پاکستان میں عدلیہ، وکلا اور سیاسی مداخلت: 26ویں آئینی ترمیم اور اس کے اثرات

26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں لانے کی خبروں کے ساتھ ہی اس کو روکنے کیلئے پی ٹی آئی سمیت وکلا کے ایک مخصوص گروپ نے واویلا مچایا اور دھمکی دی کہ اس کی منظوری کیلئے ان کی لاشوں پر سے گزرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان طویل بحث و مباحثے کے بعد 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی۔ حکومت نے اس کے تحت نئے چیف جسٹس کا تقرر کیا، اور عدلیہ نے بھی اسے قبول کرتے ہوئے اپنی تشکیل نو کی۔

وکلا کے اس گروپ کا خیال تھا کہ وکلا کی اکثریت اس ترمیم کے خلاف ہے، اور وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں اس کا اظہار کریں گے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ بار کے پلیٹ فارم سے آئینی ترمیم کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ تاہم، انتخابات میں ناکامی کے بعد، ایک بار پھر اس گروپ نے امیدیں ججوں سے وابستہ کرلی ہیں کہ وہ ماضی کی طرح پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے حق کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنا حق جتائیں گے۔ دوسری جانب، یہ گروپ ججوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے تحریک چلانے کی باتیں بھی کر رہا ہے۔

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایسے کئی فیصلے موجود ہیں جن پر فخر نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ادوار میں عدلیہ نے ایسے فیصلے دیے ہیں جو عدلیہ کے کردار، سیاست میں عدالتی مداخلت، اور عدلیہ کی آزادی پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان متنازع اور جانبدارانہ فیصلوں نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک میں مختلف ادوار میں عدلیہ نے فوجی حکومتوں، سیاسی دباؤ، اور اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے میں اپنی آزادی کو قائم رکھنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔ ججوں کی مالی بدعنوانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ ہر مارشل لا کو جائز قرار دینے، آمروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت دینے، اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی جیسے عدالتی فیصلے عدلیہ کے ماتھے پر ایسے بڑے بڑے داغ ہیں جنہیں “جوڈیشل مرڈر” قرار دیا گیا۔ عدلیہ کی اس گراوٹ میں سیاسی وکلا نے بھی ایک منفی اور بڑا کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے مزید ایسے متنازع فیصلے بھی کیے ہیں جنہوں نے ملکی سیاست، عدالتی آزادی، اور عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے میں اصولی طور پر وکلا کا کردار عدلیہ کی آزادی، قانون کی بالادستی، اور انصاف کے قیام میں ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں سیاسی وکلا نے کئی اوقات میں اپنے سیاسی ایجنڈے اور ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے عدلیہ کے وقار کو متاثر کیا اور عدالتی نظام کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی ایجنڈا اور عدالتی مداخلت، جوڈیشل ایکٹوزم کو بڑھاوا دینا، تحریکیں اور احتجاج، بدعنوانی اور طاقت کا غلط استعمال، بینچ فکس کرنا، اپنے کیسز مخصوص ججوں کے سامنے لگوانا، وکلا کا ججز پر دباؤ ڈالنا، وکلا کی اندرونی سیاست اور گروپ بندی، اور عدالتی نظام میں اصلاحات کی مخالفت، ان تمام عوامل نے عدلیہ کو کمزور کیا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ بننے سے روکا۔

پاکستان میں بڑی وکلا تحریک 2007 میں چلی، جس کا مقصد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کی بحالی کے لیے آواز اٹھانا تھا، جنہیں اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے معطل کر دیا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں جج بحال ہوگئے اور اس کو عدلیہ کی خودمختاری اور قانون کی بالادستی کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاہم، بحالی کے بعد عدلیہ کی آزادی کے بجائے جج ذاتی طور پر آزاد ہوگئے اور وکلا نے خود کو قانون سے ماورا سمجھنا شروع کر دیا۔ اس تحریک کے بعد متعدد واقعات پیش آئے جن میں وکلا نے جہاں چاہا حملہ کیا، یہاں تک کہ انہوں نے ججوں کو بھی نشانہ بنایا، اپنی مرضی کے فیصلے لینے پر مجبور کیا، دھمکیاں دیں، اور عدالتوں کو تالے تک لگائے۔

ججوں کے کردار میں بحالی کے بعد بڑی تبدیلی دیکھی گئی۔ ان کی سیاست زدگی اور حکومتی امور میں براہ راست مداخلت بڑھ گئی۔ بحالی کے بعد چیف جسٹس چوہدری نے ایک فعال کردار اپنایا اور اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے انتظامیہ اور مقننہ کے دائرہ کار میں بے جا مداخلت کی، جس کیلئے از خود نوٹس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ان کے دور میں ان کی مہم جوئیوں کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نا اہل کیا گیا۔ اس طرح انہوں نے جوڈیشل ایکٹوزم کے نئے اور بھونڈے ریکارڈ قائم کیے، جس سے نہ صرف اس وقت کی حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا بلکہ ملک کی معیشت اور استحکام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

بعد کے چیف جسٹسز اور ججوں نے بھی اس رجحان کو برقرار رکھا اور عدلیہ نے سیاسی معاملات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران پاناما پیپرز کے مقدمے میں وزیر اعظم نواز شریف کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا گیا، اور ان کے ساتھیوں کو بھی توہین عدالت کے مقدمات میں گرفتار اور نا اہل کیا گیا۔ دراصل یہ سب اس وقت کے فوجی جرنیلوں کی ایما پر عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئےکیا گیا۔ یہ فیصلے ججوں کی سیاسی وابستگی، دباؤ، گٹھ جوڑ، اور نا انصافیوں کی واضح مثال ہیں۔ ان فیصلوں نے ملک کے سیاسی منظرنامے میں عدلیہ کے اثر و رسوخ کو اجاگر کیا، مگر ساتھ ہی اس کی غیر جانبداری اور آزادی پر بھی سوالات اٹھائے۔

مئی 2022 میں، پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد اور حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد، پاکستان مسلم لیگ کی حکومت ختم کرنے اور تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے پی ٹی آئی کے حمایتی ججوں نے آئین کے آرٹیکل 63(A) کی تشریح کرتے ہوئے ایک متنازع فیصلہ دیا کہ وفاداری تبدیل کرنے والے ارکان کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔ بعد میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے نظرثانی میں غلط قرار دیا، مگر اس وقت اس فیصلے کی وجہ سے بہت بڑا بحران پیدا ہوا تھا جس سے ملکی عدم استحکام کو فروغ ملا۔

اسی طرح، جولائی 2024 میں مخصوص نشستوں کے مقدمے میں ایک بار پھر پی ٹی آئی کے حمایتی ججوں نے “مکمل انصاف نظریہ” پیش کیا، جو عدالتی فعالیت اور اختیارات میں تخلیقی توسیع کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ اس فیصلے کو ججوں کی آئینی ترمیم سے تعبیر کیا گیا۔ اس نے عدلیہ کو آئینی دفعات کی ایسی تشریح کا اختیار دیا جو ترمیم کے کردار کی حامل ہے، جس سے طاقت کا توازن متاثر ہوا۔

جسٹس منیر کا “ضرورت کا نظریہ” پہلے ہی عدالتوں کیلئے ایسی غیر معمولی صورتحال میں روایتی قانونی تشریحات سے انحراف کو جائز قرار دینے کی ایک مثال قائم کر چکا تھا۔ “مکمل انصاف” کا نظریہ بھی اسی طرز پر ایک غیر رسمی یا “عدالتی” ترمیم تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے عدلیہ کو آئینی دفعات کی وسیع تشریح کی اجازت دی۔ اس طرح کی تشریحات درحقیقت ترمیم کے مترادف بن جاتی ہیں اور عدلیہ کے مینڈیٹ کو بڑھاتے ہوئے طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔

عدالتیں سیاسی انجینئرنگ کے آلات کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، جو جمہوری عمل کو متاثر کر رہی ہیں اور عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو کمزور کر رہی ہیں۔ اس تاثر کو اس وقت مزید تقویت ملی جب عدالتی فیصلے بعض سیاسی جماعتوں یا فوجی ادارے کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آئے۔ ججوں کے ایسے کردار اور سیاسی وکلا کے ججوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور اثر و رسوخ سے عدلیہ میں وسیع پیمانے پر بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

حالیہ پیش رفت میں آئینی ترامیم نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے عمل کو تبدیل کر دیا ہے اور پارلیمنٹ کو ملک کے اعلیٰ جج کے انتخاب کا اختیار دے دیا ہے۔ اس تبدیلی پر حزب اختلاف نے تنقید کی ہے، جن کے مطابق یہ اقدام عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

عدالتی سرگرمیوں اور اختیارات کے درمیان توازن کا مسئلہ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں ایک دیرینہ چیلنج رہا ہے۔ یہ ایسا پیچیدہ معاملہ ہے جس کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ ملک کو مزید سیاسی اور آئینی بحرانوں سے بچایا جا سکے۔ اس مسئلے کا حل احتجاج، ہنگامہ آرائی، یا سڑکوں پر نکلنے میں نہیں ہے؛ بلکہ اصل راہ آپس میں بیٹھ کر مذاکرات اور مشاورت سے نکلتی ہے، جہاں تمام متعلقہ فریق اپنے مؤقف کو پیش کر سکیں اور ایک قابل عمل، پائیدار حل تک پہنچ سکیں۔

بدقسمتی سے، اس اہم مسئلے کے حل کیلئے تحریک انصاف اور اس کے حامی وکلاء ابھی تک آمادگی کا اظہار نہیں کر رہے۔ اگر وہ واقعی عدالتی اصلاحات میں دلچسپی رکھتے، تو انہیں مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ان ترامیم میں شامل ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنی تجاویز سے ان اصلاحات کو بہتر بنا سکتے۔ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد انتشار اور بےچینی پیدا کرنا ہے۔عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کیلئے ضروری ہے کہ وکلا اپنے سیاسی ایجنڈے کو عدالتی نظام سے علیحدہ رکھیں اور عدلیہ کے وقار اور غیر جانبداری کو بحال کریں۔

تحریک انصاف کے مؤقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک پسندیدہ عدلیہ وہ ہے جو ان کے حق میں فیصلے دے اور ان کے مخالفین کے خلاف سخت فیصلے سنائے۔ اس طرح کے متعصبانہ رویے سے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور ملک میں سیاسی استحکام کا خواب دھندلا پڑ جاتا ہے۔ لہذا، ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے حامی اپنی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر آئینی اداروں کے اختیارات کو متوازن کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں