پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔