سموگ کا روگ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، گھروں سے باہر نکلنے کا تو خیر تصور ہی نہیں رہا گھروں کے اندر رہنا بھی محال ہے، لاہور کو دْنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہر ہونے کا ’’اعزاز‘‘ ملا ہے، پہلے کچھ لوگ کہتے تھے ‘‘جنھے لاہور نئیں تکیا جمیا ای نئیں‘‘، اب کہتے ہیں ’’جنھے لاہور نئیں تکیا مریا ای نئیں‘‘ ہمارے’’آلودہ حکمران‘‘ اپنی آلودگیوں پر قابو پانے کا جذبہ نہیں رکھتے شہر یا مْلک کی آلودگیوں پر کیا قابو پانا ہے ؟ یہ بھی اْن کی ’’آلودگی‘‘ ہی ہے لوگ سموگ کے روگ میں مبتلا ہیں اور وہ اس روگ سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے بیرونی دوروں پر ہیں، کوئی یہ کہتا ہے وہ اپنے علاج کیلئےباہر ہیں، کوئی کہتا ہے اپنا اقتدار بچانے کیلئے باہر ہیں، مجھے حیرت اس بات پر ہے وہ پاکستان سے باہر ہیں اس کے باوجود سموگ کا یہ عذاب یا آلودگی کم کیوں نہیں ہورہی ؟ یہ غلیظ سیاسی حکمران اور ان کے مالکان اگر مستقل طور پر باہر شفٹ ہوجائیں خدا کی قسم بیشمار عذابوں سے پاکستان کو نجات مل جائے گی، سیاسی حکمران بیرون ملک ہیں اور جو بیشمار کرپٹ، نااہل کام چور اور سہل پسند افسران فیلڈ میں اْنہوں نے یا اْن کے مالکان نے لگائے ہوئے ہیں وہ اپنی الگ موج مستیوں میں ہیں، ہمارے حکمرانی کیلئے جس طرح کرپشن، نااہلی، مراعات اور پروٹوکول وغیرہ ضروری ہیں اْسی طرح یہ بھی ضروری ہے حکمرانوں کے گلے میں خراش محسوس ہو، اْنہیں کھنگ لگ جائے، اْن کا ناک بہنے لگے، اْنہیں اپنے کان میں بار بار تیلی مارنے کی ضرورت محسوس ہو، اْن کی کمر یا دیگر اعضاء پر کھجلی ہونے لگے، وہ اپنے ان’’موزی امراض‘‘ کے علاج کے لئے فوراً امریکہ برطانیہ اور یورپ چلے جائیں، عمران خان کی بیشمار خرابیوں پر ہم تنقید کرتے ہیں مگر وہ کبھی اپنے علاج کیلئےبیرون ملک نہیں گیا، اْس کا جینا مرنا پاکستان میں ہے، ممکن ہے اب بھی اصل حکمرانوں کو اْس کے ساتھ ’’معاملات‘‘ طے کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ محسوس ہو رہی ہو کہ وہ علاج یا اس نوعیت کے کسی اور بہانے سے باہر جانے کیلئے آمادہ نہ ہورہا ہو، جہاں تک سموگ کا تعلق ہے یہ پورے پنجاب بلکہ اسلام آباد میں بھی پھیل چکی ہے، جب کسی معاشرے میں ظلم اور ناانصافیاں بڑھ جائیں وہاں انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں اب جو سموگ کی صورت میں بھی آیا ہوا ہے، مصنوعی بارشوں کا جو نظام لانے کے دعوے کئے گئے تھے وہ کہیں دکھائی نہیں دیتے، مصنوعی بارشیں یہ برسا بھی لیں سموگ کا عذاب ختم نہیں ہوگا، ختم ہو بھی گیا کوئی اور عذاب ہم پر ٹوٹ پڑے گا، جب تک ظلم کے خلاف ایک توانا آوازہم نہیں بنتے نت نئے عذاب ہم پر آتے رہیں گے، ابھی کل میں طفیل روڈ لاہور کینٹ میں ایک دوست کے والد کے جنازے میں شرکت کیلئے گیا ایک ناکے پر چیکنگ کیلئے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں، چیکنگ کرنے والے شخص سے میں نے کہا ’’آپ کے پاس اتنی طاقت ہے اتنے اختیارات ہیں، ایک اہتمام یہ بھی کر لیں ان علاقوں میں سموگ داخل ہی نہ ہوسکے‘‘، وہ میری بات کا شاید غصہ کر گیا تھا، اْس نے میری گاڑی سائیڈ پر لگوا کر اچھی طرح چیک کی کہ کہیں میں ڈگی میں سموگ بھر کے تو نہیں لیجا رہا ؟ سموگ کی ایک وجہ یہ بھی ہے پاکستان کو’’پلاٹستان‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان ایک بہت بڑا پلاٹ ہے، اس میں جتنے درخت تھے سب کاٹے جا رہے ہیں، وہ درخت جن پر پھل لگتے تھے، جن پر اتنے پتے نہیں ہوتے تھے جتنے گھونسلے ہوتے تھے، جن پر خوبصورت پرندے چہچہایا اور قیام کیا کرتے تھے، جہاں دریاؤں کے پانی چشموں سے زیادہ صاف ہوتے تھے، جہاں رنگ برنگی تتلیوں اور جگنوؤں کا بسیرا ہوتا تھا، جہاں لوگوں کے جان و مال اور عزتیں اتنی غیر محفوظ نہیں ہوتی تھیں جتنی اب ہیں، جہاں عدالتوں میں وکیل کے بجائے جج کرنے کا رحجان اسقدر نہیں تھا جتنا اب ہے، جہاں رشتوں کا تقدس ہوتا تھا، بڑے چھوٹے کا ادب ہوتا تھا، دوسروں کی پگڑیاں اْچھالنے کا رواج نہیں تھا، اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی روایت ابھی زندہ تھی، تب سموگ کا نام ہی کسی نے نہیں سْنا تھا، یہ ساری نعمتیں کوئی واپس لے آئے سموگ یہاں سے ایسے بھاگ جائے گی جیسے اقتدار ختم ہونے کے فوراً بعد ہمارے سیاسی حکمران اور اْن کے مالکان باہر بھاگ جاتے ہیں، اب کچھ ماتم میں اپنی گندگیوں اور غیر ذمہ داریوں کا بھی کرلوں، جتنے گندے ہمارے حکمران ہیں اْس سے زیادہ گندے ہم خود ہیں، ہم جگہ جگہ تھوکتے ہیں، جگہ جگہ پیشاب کرتے ہیں، اپنے گھروں اور گاڑیوں کے کوڑا جات جب تک سڑکوں گلیوں محلوں میں شاپر بھر بھر کر نہیں پھینکتے ہمیں اپنے پاکستانی ہونے کا یقین ہی نہیں آتا، ہم اتنے ’’گندگی پسند‘‘ ہیں دْنیا کو اگر گندگی سے کراہت آتی ہے ہمیں صفائی سے آتی ہے، ہماری ’’گندی ذہنیت‘‘ کی ایک علامت یہ بھی ہے ہم اپنے درخت کاٹ رہے ہیں، اپنے جنگل بیچ رہے ہیں، خوبصورت پھل دار درخت کاٹ کاٹ کے ہمارے اداروں نے اپنی سوسائیٹاں اور کالونیاں بنا لی ہیں، ہماری ہر دیوار گندی ہے، ’’مردانہ کمزوری کے شرطیہ علاج‘‘ کے اشتہاروں کے لئے دیواریں ہماری پسندیدہ جگہ ہیں، ہمیں اپنے دریاؤں اور سمندروں کے خالی ہونے کی کوئی فکر نہیں کیونکہ ہم اپنے سارے سمندر اور دریا اپنی ’’تھوکوں‘‘ سے بھر سکتے۔۔ کینیڈا ایک مہنگا ملک ہے مگر اس کی شہری خدمات انتہائی اعلیٰ معیار کی ہیں، ایک بار کراچی سے ایک بوڑھا شخص چھٹیاں منانے اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا آیا، بیٹا اْسے گھمانے باہر لے گیا، بوڑھے باپ نے اچانک کار کا شیشہ نیچے کر کے اپنا سر باہر نکالا اور خون کی قے کرنے لگا، قریب سے گزرتی ہوئی ایک گاڑی میں سوار فیملی نے یہ منظر دیکھ کر فوری طور پر مدد کیلئے ایمرجنسی سروس کو کال کر دی، چند سیکنڈ بعد ایک ’’ہیلی کاپٹر ایمبولینس‘‘ نمودار ہوا، ایک کلومیٹر آگے جا کر اْترا، اْس گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا، گاڑی کے رْکتے ہی کوئی بات کئے بغیر بڑی پْھرتی سے تربیت یافتہ طبی عملہ بوڑھے کو ہیلی کاپٹر میں ڈال کر لے گیا، ہیلی کاپٹر میں ایک آئی سی یو تھا، فوراً آکسیجن کی سپلائی شروع ہو گئی، دل کی شرح اور دیگر پیرامیٹرز کی نگرانی ہونے لگی، ایک ماہر ڈاکٹر ہدایات فراہم کرنے کیلئےٹورنٹو سے ویڈیو کال پر تھا، صرف آدھے گھنٹے میں بوڑھے کو فٹ قرار دے کر فارغ کر دیا گیا، اْس بوڑھے کے بیٹے سے ان خدمات کے دس ہزار ڈالرز وصول کیے گئے، بل دینے کے فوراً بعد بیٹے نے انتہائی غصے سے اپنے بوڑھے باپ سے کہا
’’ابا جی آپ کو یہاں گاڑی میں پان کھا کے باہر تھوکنے کی کیا ضرورت تھی ؟‘‘