ڈونلڈ ٹرمپ: تحریک انصاف زیادہ اُمیدیں نہ لگائے!

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہو گئے، وہ امریکا کے 47 ویں صدر منتخب ہوئے ہیں اور دوسری مرتبہ عہدہ صدارت پر فائز ہو رہے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب میں 538 میں سے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 277 اور ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس نے 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔ کسی بھی امیدوار کو جیت کے لیے کل 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔7 سوئنگ ریاستوں کے 93 الیکٹورل ووٹس نے ٹرمپ کی جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔سوئنگ ریاستوں میں ایری زونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔امریکا کی 50 ریاستوں اور ڈی سی میں 538 الیکٹورل کالجز ہیں۔کیلیفورنیا 54 الیکٹورل کالجز کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ امریکی انتخابی نظام یا الیکٹورل سسٹم مجموعی ووٹوں کی تعداد کی بجائے الیکٹورل کالج سسٹم پر منحصر ہے جس میں کل 538 ووٹ ہیں جنھیں تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بانٹا گیا ہے۔یعنی امریکہ میں جب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ اپنے من پسند امیدوار کے لیے براہ راست ووٹ نہیں ڈال رہے ہوتے۔تکنیکی لحاظ سے وہ ”الیکٹر“ کو منتخب کرتے ہیں جوکہ الیکٹورل کالج کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ الیکٹر پھر صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج ریاست سے ریاست تک کا نظام ہے جو نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں الیکٹرز کہتے ہیں۔ ان الیکٹرز کا انتخاب ہر ریاست میں الیکشن کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ امریکی آئین ساز چاہتے تھے کہ قومی ووٹ کے بجائے صدر علاقائی انتخابات جیتیں تاکہ وہ ملک کے مختلف مفادات کی نمائندگی کر سکیں۔ دو کے علاوہ تمام ریاستوں کے سارے الیکٹر جیتنے والے امیدوار کے حق میں جاتے ہیں، چاہے جیت کا مارجن کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔ یہ تعداد ہمیشہ اتنی ہی ہوتی ہے۔اس تعداد میں ایوان نمائندگان کے 435 ممبران، ایک سو سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے تین ارکان شامل ہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اور اب ڈونلڈ ٹرمپ نے 277ووٹ حاصل کر لیے ہیں، اور وہ سپر پاور امریکا کے صدر بھی بن چکے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پچھلے کالم میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اس وقت پاکستان کے عوام کو بھی اس الیکشن کے نتائج کا بے صبری سے انتظار ہے۔کیوں کہ یہاں تحریک انصاف ڈونلڈکو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے، کیوںکہ وہ سمجھتی ہے، کہ پاکستان میں اُس پر لگنے والی پابندیوں اور زیادتیوں کا اگر کوئی مداوا کر سکتا ہے تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہے۔ تحریک انصاف والے شاید ایسا اس لیے بھی سوچتے ہیں کیوں کہ 2018ءمیں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اُس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تھی اور اس جماعت کے کارکن دونوں لیڈران یعنی عمران خان اور ٹرمپ میں بھی خاصی مشابہت پر یقین رکھتے ہیں۔ ا س لیے تحریک انصاف والے اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔ اور پھر سونے پر سہاگہ تو جناب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے ڈالا انہوں نے رواںسال کے وسط میں یہ بات کہی تھی کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں۔انہوں نے اُس وقت مزید کہا تھا کہ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی، اگر آپ اپنے گڑھ میں اپنے گھر میں ہار جائیں اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں، گمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔اس لیے جس کا مینڈیٹ ہے اُسے دے دینا چاہیے کہ ورنہ تحریک انصاف کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام یہی کریں گے!!! اب یہ باتیں اُنہوں نے نہ جانے کس Contextمیں کہیں تھیں مگر کچھ نہ کچھ تو پس پردہ کہانی چل رہی ہو گی۔ لیکن بادی النظر میں امریکا میں مضبوط پالیسیاں چلتی ہیں، امریکی مفادات اگر عمران خان کے ساتھ جڑے ہوئے تو ضرور امریکی حکومت مدد کرے گی، البتہ اگر مفادات نہ جڑے ہوئے تو وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں ماتھے پر ہوں گے۔ اور پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے اپنے پہلے اقتدار میں پاکستان کو دوغلا کہا تھااور کہا تھا کہ پاکستان میں ہم نے 35ارب ڈالر جھونک دیے۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کرنا تھا تو عمران خان وائیٹ ہاﺅس میں موجود تھے۔ اور ”دوستانہ “ ماحول میں بات چیت ہو رہی تھی۔
لہٰذاہمیں یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد وہ کسی ملک کے لیے اپنی پالیسیاں تبدیل کرتا ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد وہ اسرائیل کو زبردستی غزہ، لبنان یا ایران پر جارحیت سے روکے گا ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اُسے قائل کرنے کی کوشش ضرور کرے گا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے وغیرہ ۔ ہاں ! ٹرمپ کی یہ خاص بات بھی ہے کہ یہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ کاروبار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اور ویسے بھی آپ پاکستان امریکا کی 75سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں، ہر دفعہ امریکی الیکشن کے بعد پاکستان کے لیے نئی سے نئی پالیسیاں ہی بنیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے لیے ڈیموکریٹک بہتر ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے لیے ری پبلکن۔ لیکن تاریخ پڑھ لیں ہمارے ساتھ تو دونوں کے ادوار میں ہی” ظلم“ ہوتا رہا، جیسے پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو بھی امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو صدور جان ایف کینیڈی (1961ءتا 1963ء) اور (لنڈن بی جانسن) کی مکمل حمایت حاصل رہی اور پاکستان کو امریکا کے عالمی فوجی اتحادوں سیٹو اور سینٹو کا سب سے اہم رکن بنانے پر ایوب خان ان امریکی ڈیمو کریٹ صدور کی آنکھوں کا تارا تھے۔پھر 4 اپریل 1979ءکو جب منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر جمی کارٹر (1977ءتا 1981ء) برسر اقتدار تھے۔یہ جمی کارٹر ہی تھے جنہوں نے جنرل ضیاءکا امریکا میں پرتپاک استقبال کرکے اُنہیں روس امریکا جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا اور جہادی تیار کروائے۔ جنرل ضیاءالحق کے بعد پاکستان میں 1988ءسے 1999ءتک ایک جمہوری وقفہ میسر آیا۔اس دوران امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک اور صدر بل کلنٹن دو مرتبہ منتخب ہوئے اور وہ 1993ءسے 2001ءتک اقتدار میں رہے۔ اس عرصے میں کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل نہ کر سکی۔ تین جمہوری حکومتیں صدر پاکستان کے حکم پر ختم کی گئیں اور ایک دوسرے فوجی آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک اور صدر باراک اوباما ( 2009 ءتا 2017ء) کے دور میں پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نہ صرف اپنے عہدے سے برطرف ہوئے بلکہ وہ پرائم منسٹر ہاﺅس سے جیل منتقل ہو ئے۔
آپ ری پبلکن صدور کو دیکھ لیں، یعنی امریکی ری پبلکن صدر جارج بش سینئر (1989ءتا 1993ئ)کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کر دی گئی اور ایک اور ری پبلکن صدر جارج بش سینئر کے بیٹے جارج ڈبلیو بش جونیئر ( 2001 تا 2009ء) کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والے ان افسوس ناک اور اندوہناک واقعات کے تناظر میں ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو امریکی ری پبلکن پارٹی سے کوئی اچھی توقعات نہ ہوں لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدور کے ادوار میں جمہوری اور سیاسی قوتوں کو زیادہ نقصان ہوا۔
بہرحال حالیہ الیکشن میں اب جبکہ ری پبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوچکے ہیں تو یہ کامیابی پاکستان میں کسی مخصوص جماعت کے لیے بہتر ثابت ہوگی؟ اس بارے میں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کیوں کہ اس کا سارا دارومدار اور انحصار اس پر ہے کہ حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔ اگر امریکا کو عمران خان کی اس خطے میں ضرورت ہوئی تو وہ ضرور اُسے بچائے گا۔ لیکن اگر موجودہ حکومت ہی امریکا کے سارے کام کردے تو پھر امریکا کیوں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے برخلاف کسی مخصوص سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرے گا؟
بہرکیف امریکا کے ہر نئے الیکشن کے بعد دنیا مزید اُلجھ جاتی ہے، جیسا سوچا ہوتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے،یہ صرف ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ آرمی چیف بدلنے سے یہ ہوگا، چیف جسٹس کے بدلنے سے یہ ہوگا، یا نیا چیف الیکشن کمشنر ہمارے فائدے کا ہوگا وغیرہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ ہم امریکا سے فائدے کیسے لے سکتے ہیں، کیوں کہ تاریخ میں جب جب امریکا سے فائدہ لینے کے مواقعے سامنے آتے رہے، ہم نے اپنے ملک کے ساتھ کیا کیا؟ سب کو یاد ہوگا کہ جب پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان ثالثی میں اہم کردار ادا کیا تھا تو اُس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ وہ فکرمند تھے کہ بدلے میں پاکستان ناجانے کس چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے، لیکن وہ اس بات پر حیران ہوئے کہ یہاں کے سیاستدانوں نے صرف ذاتی مفادات کی باتیں کیں۔ خیر یہ تو ایک لمبی فہرست ہے، مگر ہم بطور قوم جب قوم ہی نہیں ہیں تو کیسے شکوے اور شکایات؟ اس لیے ہمیں فضول کی اُمیدیں چھوڑ دینی چاہیے ، اور اپنی حکمت عملیوں پر غور کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں غلطیاں ہوئیں، انہیں سدھارنا چاہیے اور وقت کے جلادوں کا مقابلہ کرنا چاہیے!

اپنا تبصرہ لکھیں