پاکستان کی سیاست میں اختلافات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، لیکن ان اختلافات کی نوعیت اور شدت میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات زیادہ تر نظریات اور پالیسیوں تک محدود رہتے تھے اور ان کا اظہار بھی ایک مخصوص حد تک مہذب انداز میں ہوتا تھا۔ اگرچہ بعض اوقات سیاسی کارکنان اور رہنما اپنی تقاریر میں تلخ زبان کا استعمال کرتے، لیکن یہ اختلافات ذاتی دشمنی یا انتقامی سیاست کی شکل میں تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ اگر کسی زمانے میں کچھ زیادہ تلخی رہی بھی ہو تو اس پر ایک دوسرے سے کھلے دل سے معذرت کی گئی۔
عمران خان کی سیاست میں آمد نے اس روایتی سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو صرف نظریاتی اختلافات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ سیاسی مخالفین کو ذاتی سطح پر نشانہ بنانے کا طریقہ اپنایا۔ ان کی سیاست نے کارکنان اور حامیوں کو بھی ایسے رویے کی ترغیب دی جس میں مخالفین کو گالم گلوچ اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مخالفین کے خلاف نفرت اور بدکلامی کی ایک منظم مہم چلائی گئی، جس کا مقصد مخالف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرنا یا ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔
یہ رجحان صرف عام سیاستدانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں اعلیٰ فوجی افسران، ججز، صحافی، اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد بھی شامل ہوئے جو عمران خان یا تحریک انصاف کی پالیسیوں اور بیانیے سے اختلاف رکھتے تھے۔ ان افراد کو سوشل میڈیا پر شدید ٹرولنگ، بدزبانی، اور ذاتی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حملوں میں تہذیب و شائستگی کی کوئی قید نہ رہی اور مخالفین کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے اس نفرت انگیز مہم میں ہر عمر اور ہر جنس کے افراد نے حصہ لیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیاسی جماعت نے اپنی صفوں میں تحمل، برداشت اور مکالمے کی بجائے جارحانہ رویہ اور نفرت کو فروغ دیا۔
ان حالات میں پاکستان کی سیاسی ثقافت ایک نئے اور پریشان کن موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں اختلافات کو برداشت کرنے کے بجائے مخالفین کو ذاتی طور پر نشانہ بنانا ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہوئی ہے بلکہ سیاسی برداشت، مکالمہ اور جمہوری اقدار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے سیاست میں ایک ایسا جارحانہ بیانیہ متعارف کرایا جس میں دلیل اور مکالمے کی گنجائش کم اور نفرت انگیزی و تضحیک زیادہ نظر آتی ہے۔
حال ہی میں لندن میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شدید بدتمیزی اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ جسٹس عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لندن میں ماڈل ٹیمپل میں بطور بینچرز شمولیت کی تقریب میں شر کت کر کے نکلے تو پی ٹی ائی کے کا رکنوں نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں زبانی حملوں کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ افراد بلند آواز میں توہین آمیز جملے کس رہے تھے ۔
یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی اور انتقامی رویے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جو کہ ایک معزز جج ہیں، وہ پاکستان کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں مڈل ٹیمپل میں بطور بینچر منتخب کیا گیا ہے ، کو ایک ایسے طریقے سے ہراساں کرنا پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور نفرت کی سیاست کی ایک اور مثال ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے حامی ہمیشہ اپنے مخالفین، چاہے وہ سیاستدان ہوں، صحافی ہوں یا عدلیہ کے معزز اراکین، سب کو ذاتی سطح پر نشانہ بناتے ہیں ۔
اس قسم کی بدتمیزی صرف ایک فرد یا عہدے کی توہین نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی عدم برداشت اور ذاتی حملوں کا کلچر، جو عمران خان کے اقتدار سے جانے بعد مزید زور پکڑ چکا ہے، اب پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی نفرت انگیزی اور ایک فتنےکی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف ملک کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں بلکہ یہ معاشرے کی مجموعی اخلاقیات اور تہذیب کے زوال کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔
ایسے واقعات کی شدید مذمت اور مخالفت کرنا ہر اُس شخص کی ذمہ داری ہے جو جمہوری اقدار، اخلاقیات اور سماجی شائستگی پر یقین رکھتا ہے۔ معاشرے کے تمام باشعور اور سنجیدہ طبقات کو نہ صرف ایسے رویے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے بلکہ ان عناصر کے خلاف آواز بھی بلند کرنی چاہیے جو اس قسم کے بدتمیزی اور نفرت انگیز رویے کو فروغ دے رہے ہیں۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا بنیادی حق ہے، مگر اس کا اظہار تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر کیا جانا چاہیے۔
چونکہ ایسے ناپسندیدہ عناصر نے اسے اپنا معمول بنا لیا ہے اور اس کی سرکوبی انتہائی ضروری ہے، اس لیے حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جو عدلیہ یا دیگر اداروں کے معزز افراد کے ساتھ اس قسم کا غیر مہذب رویہ اپناتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت قانون کی عملداری کو یقینی بنائے اور ذمہ دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، تاکہ ایسی فضا کو پنپنے کا موقع نہ ملے جس میں کسی بھی شخص یا ادارے کی عزت و وقار مجروح ہو۔
سیاست اور معاشرت میں شائستگی، برداشت اور مکالمے کی روایت کو فروغ دینا ناگزیر ہے تاکہ معاشرہ باہمی احترام اور مثبت مکالمے کی بنیاد پر پروان چڑھ سکے۔ حکومت کو صرف میڈیا میں نوٹس لینے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ایسے واقعات پر فوری اور سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ محض نوٹس لینا یا بیان جاری کرنا کافی نہیں ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی اور احتساب ضروری ہے جو مسلسل بدتمیزی، تضحیک اور ہراسانی کے ذریعے مخالفین کو نشانہ بناتے ہیں۔ جو کوئی بھی سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہو، اس پر پابندی لگانا آزادی اظہار پر پابندی نہیں بلکہ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو محفوظ بنانا ہے۔ آزادی اظہار کی اپنی حدود ہوتی ہیں، اور جو بھی ان حدود کو پار کرتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے، جس کیلئے باقاعدہ سزا مقرر ہے۔
اس ضمن میں حکومت کو ایسے واقعات کو بین الاقوامی سطح پر بھی سنجیدگی سے اٹھانا چاہیے، خاص طور پر برطانیہ کی حکومت کے ساتھ۔ لندن جیسے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف برطانوی قوانین کے تحت کارروائی کے لیے وہاں کی انتظامیہ سے بات کی جانی چاہیے، تاکہ ایسے شرپسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ برطانیہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے کو اس حوالے سے متحرک کرے اور وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر ایسے افراد کا سراغ لگائے جو تحریک انصاف کے مخالفین کے خلاف مسلسل اس قسم کی بدتمیزی میں ملوث ہیں۔ ان عناصر کو قانون کے مطابق سزا دلوانا ضروری ہے تاکہ ایک واضح پیغام جائے کہ ایسی بدتمیزی اور تضحیک ناقابلِ قبول ہے، چاہے وہ کسی بھی جماعت یا شخص کے خلاف کیوں نہ ہو۔
اس کے علاوہ، پاکستانی حکومت کو برطانیہ کے ساتھ باہمی تعاون اور سفارتی سطح پر رابطے کو مزید بہتر بنانا چاہیے تاکہ اس قسم کے مسائل کو مؤثر انداز میں حل کیا جا سکے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے بلکہ پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ اور وقار کو بھی محفوظ رکھیں گے۔