بابائے قوم کے بعد سے اس قوم کا باوا آدم ہی نرالا ہو گیا۔ باقی دنیا کے تمام براعظموں میں آئینی نظام کو تسلسل حاصل ہے‘ ایک ہم ہیں جو ریاستی نظام میں مسلسل ایڈونچر ازم پہ مائل ہو گئے۔ کوئی پالیسی‘ کوئی ادارہ‘ کوئی لیول آف گورننس ایسا نہیں جہاں تسلسل نامی چڑیا چہچہا سکے۔ صرف عدلیہ کو لے لیں تو اس میدان میں کروڑوں عوام کے ریلیف کے لیے 1973ء کے آئین میں 26 ترامیم میں سے کوئی ایک بھی ایسی ترمیم نہیں آئی بلکہ ہر ترمیم میں نظریۂ ضرورت‘ مزید ضرورت‘ میری ضرورت اور ضرورت بلا ضرورت کا سوپ سیریل چلتا چلا آ رہا ہے۔ اس ترمیمی سوپ سیریل میں نو عدد آئینی ترامیم صرف عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے لائی گئیں۔ 25پچھلی ترامیم میں کبھی لیگل فریم ورک آرڈر‘ کبھی پریزیڈنشل آرڈرز اور کبھی Hand Picked غیر نمائندہ ایوانوں کو آئین میں کھلواڑ کرنے کے لیے ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ مگر اب کی بار پونم میں اتنا اندھیرا چھایا کہ نظام اندھیرے میں بھی ننگا نظر آیا۔ 26ویں آئینی ترمیم صحیح معنوں میں ٹیلر میڈ؍ ٹارگٹڈ؍ پرسن سپیسفک سے بھی ذرا آگے والی ہے۔ شاید اسی لیے اس کا ہر ایکٹ وکلا برادری میں انتہائی متنازع ہو گیا۔ عدلیہ پریس کانفرنس نہیں کر سکتی۔ نہ ہی کسی قاضی کو Mel Gibson کی ہالی وُڈ فلم What women want والی سہولت حاصل ہے جس میں اداکار سامنے والے کی سوچ پڑھ سکتا تھا کہ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوا ہے یا اس نے دل ہی دل میں گالی دی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ لوگ جن کے بولنے پر پابندی ہے‘ اس وقت ان کی چیخیں اور قہقہے سب سے اونچے سنائی دے رہے ہوتے۔
26ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اندر ایک نئی عدالت بنا کر دونوں سپریم کورٹ یعنی آئینی سپریم کورٹ اور غیر آئینی سپریم کورٹ کی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اس ابہام کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مقدمات جیسے ٹیکس کی اپیلیں‘ ملازمت میں دیے گئے شوکاز نوٹس‘ سرکاری نوکری سے برخاست کرتے وقت مناسب انکوائری کا نہ ہونا اور ہر طرح کے وہ کیسز جن کے اندر کسی لیول کا آئینی سوال طے کرنا ہے‘ وہ سارے مقدمات اب نئے آئینی بینچ کے پاس جائیں گے۔ جس کے لیے اس غریب قوم کے خرچے پر نئے سٹاف بھرتی ہوں گے‘ نئے جج لگیں گے کیونکہ جج تو ہر صوبے سے آنے ہیں۔ اس لیے وہ نہ نہ کرتے ہوئے بھی آٹھ یا دس تو ہو ہی جائیں گے۔ چونکہ آئین کے آرٹیکل نمبر ایک میں چار صوبوں کے ساتھ وفاقی دارالحکومت ایک علیحدہ سے اکائی ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کو ہم نے عبوری صوبہ قرار دے کر وہاں اسمبلی بنا دی اور صوبائی حکومت کا ڈھانچہ کھڑا کر دیا۔ ظاہر ہے انہیں بھی عبوری صوبے کے طور پر وفاقی آئینی عدالت میں لازماً نمائندگی دینی ہو گی۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی اداروں میں نمائندگی دینے کے حق میں دو فیصلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے بینچز نے کر رکھے ہیں۔ اب آئیے ان آئینی بینچوں کی تشکیل کی طرف‘ جو پانچ صوبائی ہائیکورٹس میں بنیں گے اور ایک بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان میں معرضِ وجود میں لایا جائے گا۔ اتنی بڑی آئینی عدالتی ریفارم کے نام پر ادھیڑ بُن پچھلے 77 سال میں پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تقاضے پورے کرنے کے لیے غریب قوم کے پیسے سے آئینی پریکٹس کرنے والے اور آئین کی Interpretationکرنے کا ریکارڈ رکھنے والے وکلا ان عدالتوں کے لیے لاء آفیسرز بھرتی کیے جائیں گے۔ اب جس فیکٹری میں 26ویں آئینی ترمیم کی کھچڑی پکی ہے اس کا کمال دیکھیے کہ پانچ ہائیکورٹس میں آئینی بینچ اور سربراہ جبکہ سپریم کورٹ میں آئینی ججز کا انتخاب سیاسی جماعتوں کے ”کوٹہ سسٹم‘‘ سے منتخب ہونے والے کمیشن کی سفارشات کے ماتحت ہو گا۔ اس سارے پراسیس کے بگ باس کا نام ہے قبلہ شہباز شریف۔
اسی تناظر میں نئے چیف جسٹس سے عام آدمی‘ وکلا برادری‘ بار ایسوسی ایشنز اور سائلوں کو پہلی توقع یہ ہو گی کہ ارجنٹ کیس فکس کرنے میں جو غیرقانونی تاخیر ہوئی ہے‘ اس کا فوری طور پہ ازالہ کیا جائے۔ میرے اپنے لاء آفس کے ایسے کیسز ہیں جن میں کئی بار ارجنٹ ہیرنگ کی سی ایم اے سپریم کورٹ میں فائل ہو چکی ہیں۔ وکلا کا خیال تھا کہ شاید سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مجریہ 2024ء کو جس گرم جوشی سے سپریم کورٹ نے اونر شپ دی اس کے بعد جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند لوگوں کے لیے شاید تازہ ہوا کا کوئی جھونکا میسر آجائے۔ اس کی وجہ اس آرڈیننس کا سیکشن نمبر سات ہے‘ جس کے الفاظ یہ ہیں:
Section(7): Application for fixation of urgent matters- An application pleading urgency or seeking interim relief, filed in a cause, appeal or matter shall be fixed for hearing within 14 days from the date of its filling.
پچھلے سوا سال کے تجربات کی روشنی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے سینئر وکلا اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں مناسب طریقے سے اور Temporate Language میں کیس پیش کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ جو رویہ اور سلوک کھلے عام عوام نے وکلا کے ساتھ سپریم کورٹ کی براہِ راست نشریات کے ذریعے دیکھا‘ اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے وقار اور پبلک ٹرسٹ کو شدید دھچکا لگا۔ ابھی دو دن پہلے میں نے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب کے فُل بینچ میں کراچی کے ایک مقدمے میں ابتدائی دلائل دیے۔ پشاور ہائیکورٹ میں بھی جب وہ جج اور پھر چیف جسٹس تھے‘ میں ان کے بینچ کے سامنے مقدمات میں پیش ہوتا رہا۔ اس لیے ان سے سب سے بڑی توقع اور انہیں درپیش سب سے بڑا چیلنج یوں ہے کہ وہ بار اور بینچ کے درمیان اس عدم تعاون اور عدم احترام کا ثر زائل کریں گے۔ اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ایلیٹ مافیا کی طرف سے سیاسی خواہشات میں کھینچا تانی کا اکھاڑا بنائی جاتی رہی ہے۔
اُمید ہے نئے چیف جسٹس صاحب کے دور میں وکلا اور سائل کا اعتماد عدل اور عدالت پر بحال ہو گا۔ ویسے بھی کوئی سرکاری عہدہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ شاعر نے اس لافانی حقیقت کو ان لفظوں کا روپ دیا۔
تلاش کرتے ہوئے گمشدہ خزانوں کو
بہت سے مصر کے فرعون مقبروں میں ملے
زبانِ سنگ میں جو ہم کلام ہوتے ہیں
کچھ ایسے لوگ پرانے مجسموں میں ملے
بلند بام کلیسا میں تھے وہی فن کار
جو خستہ حال مساجد کے گنبدوں میں ملے
مری تھکی ہوئی خوابیدگی سے نالاں تھے
وہ رت جگے جو مسائل کی کروٹوں میں ملے