اخبار میں ملازمت کے دنوں میں دفتر کی طرف سے گھر میں روزانہ پانچ اخبار آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو اخبارات عام طور پہ سولہ سے بیس صفحات کے ہوتے تھے اور انگریزی اخبارات چوبیس یا اس سے زائد صفحات پہ مشتمل ہوتے تھے۔ اخبار کا سائز بھی آج کل کے اخبارات سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ چوڑا ہوتا تھا۔ یعنی آج کے اخبارات کے مقابلے میں اس وقت کا اخبار تقریباً ڈیڑھ گُنا زیادہ وزنی ہوتا تھا۔ میں نے اپنے لئے گھر میں تین انگریزی اور دو اردو کے اخبار لگوا رکھے تھے۔ مہینے بھر میں اتنے اخبارات جمع ہو جاتے تھے کہ انہیں رکھنے کی جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ نتیجتاً ہر دوسرے مہینے ان کو ردی میں بیچنا پڑتا تھا۔ شروع کے کچھ مہینے تو گلی میں آنے والے چھان بورا اور ردی والا یہ اخبار لے جاتا رہا لیکن بعد میں اس ردی کا کچھ اور انتظام کر لیا گیا۔ اس کا ذکر آگے کرتا ہوں۔
دفتر سے واپسی عموماً رات ایک دو بجے تک ہوتی تھی۔ اکثر بھوک کی وجہ سے برا حال ہوتا تھا۔ گو یہ یقین ہوتا تھا کہ امی نے روٹی پکا کے رکھی ہوگی، پھر بھی کبھی کبھی موٹر سائیکل کا رخ صدر بازار میں ماجے (معراج) کباب والے کی دکان کی طرف ہو جاتا اور وہاں بیٹھ کر سیخ کباب اور تکہ کھانے کی عیاشی کر لی جاتی۔ اور اس دوران معراج اور اس کے بیٹوں سے ملکی سیاست اور محلے کے تازہ واقعات پہ سیر حاصل گفتگو بھی ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ معراج نے کسی گاہک کو کباب پیک کرتے ہوئے ردی اخبار کی کمی کا ذکر کیا تو میں نے اسے اپنے گھر میں موجود ردی کا بتایا۔ وہ دوسرے ہی دن اپنی سوزوکی پک اپ لے کے میرے گھر ردی لینے آگئے۔ ردی کا ڈھیر دیکھ کر خاص طور پہ انگریزی اخبار کی ردی دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور ساری ردی اٹھا کے لے گئے۔ دو چار دن بعد جب میں اس کے پاس کھانے کے لئے رکا تو بعد میں ادائیگی کرتے وقت انہوں نے پیسے نہیں لئے۔ بس اتنا کہا کہ بعد میں حساب کر لیں گے۔
اس کے بعد وہ ہر مہینے دو مہینے بعد ردی لینے آجاتے۔ میں نے کبھی ان سے ردی کا حساب نہیں مانگا وہ خود ہی اپنے طور پہ حساب رکھتے تھے۔ میں ہفتے میں ایک آدھ دفعہ ان کے ہاں کباب کھانے کے لئے رک جاتا۔ کبھی کبھار میرے ساتھ دفتر کا کوئی ساتھی یا محلے کا کوئی دوست بھی ہوتا۔ اس طرح چار پانچ دفعہ کھانے کے بعد معراج مجھے بتا دیتے کہ اب آپ کا میرا حساب پورا ہوگیا یا یہ کہ اب میرے ذمے اتنے پیسے ہو گئے ہیں۔ ایک دفعہ معراج نے اسی طرح ادائیگی کے وقت حساب لگاتے ہوئے کہا کہ اتنے کی ردی تھی اور اتنے آپ کھا چکے ہیں تو میرے ہمکار نے بھی سن لیا۔ بعد میں وہ مذاقاً کہنے لگا کہ یار تم ہمیں ردی کے کباب کھلاتے ہو! اس طرح میرے قریبی دفتری ساتھیوں میں یہ ردی کے کباب مشہور ہو گئے۔ کبھی کبھی باقاعدہ فرمائش کی جاتی کہ آج ردی کے کباب کھانے چلتے ہیں۔ گرمی کا موسم ہو، یا شدید سردی ہو، برسات ہو یا گہری دھند، ہم اکثر معراج کے ریڑھی کے گرد ردی کے کباب کھاتے پائے جاتے۔ دھند کی دبیز تہہ میں شدید سردی کی وجہ سے معراج دہکتے کوئلوں پہ اپنے لئے چائے بناتے تو ہمیں بھی چائے ضرور پلاتے۔
سردی کے موسم میں دھند، لاہور اور گرد و نواح کے علاقوں میں ایک موسمیاتی مظہر ہے۔ مگر گذشتہ دس پندرہ سالوں سے پنجاب کے کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو جلا کر تلف کرنے کے طریقۂ کار نے دھند کا یہ خوبصورت شاعرانہ موسم،سموگ جیسی ایک بدصورت عفریت میں بدل دیا ہے۔ یہ سموگ دو ماہ سے زائد عرصہ تک یہاں کی فضأ میں معلق رہتا ہے اور نتیجتاً کروڑوں لوگ، سانس، گلے اور پھیپھڑوں کے خطرناک امراض میں مبتلأ ہو جاتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اس کے تدارک کے لئے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پہ انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
فروری میں وجود میں آنے والی پنجاب حکومت نے جب اپنی ترجیحات ظاہر کیں تو لاہور اور صوبے کے دیگر شہروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور سموگ کے خلاف سخت ترین اقدامات اور ذمہ داروں کے خلاف بھاری جرمانوں اور سزاؤں کا اعلان بھی کیا گیا۔ حکومت کے لب ولہجے سے پہلی دفعہ امید بندھی تھی کہ اس دفعہ یقیناً سموگ کا جن قابو میں آجائے گا۔ حکومت کی طرف سے بھی گاہے بگاہے اکتوبر کے مہینے سے شروع ہونے والے سموگ کے خلاف اشتہاری مہم اور تمام بابو لوگ کو ذمہ داران کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے کے احکامات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس دفعہ حکومت واقعی اس مسئلے کے حل کے لئے بہت سنجیدہ ہے۔ امید یہی تھی کہ اس دفعہ صورت حال کافی بہتر ہوگی۔ لیکن حال یہ ہے کہ اس دفعہ لاہور کا ائیر کوالٹی انڈکس پانچ سو سے بھی اوپر جا چکا ہے اور پچھلے کئی دنوں سے لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست ہے۔ اسی سے ملتی جلتی صورت حال پنجاب کے دیگر شہروں کی بھی ہے۔
آبادی میں بے ہنگم اضافہ، جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، زہریلا دھواں اگلتی گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کی بہتات، اور اس کے علاوہ غیر معیاری ایندھن سے چلنے والے کارخانے اور فیکٹریوں کی وجہ سے پورے صوبے میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔اس پہ مستزاد فصلوں کی باقیات جلا کر تلف کرنے کے طریقے سے پیدا ہونے والا دھوئیں سے بننے والا سموگ شہریوں کی صحت پر مہلک اثرات چھوڑنے کا موجب ہے۔ مزید برآں آلودگی کا یہ زہر پاکستان کی معاشی دگرگوں حالت کو اور کمزور کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے خوبصورت ملک میں انہی وجوہات کی بنا پہ غیر ملکی سیاحت بھی رو بہ زوال ہے۔
شنید ہے کہ ہماری پنجاب حکومت نے اپنی رعایا پہ کوڑا ٹیکس عائد کر دیاہے، جس کی رو سے ہر مکان کے رقبے کے لحاظ سے مالکان سے کوڑا ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہن ابھی تک ہماری پلاسٹک چہرہ حکومت آلودگی و سموگ کے جن کو تمام تر دعوؤں کے باوجود قابو کرنے بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کئے گئے تمام اقدامات کاسمیٹک آپریشن ثابت ہوئے ہیں۔ یاد سلسلے میں کئے گئے تمام اقدامات زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کوڑا ٹیکس بھی ہماری حکومت اور بابو لوگ کے اللے تللوں کے لئے ایک اضافی ترغیب ہے۔ بالکل ردی کے کباب کی طرح!