اور آئین و قانون کا احترام اور اس پر نیک نیتی سے عمل کرتا ہے ریاست اس کے بنیادی حقوق کی نگہبان ہے،اسی وجہ سے کینیڈا ایک وسیع المشرب ملک ہونے کے باوجود پر امن ہے۔

عام طور پر تارکین وطن کے آبائی ممالک کے سفارت اور قونصل خانے اپنے شہریوں کے حقوق کی نگہبانی کرتے ہیں،پاکستانی سفارتی عملہ بھی اس حوالے سے پیش پیش رہتا ہے، مگر سفارتی عملہ کی مجبوری ہے کہ ہر حکومت وقت کی پالیسی کے مطابق ان کو معاملات آگے بڑھانا ہوتے ہیں اور ہماری موجودہ حکومت کی تارکین وطن کے حوالے سے پالیسی ناقابل فہم ہے،ملکی معیشت اور زر مبادلہ کے ذخائر کا زیادہ ترانحصار اگر چہ اوورسیز پاکستانیوں پر ہے، مگر حکومت ان کو آج بھی ووٹ کا حق دینے کو تیار نہیں، جبکہ ملکی حالات کے حوالے سے اوورسیز پاکستانی اندرون ملک مقیم لوگوں کی نسبت زیادہ پریشان رہتے ہیں،آج جبکہ ملک کے سر پر معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ منڈلا رہا ہے،زر مبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں،بر آمدات نہ ہونے کے برابر ہیں،ملکی صنعت کو چلانےکیلئے درکار خام مال کی ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں،جس بناء پر صنعتی پہیہ بھی رُک رُک کر چل رہا ہے، ایسے میں ملکی معیشت کا انحصار تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر ہے،غیر یقینی سیاسی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے بھی رقوم بھیجنے کیلئےہاتھ تنگ کر لیا ہے،جبکہ اگر حکومتی سطح پر اوورسیز پاکستانیوں کو اعتماد میں لیکر پالیسی وضع کی جائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ ترسیلات بھیجنے کی درخواست کی جائے تو نادہندگی کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوسکتا ہے۔

کینیڈا میں تارکین وطن کو ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر خوش آمدید کہا جاتا ہے،یہاں پر نہ صرف زیادہ سے زیادہ مڈل کلاس افراد کو قبول کیا جاتا ہے بلکہ یہاں بے گھر پناہ گزین کو بھی سب سے زیادہ جگہ دی جاتی ہے،سال 2021ء میں 20 ہزار 428 پناہ گزین کو اپنایا گیا، 2021ء میں کینیڈا نے 59 ہزار بے گھر پناہ گزین کو اپنانے کا ہدف دیا تھا،جس پر صرف ایک تہائی عملدرآمد ہو سکا، کینیڈا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2023ء تک 76 ہزار بے گھر پناہ گزین کو اپنا لے گا،اس تناظر میں پاکستان حکومت کو زیادہ سے زیادہ تکنیکی تعلیم والے نوجوانوں کو کینیڈا کے ویزے حاصل کرنے کیلئے سہولیات دینا ہوں گی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد امیگریشن حاصل کر سکیں اور ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں