پاکستان ٹیم کا بیٹنگ آج بھی 90 کی دہائی جیسا ہے

دنیا کے ساتھ کرکٹ بھی بدل رہی ہے اور کرکٹنگ ممالک نے بھی اپنا چولا بدلا لیکن نہیں بدلی تو پاکستانی بیٹنگ جس کا انداز آج بھی 90 کی دہائی جیسا ہے۔

سابق ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپئن پاکستان نے رواں سال ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرمناک شکست سے بھی سبق حاصل نہیں کیا اور اپنے کھیلنے کا انداز نہ بدلا جس کی وجہ سے اسے آسٹریلیا میں وائٹ واش کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

کرکٹ بالخصوص ٹی 20 فارمیٹ میں جدت آ رہی ہے، جس کو اپنا کر دنیا بھر کی ہر چھوٹی بڑی ٹیم آگے کی جانب جا رہی ہے لیکن پاکستان کا وہی پرانا فارمولا جس نے اس کو ترقی معکوس کی جانب گامزن کر رکھا ہے۔

پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا زوال 2023 سے شروع ہوا اور تب سے ہی گرین شرٹس کی پرفارمنس انتہائی مایوس کن ہے۔ ہماری بیٹنگ اوسط آج کے دور میں صرف 21 جو کہ بھارت اور آسٹریلیا کیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز سب سے ہی کم ہے۔

ٹی 20 کرکٹ میں آج 200 رنز بنانا کوئی کمال نہیں اور دنیا کی دیگر ٹیمیں ہنس کھیل کر اسکور بورڈ پر یہ ہندسہ سجاتی ہیں۔ تاہم پاکستان ٹیم کے لیے لگتا ہے یہ ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ گرین شرٹس کو 23 ماہ اور 28 میچز ہوچکے وہ ٹی 20 میں ڈبل سنچری اسکور نہیں کر سکے۔

پاکستان 2023 سے اب تک ٹی ٹوئنٹی میچز میں 10 بار آؤٹ ہوا اور یہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

اسٹرائیک ریٹ تو جیسے 10 سال پرانی کرکٹ کا چل رہا ہے۔ 2023 سے اب تک پاکستانی بیٹرز نے 115.70 کے اسٹرئیک ریٹ سے رنز بنائے جب کہ اسی مدت کے دوران آسٹریلیا نے 154، بھارت 146 اور انگلینڈ نے 143 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز اسکور کیے۔

جنوری 2023 سے اب تک 28 میچز میں 7 اوپننگ پیئر آزمائے جا چکے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ مل سکا اور اس مدت کے دوران صرف چار بار ففٹی پلس شراکت سامنے آئیں۔

صرف بیٹنگ ہی نہیں، بولنگ بھی گرین شرٹس کے لیے مسئلہ بن چکی ہے اور ماضی میں دنیا کا سب سے طاقتور بولنگ اٹیک قرار دیا جانے والا پاکستانی پیس اٹیک اب بے دانت کا شیر بن چکا ہے جس سے کوئی بلے باز نہیں ڈرتا بلکہ خود اس پر اپنے بیٹ سے حملہ آور ہوتا ہے۔

اس مدت ے دوران پاکستانی بولرز نے 199 وکٹیں لیں، لیکن اس میں فاسٹ بولرز کا حصہ 140 وکٹوں کا رہا جب کہ اسپنرز صرف 59 وکٹیں ہی لے سکے۔ ان 199 وکٹوں میں بھی صرف 91 وکٹیں ہی ٹیم کی جیت میں کام آ سکیں۔

سال 2023 سے اب تک ٹی 20 کرکٹ میں تین کپتان تبدیل کیے جا چکے، لیکن ٹیم کی کارکردگی میں تبدیلی نہ آنا ایک سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں