حقیقت میں کچھ ہوتا ہے کہ نہیں پٹواری بدحال ہو رہے ہیں۔کملا ہیرس اور ڈیموکریٹک پارٹی اتنے پریشان نہ ہوں گے جتنا کہ اپنے مہربان ہو رہے ہیں۔ڈراؤنے خواب کی طرح وہ منظران کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے جب فلاں نمبر قیدی بطوروزیراعظم وائٹ ہاؤس کے دورے پر تھا اوروہاں جو اُسے پذیرائی ملی۔ صدرٹرمپ نے ان کے ایک مشہور ایتھلیٹ ہونے کی تعریف کی اور میلانیا ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیلفی بنائی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صدراوباما کے سامنے بغیر ایک نوٹوں کی تھدی کے چارجملے ادا کرنے سے قاصرتھے۔ یہ کوئی کہانی نہیں‘ اُس موقع کی وڈیوز یوٹیوب میں محفوظ ہیں۔ اوبامانے عام سے خوش آمدیدی کلمات ادا کیے اورہمارے بھاری مینڈیٹ والے کاغذ پہ کاغذ پلٹائی جا رہے تھے کہ جب ان کی باری آئے گی تو کچھ کہہ سکیں ۔یہ کارروائی دیکھ کر اوباما کا چہرہ حیرت زدہ ہورہا تھااورعجیب آنکھوں سے وہ بھاری مینڈیٹ کو دیکھتا رہا۔ رکتے رکتے میاں صاحب نے اپنی باری پر کچھ جملے فرمائے اورآخرمیں یہ کہاکہ قیمہ اوردال کی تواضع پاکستان میں آپ کیلئے منتظر ہے۔یہ قبیلہ ایسا ہے کہ اسے تو کسی بات پر پشیمانی نہیں ہوتی لیکن سچ پوچھیے پاکستانی ہونے کے ناتے ہم جیسوں نے جو یہ منظر دیکھا شرمندگی سے ہماری حالت بری ہو گئی۔
ایک تلخ حقیقت ہے جو پٹواری نہ سمجھ سکتے ہیں نہ ہضم کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ پاکستان میں کسی کو نہیں جانتا۔ آج کا جو حکمران ٹولہ ہے اُس سے ٹرمپ کاکیا لینا دینا۔ بھاری مینڈیٹ والا کون تھا‘ ووٹ کو عزت دو کس نے نعرہ لگایا اُس سے ٹرمپ کو کیا سروکار؟ اول تو ہمارے جوہری وزیراعظم نے اس نئے وائٹ ہاؤس میں مدعو نہیں ہونا اور کہیں ملاقات ہو بھی گئی تو ہماری اہمیت کیا؟ افغانستان میں تو کوئی جہاد جاری نہیں کہ ہم ماضی کی طرح پھر سے وہاں کردار ادا کریں اوراس کے عوض کندھوں پر ہمارے تھپکی دی جائے۔ لیکن یہ تو پاکستانیوں نے دیکھا کہ ٹرمپ عمران خان کی پہچان رکھتے تھے۔ اورجب ان کی ملاقات ہوئی وہ قیدی فلاں نمبر کو بطوروزیراعظم نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ایک بین الاقوامی کھلاڑی اورسیلیبرٹی کے طور پر۔ یہی ڈر ہمارے پٹواری مہربانوں کو کھائے جارہا ہے کہ ٹرمپ پتا نہیں کیا کہہ دے گا‘ کیا کرڈالے گاجوہمارے لیے پرابلم بن جائے۔ امریکی صدارتی الیکشن پر ہمارے دفتر خارجہ کا ردِعمل بھی اسی ڈر کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری میڈم ترجمان نے فرمایا کہ پاک امریکن دوستی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدمِ مداخلت پر مبنی ہے۔ یہ پڑھ کر پاکستانیوں کی ہنسی چھوٹ گئی ہوگی۔ ہمارا رونا ہی یہ رہا ہے کہ امریکہ نے فلاں چیز کر دی اور فلاں وقت ہمارے ساتھ ہاتھ کر دیا اور یہاں میڈم ترجمان قوم کو نوید سنا رہی ہیں کہ ہمارے تعلقات تو عدمِ مداخلت پرمبنی ہیں۔
یہ تو اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لُو سے پوچھا جائے کہ عدمِ مداخلت کیا ہوتی ہے۔یا تاریخ کے اوراق میں جاکر یہ پتاچلایاجائے کہ 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک میں اُس امریکی ڈپلومیٹ کا مطلب کیا تھاجب اُس نے کسی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ‘دی پارٹی از اوور‘۔ ہم تو ایک علیحدہ ملک کی حیثیت میں معرضِ وجود میں آئے تو وہیں سے بے تابی و بے قراری شروع ہو گئی کہ ہم نے امریکی کیمپ میں نہ صرف جانا ہے بلکہ چھلانگ لگانی ہے۔ سردجنگ کا زمانہ تھا‘ ایک طرف امریکہ دوسری طرف سوویت یونین اور ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور امریکہ سے دفاعی معاہدہ کرلیاجس سے کچھ ساز و سامان آنے لگا اور کچھ نئی چھاؤنیاں‘جیساکہ کھاریاں‘ بن گئیں۔ قرضے کی لت ہماری تب سے پڑھنا شروع ہوئی لیکن ہمارے زعما اسی میں خوش تھے کہ ہندوستان کے مقابلے میں ہم طاقتور ہو رہے ہیں۔
پیچھے مڑ کے دیکھا جائے وہ سازوسامان نہ ہی ملتا ہمارے لیے اچھا تھا۔ کیونکہ جب وہ اسلحہ آیا تو کچھ گھمنڈ سا زیادہ ہوگیا۔ رن آف کَچھ کی درمیانی قسم کی جھڑپ ہندوستان سے ہوئی تو ہمارا پلڑا قدرے بھاری رہا۔ ذوالفقار علی بھٹووزیرخارجہ تھے اور دفاعی اداروں میں بھی کچھ لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ اب ہندوستان سے حساب نہ چکایا گیا تووقت گزر جائے گا۔ یہ وہ نفسیاتی تناظر تھا جس میں 1965ء کے معرکے کی تیاری کی گئی۔ بارہ ڈویژن‘ جس کا ہیڈکوارٹر مری میں ہوتا ہے‘ کے کمانڈر میجر جنرل اخترحسین ملک مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کے بہت بڑے حامی تھے۔ بھٹو نے پتا نہیں ہندوستان سے کون ساحساب برابر کرنا تھا وہ جنگ کے حامی تھے‘ دفترِخارجہ میں عزیز احمد تھے وہ بھی بڑے تندوتیز صوفہ نشین غازی تھے۔ ایوب خان کا چولہا ویسے ہی 1964ء کے انتخابی معرکے سے ہل چکا تھا۔ جتوا تو دیے گئے‘ بالکل جیسے موجودہ حکمران ٹولے کو فارم 47کے ہار پہنا کر فروری میں جتوایا گیا۔ یعنی 1964ء کی ایوب خان کی جیت بالکل ویسے ہی تھی جیسے آج کے ٹولے کی جیت رہی ہے۔اوپر سے جیت اوربیچ میں خوداعتمادی کی شکست وریخت۔لہٰذا اُس زمانے کے حکمران طبقے کی یہ ذہنی کیفیت تھی کہ جو نفسیاتی زخم صدارتی انتخاب میں لگے ہیں اُنہیں بھلا دیا جائے گا جب میدانِ جنگ میں ہندوستان کو شکست ہوگی اورکشمیر کو فتح کرنے کے راستے کھل جائیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں کیا کہا تھا؟یہ کہ میں نے آج کے حکمرانوں سے کہا تھا پنگا نہ لیں اوراُنہوں نے پوچھا پنگا کیا ہوتا ہے؟ تو میں نے کہا کہ وہ جب لیتے ہیں تب ہی پتا چلتا ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جب مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے جواب میں ہندوستان نے لاہور اورسیالکوٹ کے محاذ پر حملہ کر دیا تو دونوں ممالک میں باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ سترہ دن جنگ جاری رہی اوراس عرصے میں دونوں فریقین کے سانس پھول گئے۔ سوویت یونین نے ثالثی کی پیشکش کی تو دونوں ممالک نے فوراً اسے قبول کیا۔ بات پٹواریوں سے شروع ہوئی تھی لیکن ہم کہیں اورنکل گئے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ دفترخارجہ کی میڈم ترجمان فرماتی ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات ایک دوسرے کے معاملات میں عدمِ مداخلت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ مذاق کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگنی چاہیے لیکن پھر بھی سوچ سمجھ کر مذاق کرنا چاہیے۔
کسی بھی امریکی حکومت کی جو بھی ترجیحات ہوں وہاں پر رائے عامہ کی ایک اہمیت ہے۔ امریکی کانگریس سے کوئی جاندار آواز اُٹھے تو وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اُس کا نوٹس لینا پڑتا ہے۔ ٹرمپ صدر بنا ہے توووٹوں سے بنا ہے کسی فارم 47سے نہیں۔ جیسے حالیہ دنوں میں تقریباً ساٹھ امریکی ممبران کانگریس نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کچھ نوٹس لیا جائے اور یہاں سرکاری حلقوں نے شورمچانا شروع کردیا کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے۔ ہمارے افلاطونوں کو یہ کون سمجھائے کہ امریکی کانگریس یا کسی اور ملک کی پارلیمنٹ میں کچھ کہا جائے توآپ اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ وہاں تھانہ کوہسار یا تھانہ سیکرٹریٹ تو ہے نہیں کہ آپ ایف آئی آرکٹوائیں اوراگلے اٹھالیے جائیں۔ ان ساٹھ ممبرانِ کانگریس نے صدربائیڈن کی ایڈمنسٹریشن میں پاکستان کے بارے میں یہ آواز اٹھائی تھی۔ اب جب نئی ایڈمنسٹریشن آئے گی اور پھر سے امریکی کانگریس سے ایسی آواز اٹھے تو ہمارے پٹواریوں کا پسینہ نہیں چھوٹ جائے گا؟
اپنی حیثیت کو تو پہچانیں‘ آئی ایم ایف کے پائی پائی کے محتاج ہیں‘ وہاں سے پیسہ نہ ملے توہرجگہ سے بند ہو جائے۔ اورمت بھولیے سرکش جماعت کی امریکی لابی ۔ لہٰذا پٹواریوں کاگھبرانا بالکل بجا ہے۔