حکومت جس سفاکیت سے احتجاج کو ختم کرتی ہے، اتنا ظلم تو ہم نے ضیاءدور میں بھی نہیں دیکھا تھا، اُس وقت پر مظاہرین پر کبھی سیدھے فائر نہیں کیے گئے تھے، نہ اُس وقت احتجاج روکنے کے لیے کنٹینر لگا کر اربوں روپے کا خرچ کیا جاتا تھا، اور نہ خود سے گاڑیوں کو جلایا جا تا تھا۔ بس جتنا ممکن ہو سکے حالات کو کنٹرول میں رکھا جاتا تھا۔ اُس وقت تو میڈیا بھی آج سے زیادہ آزاد تھا، اخبارات ہی اُس وقت سوشل میڈیا ہوا کرتا تھا، کسی بڑی خبر کے لیے ضمیمے چھپتے تھے،اور کسی کی جرا¿ت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اخبارات کو اُس انداز میں ہینڈل کرے جس انداز میں آج پیمرا کو ہینڈل کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے برعکس نہ جانے آج کے حکمران کیا بینائی سے محروم ہو گئے ہیں؟ کانوں میں جالے پڑ گئے ہیں؟ اب بھی سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ حالات کہاں پہنچ چکے ہیں؟ کتنی بڑھکیں ماری گئیں کہ احتجاجی اسلام آباد داخل نہیں ہو سکیں گے۔ بڑی تفصیل سے بتایا گیا کہ بیس ہزار سے زیادہ پولیس اور دیگر اہلکار دارالحکومت کے دفاع کے لیے مامور ہو چکے ہیں۔ آنسو گیس شیل اور ربڑ کی گولیوں کا بتایا گیا۔اور پھر رات گئے آپریشن ہوا، اور یہی سرکاری مشینری اپنے لوگوں پر استعمال کرکے بڑھکیں ماری گئیں کہ جیسے کشمیر فتح کر لیا گیا ہو۔ بقول شاعر
ظالم تیراظلم کب تک رہے گا
کبھی تو خدا ہماری بھی سنے گا
خیر ملک کی حالت دیکھ کر ہم سب دکھی نہیں؟ تو پھر عقل سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا؟ پہلی چیز تو یہ ہے کہ تمام مقدمات میں‘ اس بات کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ ان مقدمات میں کوئی سچائی تھی یا نہیں‘ ضمانت ہو جانے کے بعد عمران خان کو اندر رکھنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ اگر یہ خدشہ سروں پر منڈلا رہا ہے کہ وہ باہر آئے تو حالات مزید بے قابو ہو جائیں گے تو ا±ن سے بات کر لیں اور بنی گالہ لے جائیں۔ساتھ ہی یاسمین راشد‘ عمر سرفراز چیمہ‘ محمود الرشید اور اعجاز چودھری جیسے پی ٹی آئی کے رہنما جو پابندِ سلاسل ہیں اور ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود اُن پر کوئی خاطر خواہ مقدمہ نہیں چل سکا‘ ا±نہیں رہا کیا جائے۔ دیگر باتیں بعد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ رہائیاں عمل میں آئیں تو ٹمپریچر ایک دم نیچے آ جائے گا۔ زور زبردستی سے کام چلنا ہوتا تواب تک چل چکا ہوتا‘ تمام چیزیں دب کے رہ جاتیں‘ زبانیں مکمل طور پر بند ہو جاتیں اور پی ٹی آئی میں کچھ ہمت باقی نہ رہتی۔ معتوب جماعت نے کمزور ہونے کے بجائے زیادہ زور پکڑا ہے، اور ہو سکتا ہے وہ اگلی مرتبہ مزید طاقت ور ہو کر واپس آئیں۔ تو کیا یہ سلسلہ رُک گیا؟ کیا لڑائی اور بزور طاقت کبھی کوئی تحریک رُکی ہے جو اب رُکے گی؟ تحریک انصاف کی جگہ اگر کوئی اور سیاسی پارٹی ہوتی تو اب تک تھکن سے چور ہو کر ہار مان چکی ہوتی۔ لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر دانش مندی کا تقاضا ہے کہ زور زبردستی کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی جائے۔ اور دوسری راہ مفاہمت کے تقاضوں میں ہی پنہا ں ہے۔
دو سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے‘ ایسے ایسے ہتھکنڈے اپنائے گئے ہیں کہ ا±ن کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کوئی پوچھے تو سہی کہ ان تدابیر سے حاصل کیا ہوا ہے؟ کہتے ہیں پنجاب سے لوگ نہیں نکلے، بھئی آپ نے ملک بھر میں ہزاروں کنٹینر لگا دیے، ایک ایک کنٹینر کا کرایہ ہزاروں نہیں لاکھوں میں ادا کیا گیا، اس طرح اربوں روپے آپ نے صرف احتجاج کو روکنے کے لیے خرچ کر دیے،پورا پاکستان آپ نے بلاک کرکے رکھ دیا، اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ آپ مذاکرات کی طرف واپس آتے، ان سے مذاکرات کرتے اگر یہ کہتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہی کرلیتے۔ اس میں کیا حرج ہے؟
میرے خیال میں جب انسان طاقت اور قوت حاصل کرتا ہے اور اس طاقت کے تکبر میں ظلم کا بازار گرم کرتا ہے‘ تو بعض اوقات قوت کے نشے میں اس قدر ظالم بن جاتا ہے کہ اسے خوف دلایا جائے‘ واسطے دے کر رحم کی درخواست کی جائے تو اس کا تکبر اور بڑھ جاتا ہے ۔ اس کا مظاہرہ مکہ مکرمہ میں بھی اس وقت دیکھنے میں آیا‘ جب بنوبکر کے ایک مشہور عربی قبیلے نے خزاعہ قبیلے پر حملہ کر دیا۔ بنوبکر قبیلہ مکہ کے مشرکین کا حلیف اور طرفدار تھا‘ جبکہ خزاعہ قبیلہ سرکارِ مدینہ حضرت محمد کریم کا حلیف اور طرفدار تھا۔ بنوبکر قبیلے کی ایک اہم ترین شاخ‘ بنو نفاثہ کے سردار نوفل نے ابوسفیان سے بالا بالا قریشی سرداروں کو ساتھ ملایا اور خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ خزاعہ کے لوگ چونکہ بے خبری میں اچانک حملے کی زد میں تھے۔ صلح حدیبیہ کی وجہ سے لڑائی کا خیال و خواب نہ رکھتے تھے؛ چنانچہ وہ قتل ہوتے گئے اور بھاگتے بھاگتے حرم کی حدود میں جا داخل ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ حرم میں جنگ اور لڑائی حرام ہے‘ یہاں تو کسی جانور کا شکار بھی جائز نہیں۔ جاندار تو رہے‘ ایک طرف درخت کاٹنا بھی جائز نہیں‘ لہٰذا ہمیں کیسے کاٹیں گے ‘مگر نوفل کا نفاثہ قبیلہ ایسا ظالم ثابت ہوا کہ حرم مکی کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا اور ظلم جاری رکھا۔ نفاثہ قبیلے کے بعض لوگوں نے اپنے سردار نوفل کو توجہ دلائی۔ نوفل! اب تم حرم کی حد میں ہو‘ تمہیں تمہارے رب کا واسطہ ”اِلٰھَک‘ اِلٰھَک“ نوفل نے اس پر انتہائی تکبر کے ساتھ جواب دیا آج میرا کوئی رب نہیں۔ اے میرے قبیلے کے لوگو! جانتے نہیں ہو‘ تم وہ لوگ ہو جو حرم میں لوگوں کا مال چوری کر لیا کرتے تھے۔ کیا تم اپنے دشمن سے بدلہ نہیں لے سکتے۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس نہ جائے جب تک مجھ سے اجازت نہ لے لے۔ تم میں سے کوئی شخص آج اپنا انتقام اگلے دن پر نہ ڈالے۔“ (المغازی‘ واقدی)بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن سالم 40بندوں کے ہمراہ مدینہ منورہ پہنچا‘ حضرت محمد کو اپنی مظلومیت سے آگاہ کیا۔ آپنے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں ہر اس چیز سے تمہارا دفاع کروں گا‘ جس سے میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا دفاع کرتا ہوں۔چنانچہ آپ نے چند شرائط رکھیں، جنہیں نہ ماننے کی صورت میں اعلانِ جنگ کردیاجس کے بعد آپ نے دس ہزار کا لشکر تیار کیا اور امن کے ساتھ مکہ فتح کر لیا۔ بنو خزاعہ کو بدلہ دلایا اور فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حرم میں بھی تلوار چلانا ایک دن کے ایک حصہ میں جائز قرار دے دیا ہے اور اسی ٹائم میں بنو نفاثہ کے قاتل ظالموں سے بنو خزاعہ کے لوگوں نے بدلہ لیا اور پھر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر حضرت بلالؓ نے اللہ اکبر کہہ کر اذان دی اور یوں فتح مکہ کا اعلان ہوگیا۔ یعنی آپ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بس ظالموں کو ذرا سی مہلت ملتی ہے ‘مگر ظالم کی زندگی دیرپا ہر گز نہیں ہوتی۔ جلد ہی ظلم کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
بہرکیف ابھی بھی ہم کہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کے لیے بیٹھیں، تحریک انصاف کی قیادت جس میں اس وقت بشریٰ بی بی خاصی متحرک نظر آرہی ہیں، بشریٰ بیگم پر اعتراض کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ا±ن کی وجہ سے احتجاج کا ایک نیا رنگ ا±بھر کر آیا۔ خان نے اپنی جان داﺅ پر لگائی ہوئی ہے‘ بشریٰ بیگم نے جیل کاٹی اور بڑی استقامت سے کاٹی۔ قافلے میں بھی شریک رہیں ۔ اس لیے میری تحریک انصاف کے رہنماﺅں سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ دیرپا حل چاہتے ہیں تو فوری طور پر مذاکرات کی طرف آئیں۔ آپ شکار کے متعلق کتابیں پڑھ لیں، یا ویڈیو ز دیکھ لیں،،، کہ شیر چھلانگ یا جَست لگانے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے۔ ٹیک آف کے عمل میں زمین چھوڑنے سے قبل طیارہ بھی ایک لمحے کے پچاسویں حصے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے! اگر آپ کرکٹ کے شوقین ہیں تو دیکھا ہوگا کہ باﺅلرز بھی زیادہ قوت سے گیند کرانے کے لیے اپنے رن اپ مارک پر پہنچنے کے بعد تھوڑا سا پیچھے ہٹتے ہیں۔ گویا کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے لازم ہے کہ تھوڑا سا توقف کیا جائے‘ اپنے آپ کو سمیٹا جائے‘ اپنی صلاحیت اور سکت کا جائزہ لیا جائے اور پوری قوت کو ایک نقطے پر مرکوز کرکے بھرپور سعی کی جائے۔ اب اس حقیقت کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے؛ اگر حالات نے آپ کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ قسمت آپ کو کسی بڑے کام کے لیے تیار کر رہی ہے!
لہٰذاتحریک انصاف کو بھی اگر ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،تاریخ اس کی گواہ ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی پیچیدہ ترین سیاسی مسائل کو حل کیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی میں نیلسن منڈیلا کی حکمت عملی اور مذاکراتی کوششوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون اور اتفاقِ رائے ہی سے وہاں مستحکم جمہوری نظام قائم ہے۔ اگرچہ سیاسی اختلافات ناگزیر ہیں مگر ان اختلافات کو جارحیت اور تصادم کے ذریعے حل کرنے کے بجائے‘ انہیں ایک موقع سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنے اور مل کر بہتر حل تلاش کرنے کا موقع ہے‘ حکمت و بصیرت سے پیچھا ہٹنا پی ٹی آئی کو دوبارہ سیاسی زندگی دے سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو یوٹرن نہیں لیتا‘ وہ اچھا قائد نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت میں ہٹلر اور نپولین کی مثال دی تھی کہ دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دونوں نے صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں انہیں شکست ہوئی۔
بہرکیف دنیا کے لیڈران میں اگر لچک نہ ہوتی تو یہ کب کی تباہ ہو چکی ہوتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکی صدر روزویلٹ، ٹرومین، روس کے اسٹالن، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال،چین میں ماﺅزے تنگ اور چو این لائی،برصغیر میں قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی،ملائشیا میں تنکو عبد الرحمن،انڈونیشا کے سویکارنو،مصر کے جمال عبد الناصر،چیکوسلواکیہ کے مارشل ٹیٹو،،شمالی کوریا کے کم ال سنگ،اور ویتنام کےہو چی من ایسے عالمی لیڈر تھے جنہوں نے اپنے ملک وقوم کی خاطر کئی بار لچک دکھائی۔اسوقت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ مزاحمت کی،حالات سے مصالحت کے بجائے ان کا مقابلہ کیا آج نہ صرف وہ اقوام سر اٹھا کر جیتی ہیں بلکہ اپنے ہیروز کا نام آتے ہی لوگ احترام سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔اور رہی بات حکومت کی تو یہ اُس کا وقت ہے، آپ کا وقت بھی آئے گا، لیکن وہ اپنے وقت کی فرعون بنی ہوئی ہے، اس وقت تو اُن کا حال ایسا ہے کہ بقول شاعر
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا