پاکستان کے بحرانوں اور مسائل کی وجوہات اور ممکنہ حل: ایک تجزیہ

پاکستان کے موجودہ حالات کا 77 سالہ تاریخ کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی تباہی، بربادی، اور موجودہ بحران کئی پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہیں۔ ان عوامل میں سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، ادارہ جاتی کمزوری، بدعنوانی، اور داخلی و خارجی چیلنجز شامل ہیں۔ مزید برآں، ماضی میں کیے گئے فیصلے اور پالیسیاں بھی موجودہ حالات کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔ یہ مسائل کسی ایک ادارے، حکومت یا طبقے کی ناکامی نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں، جو وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتی گئی۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ بحرانوں، اقتدار کی کشمکش، فوجی مداخلتوں، عدالتی تنازعات اور سماجی و سیاسی عدم استحکام سے عبارت ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم محمد علی جناح کی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل نے قیادت میں خلا پیدا کیا۔ آئین سازی میں تاخیر، مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان طاقت کے توازن کا مسئلہ، اور دیگر سیاسی تنازعات نے سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیا۔

1958 میں جنرل ایوب خان نے سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارشل لاء نافذ کیا۔ ان کے دور میں مشرقی پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی ناراضگی نے ملک کو تقسیم کے دہانے پر پہنچا دیا۔ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام نے پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور 1973 کا متفقہ آئین منظور کیا۔ انہوں نے پاک-بھارت جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک کی تعمیر نو کیلئے کئی اہم اقدامات کیے، جنہیں اندرون ملک اور بیرونی سطح پر سراہا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ تاہم، 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نے ایک شدید احتجاجی تحریک کو جنم دیا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔

جنرل ضیاء کے دور میں آئین کو معطل کر کے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے گئے، ریاستی اداروں کو کمزور کیا گیا ۔ ان کے متعدد اقدامات نے معاشرے میں عسکریت پسندی اور شدت پسندی کو فروغ دیا۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان میں شدت پسند گروہوں کو تقویت ملی، جس کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔

ضیاء الحق کی وفات کے بعد جمہوری عمل بحال ہوا، لیکن 1990 کی دہائی سیاسی عدم استحکام، کرپشن کے الزامات، اور خراب معاشی حالات سے بھرپور رہی۔ اس دور میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان محاذ آرائی نے نہ صرف حکومتوں کو غیر مستحکم کیا بلکہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں نے زیادہ تر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کیا۔ بار بار حکومتوں کی تبدیلی، پارلیمنٹ کی معطلی، اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت نے جمہوری عمل کو کمزور کیا اور ملک کو مزید مسائل میں دھکیل دیا۔ اس کے نتیجے میں معیشت بدحالی کا شکار رہی، جبکہ عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہے۔ یہ دہائی جمہوری اقدار کے فروغ کے بجائے سیاسی تقسیم اور غیر یقینی صورتحال کا شکار رہی۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا۔ 9/11 کے بعد، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں ملک بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہوا۔ ان کے دور میں آئین کو بار بار پامال کیا گیا، اور ریاستی ادارے کمزور ہوئے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایسی دہشت گردی میں جھونک دیا گیا، جس کے اثرات سے آج تک نجات حاصل نہیں ہو سکی۔

2018 کے انتخابات سے قبل، دوران، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مبینہ سہولت کاری کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا۔ عمران خان کی قیادت میں حکومت نے احتساب اور اصلاحات کا نعرہ بلند کیا، لیکن ناقص پالیسیوں اور سیاسی پولرائزیشن نے معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کر دی اور ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا، جس کے بعد سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ آج پاکستان ایک مخلوط حکومت کے تحت چل رہا ہے۔ اگرچہ معاشی استحکام کے کچھ مثبت اشارے موجود ہیں، لیکن سیاسی بحران بدستور جاری ہے۔

پاکستان کی معیشت پر سیاسی عدم استحکام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ناقص معاشی پالیسیاں، بدعنوانی، اور غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے، لیکن ان کی شرائط نے معیشت کو مزید بوجھ تلے دبا دیا۔

ریاستی ادارے بدعنوانی اور نااہلی کا شکار رہے، جس سے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی۔ الزام تراشی کا رجحان اور غیر ذمہ داری کا رویہ مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں جمہوری عمل کی کمزوری اور مارشل لا کے ادوار کے درمیان کشمکش ایک دائمی مسئلہ رہی ہے۔ جب بھی جمہوری دور آتا ہے، سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اور میڈیا حکومت کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں، جس کے باعث جمہوریت کو مستحکم ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے حامی صحافیوں، تجزیہ نگاروں، اور کارکنوں کو آئین اور آزادیٔ اظہار کی اہمیت صرف اپوزیشن میں یاد آتی ہے، جبکہ اقتدار میں آتے ہی یہی لوگ مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح، مارشل لا کے نفاذ پر ابتدا میں اس کی حمایت کی جاتی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل نے جمہوریت کو مستحکم ہونے نہیں دیا۔

پاکستان کی موجودہ حالت کیلئےبیرونی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرانا آسان ہے، لیکن اصل کمزوری اندرونی انتشار، الزام تراشی، اور خود احتسابی کے فقدان میں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز، جن میں سیاسی قیادت، عدلیہ، فوج، میڈیا، اور عوام شامل ہیں، مل کر اس بحران سے نکلنے کیلئے کام کریں۔ ذاتی مفادات اور انا کو ترک کرکے، قومی مفاد کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔

یہ وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ٹکراؤ کی سیاست کو ختم کریں، اختلافات اور انا کو ایک طرف رکھیں، اور ایک میز پر بیٹھ کر پاکستان کے مستقبل کیلئےسنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات کریں۔ ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ صرف اتفاق رائے اور مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔

پاکستان ایک عظیم خواب تھا، جس کی بنیاد قربانیوں اور امیدوں پر رکھی گئی تھی۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلیں یا تاریخ کے ایک اور المناک باب کا حصہ بن جائیں۔ آیئے، اجتماعی شعور کے ساتھ ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے آگے بڑھیں اور ثابت کریں کہ ہم شکایت کرنے والی نہیں، عمل کرنے والی قوم ہیں۔

یہ فیصلہ کن وقت ہے۔ اگر آج ہم متحد ہو کر اس ملک کی بقا اور ترقی کیلئےکھڑے نہ ہوئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آیئے، اپنی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کریں اور پاکستان کو ایک خودمختار، مضبوط، اور خوشحال ملک بنائیں۔ فقط باتوں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے۔ ہم سب کو ایک قوم کے طور پر، بغیر کسی تعصب اور تقسیم کے، پاکستان کو اس کی اصل منزل تک پہنچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں