چلئے مان لیتے ہیں ہم نے معاشی بحالی کی منزلِ مراد پا لی ہے۔ رجیم چینج کے بعد پاکستان ایشین ٹائیگر چیمپئن شپ جیت چکا ہے۔ مگر وزیر خزانہ کو کون سمجھائے‘ جو فرماتے ہیں اب کوئی فنانشل ادارے پاکستان کا قرض رول اوور یا ری شیڈولنگ کرنے اور ڈیپازٹ جمع کرانے کو تیار نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں امن وامان واپس آ گیا‘ سارے شر پسند دھر لیے گئے۔ دو دن پہلے کی وڈیوز ثابت کرتی ہیں کہ بڑی کامیابی سے کوئٹہ میں بلوچستان حکومت نے طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے ذریعے پی ٹی آئی کا جلسہ پلٹا دیا۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے کہا تھا: بلوچستان کے شر پسند ایک ایس ایچ او کی مار ہیں‘ اس بیان کو بھی درست کہہ لیں مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ شہریوں میں شر پسندی کے پروانے بانٹ کر اصل دہشت گردی قابو میں آ گئی کیا؟ فیس بُک‘ یوٹیوب‘ ٹویٹر اکائونٹس اور سماجی رابطے کے سارے ذرائع بند کرنے سے فرضی حکومت اور جعلی لیڈرشپ کو عوام سے مقبولیت کی سند مل گئی کیا؟ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دالان میں قرضے کی ماری ہوئی قوم کے 12 کروڑ روپے سے اُردو میں سنگِ مر مر کی سلوں پر انسانی حقوق کے قبرستانی کتبے لگانے سے ملک میں رول آف لاء آ گیا کیا؟ وہ جس نے لائیو کیمرے پر کہا: تمہاری درخواست ارجنٹ ہے‘ مقدمہ جلد سننے کی وجوہات معقول ہیں لیکن میں کیس فکس کروں یا نہ کروں‘ میری مرضی۔ میں جس کیس کو چاہوں اُسے سماعت کے لیے لگائوں گا اور جسے چاہوں نہ لگائوں۔ پھر فاضل وکلا سے مخاطب ہو کر بولا: آپ کے ہاتھ پائوں کٹے ہوئے ہیں کیا؟
اتنی طاقت کے باوجود بھی وہ بعد از ریٹائرمنٹ خالی ہاتھ مظاہرین کے پاسپورٹ منسوخ کرنے‘ شہریت معطل کرانے‘ شناختی کارڈ بلاک کرنے اور انگلینڈ میں موجود بچوں کے پاکستانی رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپے‘ توڑ پھوڑ اور گرفتاریاں کروانے پر مجبور کیوں ہوا؟ وہ UK میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے پاکستانیوں کے خلاف اُن کی اپنی ریاست کو کیوں استعمال کر رہا ہے؟ اسے بھی سچ جان لیں کہ آلِ شریف کے چالیس سالہ اقتدار میں یوگنڈا‘ نمیبیا نہیں بلکہ نیویارک اور نیوزی لینڈ سے آئے ہوئے مریض پنجاب کے ہائی ٹیک ہسپتالوں میں علاج کرانے کے لیے لائنوں میں کھڑے ہیں۔ تو پھر سموگ کی آگ تاپنے اور پھانکنے کے لیے 12 کروڑ لوگوں کو اکیلا چھوڑ کر پنجاب کی وزیراعلیٰ اپنے گلے کا علاج کروانے کے لیے سوئٹزرلینڈ کیوں جا پہنچیں؟ کسان کے لیے چاول کی پرائس‘ گندم کی قیمت ٹکے ٹوکری کر دی گئی۔ یوں لگتا ہے ہماری زراعت کو جان بوجھ کر بعض عرب شہزادوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے وعدوں کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ٹیوب ویل کے بجائے بند صنعتی کارخانوں‘ پاور لومز اور بیمار انڈسٹریل یونٹس کی بجلی فی یونٹ سستی کی گئی۔
چلئے یوں کہہ لیتے ہیں‘ اگر ملک میں سب اچھا ہے اور حکومت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے کی سکت رکھتی ہے تو پھر ہماری وزارتِ خارجہ نے 47ویں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن میں فتح کے موقع پر مبارک باد ان لفظوں میں کیوں بھیجی:
The Foreign Office on Thursday emphasised that ‘non-interferance’ should be the cornerstone of Pakistan-United States ties۔ ذرا سا پیچھے جائیں‘ جب ڈونلڈ لُو کے ذریعے رجیم چینج کروانے والے سائفر کی آمد کا انکشاف ہوا تھا۔ اس سائفر پر دو عدد حکومتوں میں چار بار نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگز ہوئیں۔ اسی کے نتیجے میں عمران خان کی چلتی ہوئی حکومت کو ضمیروں کی منڈی لگا کر گھر بھجوایا گیا۔ یقینا تب پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اچھی تھی۔ اتنی ہی اچھی‘ جتنی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مداخلت ہوئی۔ آپ اسے تاریخ کا المیہ کہیے‘ ان دونوں بار مداخلت کے بینی فشری ایک ہی ٹولی تھی۔
آئیے فلیش بیک کر کے دیکھیں تاریخ مداخلت کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔ پاکستان میں امریکہ بہادر کی مداخلت کی تاریخ کا آغاز تب ہوا جب بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم آنکھیں موند کر اللہ کو پیارے ہوئے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تنہا رہ گئے۔ اُن کے اردگرد تاجِ برطانیہ کے زمانے کے امریکی مفادات کے محافظ سویلین اور نان سویلین گدھ منڈلانے لگے۔ جن میں انتہائی شاطر اور بے رحم بابو اور بابے‘ دونوں شامل تھے۔ پاکستانی تاریخ کے اس اولین مافیا کے ہاتھ شہید ملت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔11 ستمبر 1948ء کے دن قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان نہ جمہوریہ رہ سکا نہ اسلامی اور نہ ہی ریپبلک۔ لیاقت علی خان نے امریکی مداخلت کے خلاف تین گستاخیاں کی تھیں: پہلی گستاخی امریکہ کو پاکستان کی سرزمین پر امریکی اڈے دینے کے سوال پر Absolutely Not جیسا جواب تھا۔ دوسری گستاخی: امریکہ کے بجائے روس سے سٹرٹیجک الائنس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب درہ واخان کے ذریعے روس اور پاکستان کا بارڈر ملتا تھا۔ امریکہ بہادر کی مداخلت کی تیسری Rejection پڑوسی برادر مسلم ملک کے خلاف زمینی جاسوسی کی سہولت کاری سے انکار تھا۔ جس کے ذریعے امریکہ‘ ایران میں تیل کی تنصیبات کو اُڑانا چاہتا تھا کیونکہ تیل نکالنے والی کمپنی آرامکو‘ امریکہ کا عربین گلف اور پرشین گلف میں سب سے بڑا معاشی مفاد بن چکا تھا۔ شہید لیاقت علی خان راہی ملکِ عدم ہوئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی بابو اور بابے امریکی مداخلت کاری کے سامنے ہم وطنوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے لیٹ گئے۔
ان دنوں پی ٹی آئی میں اختلافات‘ تقسیم اور کمزوری پر بیانیہ بنانے کے لیے نئی بھرتیاں ہوئی ہیں۔ لوگ اس اتالیق مافیا کو خوب پہچانتے ہیں‘ ویسے بھی کوئی رہ تو نہیں گیا؟ اُسے بھی بھرتی کر لو۔ قوم کے دل کی آواز رُول آف لاء اور حقیقی آزادی ہے۔ اس راہ پر کوئی فارورڈ بلاک‘ ق لیگ یا پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا روڈ بلاک نہیں لگ سکتا۔ کومل جوئیہ نے کروڑوں لوگوں کے دلوں کی ترجمانی ان لفظوں میں کی:
یہ جنگ ہار نہ جائے سپاہ قید میں ہے
غلام تخت پہ قابض ہیں شاہ قید میں ہے
پرندے اس لیے زنداں کے گرد گھومتے ہیں
کہ ان کی ڈار کا اک بے گناہ قید میں ہے
ترے حقوق کی کوئی نہیں ضمانت اب
غریبِ شہر ترا خیر خواہ قید میں ہے
سوال کون اُٹھائے گا منصفوں پہ حضور
بری ہوئے سبھی مجرم‘ گواہ قید میں ہے
یہ عرش و فرش کو اک دن ہلائے گی کوملؔ
درونِ دل جو مری سرد آہ قید میں ہے