پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پھر جذباتی اور جوشیلے نعروں کے ساتھ اسلام آباد تک لانگ مارچ اور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ “سر پر کفن باندھ کر”، “مارو یا مر جاؤ”، “گولی مارو گے تو گولی ماریں گے”، اور “الجہاد الجہاد” جیسے نعرے اس کے موجودہ بیانیے اور انتشاری عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ بنیادی مطالبہ عمران خان نیازی کی رہائی ہے، دیگر مطالبات میں ‘۲۶ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی، اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔
سیاست میں عوامی جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنا ایک قدیم روایت ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں اور رہنماؤں نے جذبات، خوف، امید، اور فخر جیسے عناصر کو بنیاد بنا کر عوام کو اپنی جانب راغب کیا۔ رومن سلطنت میں “پان اور تماشا” کی حکمت عملی عوام کو ان کے مسائل سے دور رکھنے کے لیے استعمال کی گئی، جبکہ انقلابِ فرانس میں “آزادی، برابری، بھائی چارہ” کے نعرے نے عوام کو ایک مقصد کے تحت متحد کیا۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ نے اس رجحان کو مزید پیچیدہ اور مؤثر بنا دیا ہے، جہاں نعرے اور بیانیے عوامی رائے کو تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
آج کی سیاست میں سادہ لیکن مؤثر نعرے عوام کو جذباتی طور پر متحرک کرنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے پیغامات کو وسیع پیمانے پر پھیلاتی ہیں بلکہ مخالفین کے خلاف جھوٹے یا مبالغہ آمیز بیانیے بھی تخلیق کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، “اپنے ملک کو دوبارہ عظیم بنائیں” اور “ہم سو دنوں میں کرپشن ختم کریں گے” جیسے دعوے حب الوطنی اور فوری مسائل کے حل کا تاثر دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سیاسی مہمات کے دوران ایسے نعروں کا استعمال کیا جنہوں نے ووٹرز کے جذبات اور نظریات کو ابھارا۔ “امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں”، “سب سے پہلے امریکہ”، “دیوار بنائیں”، اور “اسے جیل میں ڈالو” جیسے متنازع لیکن مؤثر نعرے اس کی مثالیں ہیں۔
پاکستانی سیاست میں بھی نعروں اور بیانیے کی اہمیت ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ نے “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ” اور “مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ” جیسے نعروں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی۔ قیام کے بعد مختلف ادوار میں سیاسی جماعتوں نے “روٹی، کپڑا، مکان”، “نظام مصطفیٰ”، “سب سے پہلے پاکستان”، “ قرض اتارو، ملک سنوارو” اور “ووٹ کو عزت دو” جیسے نعروں کے ذریعے اپنی حمایت مضبوط کی۔ ان نعروں کا مقصد اس وقت کے حالات کے مطابق عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمانی تھا، اور انہیں عوام کی پذیرائی حاصل ہوئی۔
پی ٹی آئی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ۱۹۹۶ میں اپنے قیام سے لے کر آج تک، یہ جماعت نعروں اور بیانیے کے ذریعے عوام کو متحرک کرتی رہی ہے۔ ابتدا میں اس جماعت کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کی سرپرستی حاصل رہی، جبکہ بعد میں جنرل شجاع پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل عاصف غفور، جنرل فیض حمید، اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے دلکش نعرے تخلیق کیے گئے۔ پی ٹی آئی نے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، اندرون اور بیرون ملک باقاعدہ سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں، اور لاکھوں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے جذبات ابھارنے اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئےجعلی یا گمراہ کن کہانیاں تخلیق کیں۔
“انصاف، انسانیت، خودداری” اور “دو نہیں، ایک پاکستان” کے نعروں کے ساتھ وجود میں آنے والی پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے “نیا پاکستان”، “کرپشن کا خاتمہ”، اور “چوروں کا احتساب” جیسے دعوے کیے۔ حکومت میں آنے کے بعد، “تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے”، “مدینہ کی ریاست”، “پچاس لاکھ گھر”، اور “ایک کروڑ نوکریاں” جیسے وعدے کیے۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد، “امریکی سازش”، “حقیقی آزادی”، اور “امپورٹڈ حکومت نامنظور” جیسے بیانیے اپنائے گئے۔ غور کریں تو اس پارٹی کے بیشتر نعرے زیادہ تر خالی اور غیر حقیقی ہوتے ہیں، جو منفی سیاست، انتشار، اور معاشرتی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔
عمران خان کی سیاست ہمیشہ عمل سے زیادہ بیانیے اور نعروں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کا شمار ہر لحاظ سے پاکستان کی ناکام ترین حکومتوں میں ہوتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے بھی انہیں معاشی مسائل اور گورننس کی کمزوریوں کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپریل ۲۰۲۲ میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی کے بعد انہوں نے امریکہ مخالف بیانیہ اپنایا اور اپنی برطرفی کو غیر ملکی سازش قرار دیا۔ جلسوں میں سائفر لہرا کر امریکہ کے خلاف “ایبسلوٹلی ناٹ” اور “ہم کوئی غلام ہیں” جیسے نعرے لگائے۔ بعد میں فوج اور عدلیہ پر الزامات لگائے اور بیانیے بنائے، تاہم وقت کے ساتھ ان کا بیانیہ بدلتا رہا۔
عمران خان کے بیانیے میں بار بار تبدیلی ان کی سیاسی شخصیت کو واضح کرتی ہے۔ یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پی ٹی آئی کا کوئی مستقل سیاسی نظریہ نہیں، بلکہ ان کی سیاست عمران خان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ان کے نعروں کا محور جذباتی اپیل یا انتشار کی دعوت ہوتا ہے۔ وہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کر سکتے تھے، جو معاشرے کیلئے ایک مثبت قدم ہو سکتا تھا، لیکن بد قسمتی سے ان کی سیاست منفی پہلوؤں سے جڑی رہی۔
پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوال اہم ہے کہ کیا یہ نعرے ملک میں حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں یا صرف سیاسی انتشار پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں؟ عوام کو سوچنا ہوگا کہ ایسے جذباتی نعروں کا مقصد کیا ہے اور یہ ان کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں یا نہیں۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف جذباتی نعروں سے نہ تو مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی عوامی فلاح ممکن ہے۔
عوام کو ایسی سیاست کی حمایت سے پہلے ان نعروں کی حقیقت اور ان کے مقاصد کو سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ “مارو یا مر جاؤ” اور “الجہاد الجہاد” کے نعرے لگاتے ہیں، ان کے اپنے بچے ان تحریکوں میں شریک ہوں گے یا نہیں۔