قیدیوں کی وین پر حملے کا ڈرامہ اس قدر ناقص حکمت عملی کا نتیجہ نکلا کہ آج 86ملزمان کوانسداد دہشت گردی کی عدالت نے ضمانتیں بھی دے دیں، بادی النظر میں فیصلہ کرنے والی قوتوں کو ”سکرپٹ“ معیار کے مطابق لکھنے اور ترتیب دینے کی ضرورت ہے!
کہتے ہیں نشوں میں سب سے مست اور بد مست نشہ اقتدار کا ہے۔ جب تک یہ نشہ حاصل نہ ہو، بندہ مست رہتا ہے اور جب حاصل ہو جائے تو بد مست ہو جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ کہ وہ اپنے حریفوں کو دبانے کے لیے اکثر و بیشتر ایسے ایسے جھوٹے مقدمات قائم کرتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے، جیسے حال ہی آپ کی نظر سے ایک خبر گزری ہوگی کہ اسلام آباد (سنگجانی)کے قریب قیدیوں کو لے جانے والی وین پر 35سے 40افراد نے ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کیااور 82قیدیوں کو چھڑوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم پولیس کے مطابق تمام قیدی دوبارہ گرفتار کر لیے گئے مگر اُن پر انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مزید مقدمات قائم کردیے گئے۔ ان ملزمان کو عدالت میں پیشی کے بعد اٹک جیل منتقل کیا جا رہا تھا پولیس کے مطابق صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب قیدی بھی وین سے نکل کر حملہ آوروں کے ساتھ شامل ہو گئے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔اب بندہ پوچھے کہ اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کی منتقلی کے لیے کیا ڈنڈا بردار فورس ہی کافی ہے؟ میرا ان حملہ آوروں سے ایک سوال ہے کہ کیا انہوں نے ہالی ووڈ، بالی ووڈ یا لالی ووڈ کی فلمیں نہیں دیکھ رکھی تھیں، جن میں ہر تیسری فلم میں قیدیوں کی وین پر جدید انداز میں قیدیوں کو چھڑوایا جاتا ہے۔ ان فلموں میں حملہ آور تربیت یافتہ، جدید ہتھیاروں سے لیس اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں اور 99فیصد کیسز میں ملزمان کو چھڑوا لیتے ہیں۔ لیکن کسی فلم حتیٰ کہ ہم نے تامل فلموں میں بھی ڈنڈا بردار فورسز کے ذریعے قیدیوں کو چھڑواتے نہیں دیکھا۔ اور پھر جن سیاسی قیدیوں کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ان کی رہائی آج نہیں تک کل ہو کر رہنی ہے، وہ سیاستدان بھاگنے کی کوشش کیوں کریں گے؟ بھاگنے کی کوشش تو وہ کرتاہے جس پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہوں، یا اُسے علم ہو کہ اگلے کئی سال تو وہ جیل سے باہر ہی نہیں آسکتا۔ یعنی جسے سزائے موت ہوئی ہے، یا عمر قید ہوئی ہو، وہ قیدی جیلوں سے بھاگنے کے سنگین جرائم کرتے ہیں، عام قیدی تو بھاگتا ہی نہیں ہے۔ اور پھر جو لوگ سیاسی قیدیوں کی وین کو بچانے کے لیے آتے ہیں تو کیا وہ ڈنڈے لے کر آتے ہیں؟ کیا وہ قیدیوں کی وین کو پتھر مارتے ہیں، حکومت صرف اور صرف ان سیاسی قیدیوں پر مزید مقدمات قائم کرنا چاہتی تھی، جیسے حالیہ کیس میں 82قیدیوں پر خامخواہ دہشت گردی کی دفعات شامل کر دی گئیں۔
اب آپ کے ذہن میں یہ بات آرہی ہو گی، کہ بقول علی امین گنڈا پور کے کہ یہ پوری فلم کے پروڈیوسر ”ایس ایچ او“ صاحب تھے، جنہوں نے اپنے ہاتھ سے پریزن وین کے شیشے توڑے، اور قیدیوں کو باہر نکالا اور پھر گرفتار کیاتاکہ اُن پر نئے مقدمات قائم کیے جاسکیں۔ اس پورے سکرپٹ میں ایس ایچ او کسی بھی انداز میں پروفیشنل پروڈیوسر نہیں لگے، کیوں کہ سکرپٹ میں حملہ آوروں کے بجائے یا پولیس کی غفلت کے بجائے اُلٹا قیدیوں پر ہی مقدمات درج کر دیے گئے۔ حالانکہ یہ ایک آسان طریقہ ہے کہ اگر آپ کا دشمن کسی پریزن وین پر جا رہا ہو، تو آپ اُس وین پر حملہ کروا دیں، تو آپ کے مخالف پر مفت میں دہشت گردی کا پرچہ کٹ سکتا ہے! وائے ری قسمت …. کیا کیا دیکھنے کو مل رہا ہے!
مطلب! ہر حکومت ایسا کیوں کرتی ہے؟آپ اس سے پہلے کے مقدمات بھی دیکھ لیں جو سیاستدان ایک دوسرے پر دائر کرتے رہے ، مثلاََپاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الہیٰ کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھینس چوری کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا۔ یہ نامعلوم بلکہ گمنام بھینس پاکستان کی تاریخ کی سب سے مشہور بھینس بن گئی بلکہ اس کی مبینہ چوری کا مقدمہ بھی سیاسی گرفتاریوں کی علامت بن گیا اور آج بھی اگر کسی رہنما کو کسی مشکوک مقدمے میں گرفتار کیا جاتا ہے تو اس بھینس کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ پھر 90 کی دہائی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے خلاف کلاشنکوف لہرانے پر درج ہوا تھا۔ شیخ رشید کئی ٹی وی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ کھلونا کلاشنکوف تھی لیکن 10 فروری 1995کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کلاشنکوف برآمد ہونے پر شیخ رشید احمد کو سات سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔پھر سیاسی مخالفت کی بنیاد پر مختلف ادوار میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر اور سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے اویس لغاری پر پانی چوری کے مقدمات بنائے گئے اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔پھر غلام مصطفی کھر کا نام ایک اور انوکھے کیس میں بھی آتا ہے اور وہ یوں کہ 2016 میں ان کی اہلیہ نیلوفر کھر کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ ان کے پاس دو شناختی کارڈ کیوں ہیں۔
پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے راہیں الگ کیں تو 1968 میں ان پر ایک کیس بنایا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے سرکاری ٹریکٹر اپنی ذاتی زمینوں پر استعمال کر کے قومی خزانے کو دو لاکھ 13 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا۔ یہ مقدمہ ’ٹریکٹر کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔پھر بھٹو کا مصطفی کھر کے جلسے میں سانپ چھوڑنے کا واقعہ کسے یاد نہیں، ، یعنی غلام مصطفیٰ کھر کی تقریر سے قبل مگر جلسہ گاہ میں سانپ ”نمودار“ہوگئے۔ان کی موجودگی نے مجمع میں سراسیمگی پھیلادی۔دیں اثناءایک مردہ سانپ سٹیج پر موجود غلا م مصطفیٰ کھر کو پہنچادیا گیا۔موصوف اسے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے مائیک کی جانب لپکے۔سانپ کو غصے سے مزید دبوچتے ہوئے انہوںنے بڑھک لگائی کہ وہ بھٹو کو بھی اسی طرح ”کچل دیں گے“۔ مجمع میں بھگدڑ مگر مچ چکی تھی۔ اسی طرح غلام مصطفی کھر پر کپاس چوری کا مقدمہ کچھ یوں درج کیا گیا کہ موصوف 35من کپاس سر پر اٹھا کر چر±ا لے گئے۔ ضیا الحق کے دور میں نظامِ مصطفی کے نام پر اقتدار کو طول اور استحکام دینے کیلئے جھانسوں کے علاوہ آواز اٹھانے والوں کو کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی ضیا الحق کی ضد اور خوف کا شاخسانہ تھا۔ اس کے علاوہ سیاستدان اور نامور کالم نگار عرفان صدیقی کو گذشتہ سالوں میں اپنے بیٹے کے مکان کا کرایہ نامہ تھانے میں جمع نہ کرانے پر کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ جبکہ عمران خان دور میں بھی رانا ثنا ءاللہ پر بھی اسی قسم کا منشیات کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس موقع پر اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر ریاض سومرو نے کہا کہ ان کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئی ہے۔گرفتاری کے دوران رانا ثنا اللہ کی مونچھیں اور بھنویں بھی منڈوا دی گئی تھیں، اُس وقت اے این ایف لاہور ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ ایک حاضر سروس بریگیڈیئر تھے۔
الغرض حکومت ایسے ہتھکنڈے کیوں استعمال کرتی ہے، جس سے جگ ہنسائی ہو، پھر ایسے حال ہی میں ایک جلسے میں شعیب شاہین پر مقدمہ قائم ہوا، جس میں اُن پر پستول رکھنے کا مقدمہ قائم ہوا، حالانکہ اُن سے برآمد ایک ڈنڈا ہوا تھا، جس پر جج صاحب خود بھی ہنس پڑے۔ اور ضمانت دے دی۔ الغرض ایسی حرکات کرنے والوں کی ”منصوبہ بندی “ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ جن سے صحیح منصوبہ بندی بھی نہیں ہورہی۔ اور میرے خیال میں سیاستدان تو صرف مہرے ہوتے ہیں، جو قطعاََ اس قسم کے کیسز کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں بطور مہرا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اس وقت اگر عمران خان جیل میں ہے، تو کیا یہ حکومت کا کمال ہے، نہیں! آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ رانا ثناءاللہ پر منشیات کا کیس عمران خان حکومت نے بنایا تھا تو آپ تب بھی غلط سوچ رہے تھے، اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ سیاستدانوں نے بنایا تھا تو تب بھی آپ غلط سوچ رہے تھے۔ درحقیقت یہ تو محض مہرے ہوتے ہیں۔ حقیقت ان سے بہت دور کہیں سانسیں لے رہی ہوتی ہے۔ ان کی توجرا¿ت ہی نہیں ہوتی کہ وہ عمران خان یا نواز شریف کو جیل میں ڈال دیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کیس بناتے وقت اگلے بندے کا معیار بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ایسے مقدمات قائم کرنے کے بارے میں عوام کیا سوچے گی؟ آدھے سے زیادہ محکموں میں تو اس وقت سویلین کام ہی نہیں کررہے، بلکہ یہی تعداد عمران خان کے دور میں بھی پائی جاتی تھی۔ اُس وقت کیا اینٹی نارکوٹکس دیپارٹمنٹ عمران خان کے انڈر تھا، یا نیب تحریک انصاف کے انڈر تھی؟
خیر بات ہو رہی ہے مضحکہ خیز مقدمات کی تو ایک اور مقدمے کی روداد سن لیں کہ گزشتہ سال سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے ڈرائیور اور گن مین کو گرفتار کر کے” شراب کی بوتلیں“ برآمد کی گئیںاور زیر حراست ملزمان سے چوہدری پرویز الٰہی کے فرنٹ مین کے بارے” انکشافات“ بھی کروائے گئے ۔
بہرکیف حکومتوں کا بھی عجیب مائنڈ سیٹ ہوتا ہے‘ نہ کچھ شایانِ شان دیکھتی ہیں‘ نہ کوئی تال میل دیکھتی ہیں اور نہ ہی کچھ قابلِ فہم دیکھتی ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ ایسی بھونڈی حرکات کو عوام سنجیدہ لینے کی بجائے ان پر ہنستے ہیں۔ عوام کو ہنسنے ہنسانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو یہ اور بات ہے۔ ویسے بھی اس مایوسی اور ناا±میدی کے دور میں حکومت اگر عوام کو ہنسنے کا موقع فراہم کر رہی ہے تو عوام کو اس موقع سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے ضرور ہنس لینا چاہیے۔ حکومت نے ان کی زندگی میں ہنسنے ہنسانے کے سبھی مواقع تو ویسے ہی ختم کر ڈالے ہیں۔ ایسے حکومتی اقدامات عوام کے لیے یقینا کسی نعمت اور غنیمت سے کم نہیں۔ اس لیے جہاں موقع ملے ہنس لیا کریں! شاید یہی زندگی ہے!