عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھا پر جو بدترین تشدد ہوا اْس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، ہمارا کام اب صرف مذمتیں کرنا ہی رہ گیا ہے جس کا کوئی اثر ظالموں پر نہیں ہو رہا ، بے حسی و بے بسی کے ایک بدترین مقام پر ہم کھڑے ہیں ، احسان دانش کا ایک شعر ہے
کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
انسانوں خصوصاً باضمیر انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر کْچلنے والے قبر کے عذاب پر یقین رکھتے ہیں نہ روز حشر پر رکھتے ہیں ، مگر یہ طے ہے اْن جیسے دوسرے بیشمار ظالم اپنے بدترین انجام سے اگر نہیں بچ سکے بچ یہ بھی نہیں سکیں گے ، نہ اْن کے وہ صحافتی بندر بچیں گے جو اْن کی ڈگڈگی پر ناچنے کے عمل پر ذرا شرمساری محسوس نہیں کرتے ، یہ سب بے شرمی اور بے حسی کے جس مقام پر ہیں وہ اب لفافوں سے آگے کا مقام ہے ، باقیوں کو تو چھوڑیں فقط اک ملنگ ظل شاہ کے قتل کا حساب ان سے نہیں دیا جانا ،
ہم نہ بھولیں گے منحوس چہرے
وقت آئے گا تمہاری شناخت ہوگی
انتظار حسین پنجوتھا کی جو حالت ہم نے دیکھی خدا کی قسم دل خون کے آنسو اس بات پر بھی رو رہا ہے سوائے دو چار ٹوٹے پھوٹے لفظ لکھنے کے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے جو بھی بْرائی کو دیکھے تو وہ اْسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے روکے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ ،ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں ایمان کے کمزور ترین درجے پر بھی پورے نہیں اْتر رہے ، انتظار حسین پنجوتھا کی رہائی پر جو ڈرامہ بذریعہ’’ غلام پولیس‘‘ رچایا گیا کسی نے اْس پر یقین نہیں کیا ، مگر ظالموں کو اس سے فرق کیا پڑتا ہے ؟ پولیس اس موقع پر تفتیش نہیں تفتیش کا ڈرامہ کر رہی تھی ، یہ فلاپ ڈرامہ تھا جس سے پولیس کے لئے لوگوں کی نفرت میں مزید اضافہ ہوا ہے ، مگر اس سے پولیس کو بھی فرق کیا پڑتا ہے ؟ جتنا حرام پولیس کے پاپی پیٹوں میں اْترتا ہے اْس کے اثر سے وہ خدا کے احکامات پر عمل کرنے کے شعور سے ہی بے نیاز ہو چکی ہے ، وہ صرف اْن’’زمینی خداؤں‘‘کے احکامات پر عمل کرنے پر یقین رکھتی ہے جو اْنہیں حرام کھانے سے اب صرف اس لئے نہیں روکتے کہ اسی بدکار پولیس سے اْنہوں نے اپنے ناجائز احکامات پر عمل کروانا ہوتا ہے ، اگلے روز ایک اعلیٰ پولیس افسر سے میں نے ایک کرپٹ ترین ایس پی کی شکایت کی وہ مجھ سے کہنے لگے ’’وہ ایس پی تو بڑا محنتی افسر ہے ابھی چند روز پہلے اْس نے پی ٹی آئی کے چار شرپسندوں کو گرفتار کیا ہے‘‘ ، جب پولیس افسروں کی تمام غنڈہ گردیاں اور بدعنوانیاں صرف اس ایک ’’اہلیت‘‘کی بنیاد پر نظرانداز کر دی جائیں کہ وہ حکمرانوں اور اْن کے مالکان کی مخالف سیاسی جماعت کے ’’شرپسندوں‘‘ کو گرفتار کرتے ہیں اور بعد میں اْن سے مال بٹور کر حصہ اْوپر تک پہنچاتے ہیں وہاں بہتری کی کیا توقع اس ادارے یا اْس کے کچھ اعلیٰ و ادنی عہدہ پسند، مال پسند ، آئس و زنان پسند افسران سے آپ کر سکتے ہیں ؟ نئے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے لوگوں نے بہت توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ وہ ظالموں کے ہاتھ روکیں گے اور کاٹیں گے ، اْنہیں کئی چیلینجز اور امتحانات کا سامنا ہے ، ایک چیلنج اور امتحان اب یہ بھی ہے وہ فوری طور پر انتظار حسین پنجوتھا کو اپنے پاس بْلا کر پوچھیں اتنے روز وہ کہاں رہے اْن پر کیا گزری ؟ میں حیران ہوں وکلاء نے اپنی برادری کے ایک اہم فرد پر انتہائی بہیمانہ تشدد کا کوئی نوٹس اب تک کیوں نہیں لیا ؟ کہیں نوٹ ’’نوٹس‘‘ سے زیادہ اہم تو نہیں ہو گئے ؟ ابھی کچھ روز پہلے مجھے سیالکوٹ میں عثمان ڈار کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ، اْس کا گھر محل جیسا تھا ، اب اْس کے گھر کی جو حالت میں نے دیکھی میں جتنی دیر وہاں رہا گم سم اْداس رہا ، اْس کی بوڑھی والدہ ریحانہ ڈار نے بتایا ’’پولیس اور کچھ دوسری ایجنسیوں کے لوگ اْنہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کے گھر کے مختلف کمروں میں لیجاتے رہے ، گھر کا جتنا قیمتی سامان وہ توڑ سکتے تھے توڑ دیا جتنا ساتھ لے جا سکتے تھے تھیلے بھر بھر کر ساتھ لے گئے‘‘ ، ماضی کا یہ’’محل‘‘ حال کے ایک کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے ، بیگم ریحانہ ڈار نے اپنے بیٹوں سے کہا ہے جب تک عمران خان رہا ہو کر اس گھر کا وزٹ نہیں کرے گا وہ اس گھر کو اسی حالت میں رکھیں گی‘‘ ، یہ منظر بیان کرتے ہوئے اکثر اْن کی آنکھوں میں لہو اْتر آتا ہے کہ جب اْن کا بیٹا عثمان ڈار اذیت کی مدت یا چلہ کاٹنے کے بعد گھر واپس آیا اْس کا ایک بازو کام ہی نہیں کر رہا تھا ، اْس کا چہرہ سْوجھا ہوا تھا ، نقاہت سے صحیح طرح اْس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ، ریحانہ ڈار مذہبی روایات کی حامل ایک انتہائی گھریلو خاتون ہیں جنہوں نے سیاست میں آنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ، مگر جو کچھ اْن کے ساتھ ہوا اْس کے نتیجے میں وہ اپنی ساری کشتیاں جلا کر اپنے پرانے سیاسی حریف خواجے آصف کے مقابلے پر اس طرح آگئیں کہ خواجے آصف کو روایتی غیبی مدد اس بار بھی اگر حاصل نہ ہوتی اس بار بھی وہ انتہائی بْری شکست سے دو چار ہوتا، موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی غیر جانبداری کے نتیجے میں جس روز فارم پنتالیس اور سنتالیس کٹہرے میں کھڑے ہوگئے سب سے پہلے خواجہ آصف فارغ ہو گا ، میری اطلاع کے مطابق عمران خان نے فیصلہ کیا ہے خواتین کی مخصوص نشستوں کا حتمی معاملہ طے ہونے کے بعد بیگم ریحانہ ڈار کو قومی اسمبلی کی رْکن بنا دیا جائے گا ، میں سوچ رہا ہوں ایسی صورت میں وہ کیا منظر ہوگا جب ہمیشہ غیبی مدد سے کامیاب ہونے والے اپنے سیاسی حریف خواجہ آصف کو للکار للکار کے اْن کا اصل چہرہ وہ اْنہیں دکھا رہی ہوں گی ؟ اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم شہباز شریف اْس خاتون کا سامنا کیسے کریں گے جس کے مرحوم شوہر امتیاز الدین ڈار نے انتہائی مشکل وقت میں شریف برادران کا ہر طرح سے ساتھ دیا تھا اور اس کی بھاری قیمت بھی چْکائی تھی ؟ 1999ء کی ’’بارہویں شریف‘‘ یعنی بارہ اکتوبر کو جب شریف برادران کی حکومت جرنیلی سازش کا شکار ہوئی نون لیگ کے اکثر نام نہاد راہنما فوری طور پر روپوش ہو گئے ، ابتدائی طور پر خواجہ آصف کا بھی پتہ نہیں چل رہا تھا وہ کس سرنگ میں جاکر چْھپ گیا ہے ، خوف کے اس بدترین عالم میں عثمان ڈار کے والد امتیاز الدین ڈار ڈٹ کر کھڑے رہے ، مالی لحاظ سے تب بھی اْنہیں ایسے ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جیسے شدید نقصان کا سامنا اب عثمان ڈار کو کرنا پڑا ہے ، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں پاکستان سے انتقام ، منافقت خصوصا ًجھوٹ کی سیاست کب ختم ہوگی ؟ اس طرح کی سیاست کا جاری رہنا پاکستان کے لئے کتنا نقصان دہ ہے ؟ اس کا اندازہ اْنہیں کیسے ہو سکتا ہے جنہوں نے پاکستان کو مکمل طور پر تباہ کر کے یورپ امریکہ کینیڈا برطانیہ آسٹریلیا دبئی اور ان جیسے ممالک میں فرار ہونے کے پورے بندوبست کر رکھے ہیں۔