مانا کہ شہر کے لوگ ظالم تھے اور اہلِ کارواں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن یہ بھی ہے کہ ہمیں مرنے کا شوق بھی کچھ زیادہ تھا۔ کہا تھا‘ جس انداز سے بھی کہہ سکتے تھے‘ کہ یہ باربار کی چڑھائیاں بے سود کی تدبیریں ہیں۔ امتحان تو زندگی کا حصہ ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے امتحانوں سے بغل گیر ہو جانا یہ کہاں کی دانش مندی ہے؟ اوربیٹھے بٹھائے بغیر خاطرخواہ رائے لیے جنگ و جدل کااعلان کر دینا یہ کوئی جرنیلی کیفیت تو نہیں بنتی۔
ویسے بھی یہ کوئی جنگ و جدل کی صورتحال نہ تھی۔ آواز اٹھانی اورہاتھ پیر مارنا یہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنا تو دیکھنا لازم ہونا چاہیے کہ ممکنات کی حدود کیا ہیں۔ یہ ڈی چوک کا خبط پتا نہیں ہماری سیاسی پارٹیوں پر کیا پڑا ہوا ہے۔ ڈی چوک پر اپنے آپ کو دھکیلنا تو اگلوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ پیچھے کنٹینر‘ سائیڈوں پر پولیس کے جتھے ‘ وہاں تک پہنچنا تو اپنے آپ کو بے یارومددگار کرنا ہے۔ شہرکے رکھوالوں نے تو شہر کو خود محصورکرلیا تھا۔ محصور کرنے کیلئے کسی تاتاری فوج کی ضرورت نہ تھی کیونکہ محافظانِ شہر اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ چڑھائی کرنی ہی تھی تو پڑاؤ شہر کے باہر ہوتا۔ چھبیس نمبر چونگی پر بیٹھ جاتے‘ سڑکیں ویسے بند تھیں اور جیسے عرض کیا محافظان ِ شہر گھبرائے ہوئے تھے۔ محصورصرف دارالحکومت نہ تھا بلکہ محافظانِ امن کی اتنی کمال کی حکمت عملی تھی کہ آدھے سے زیادہ پنجاب بند ہو گیا تھا۔ ایسے میں آپ کو کچھ زیادہ کرنا نہ تھا‘ دارالحکومت کے تھوڑا باہر بیٹھتے تاکہ محافظانِ امن کو اپنی بے وقوفی کا خود احساس ہونے لگتا۔ پٹرول کی کمی محسوس کی جا رہی تھی‘ مارکیٹوں میں سبزیوں وغیرہ کی کمی پڑ رہی تھی۔کس حکیم نے آپ سے اصرار کیا کہ ڈی چوک کی طرف اپنے آپ کو ضرور دھکیلنا ہے؟
پھر مقصد بھی توواضح ہونا چاہیے تھا۔ڈی چوک بذاتِ خود ایک فضول سی جگہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ نے بلیوایریابند کر دیا‘ تواُس سے کیا حاصل؟یا تو یہ چیئرمین ماؤ یا فیڈل کاسترو کی فوج ہوتی جس نے ڈی چوک پہنچ کر کہیں آگے کی حکمت عملی اپنانی تھی پھر تو کوئی بات تھی۔ دھرنا کچھ وقت کیلئے ہو بھی جاتا ‘اقتدار کے بُرج نے تو گرنا نہیں تھا۔ اڈیالہ کی طرف جاتی سڑک نے کشادہ نہیں ہونا تھا۔ توپھر آپ حاصل کیا کرنے چلے تھے؟ چڑھائی کی تیاری میں لفظی گولہ باری اتنی کی گئی کہ شرکائے کارواں کے جذبات یقینی طور پر اُبھرنے تھے۔ جب کہا جائے کہ آخری راؤنڈ ہے پھر شرکائے کارواں کی تو کوئی غلطی نہیں کہ وہ سمجھیں کہ آخری دم تک لڑنا ہے اوربغیر مقصد حاصل کیے واپس نہیں جانا۔
چاہے کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے شرکائے کارواں مصمم ارادہ باندھ کر آئے تھے اورہرچیز کیلئے تیار تھے۔ اُن کی بے تابی کی وجہ تو یہ تھی کہ اُنہیں ڈی چوک میں لاکر بے مقصد کھڑا کیوں کر دیا ہے۔ کے پی سے آئے ہوئے لوگ تو بجا طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ کنٹینروں کی آخری دیوا رسے اُنہیں آگے جانا ہے۔ جب اُنہیں کچھ ہدایت نہ دی گئی اُن کی بے تابی بڑھتی گئی اور جیسا کہ رپورٹ ہوا ہے اُنہوں نے اپنا غصہ علی امین گنڈاپور پر بھی نکالا۔ وہ مجمعے سے نکلنا کچھ دیر پہلے چاہتا تھا لیکن وہاں موجود لوگ انہیں جانے نہیں دے رہے تھے۔ لیڈر نما لوگ بھی تب دو تین ہی رہ گئے تھے۔ اور وہ بھی اُس وقت کسی قائدانہ صلاحیت دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ یعنی تمام دشواریوں کے باوجود مصمم ارادے سے لیس کاروانِ احتجاج اپنے زور پر وہاں پہنچ تو گیا تھا لیکن پھر اُسے لیڈ کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ کنٹینروں کے پار ہی لیڈ کر کے لے جاتا۔ جب حالات بگڑ رہے تھے تواُس لمحے کا تقاضا یہ تھا کہ کارواں کے بچاؤ کا سوچا جائے اور اُسے پیچھے کی طرف جانے کو کہا جائے۔ لیکن اُس وقت علی امین گنڈاپور کسی جرنیلی کے قابل نہیں رہے تھے۔ اوراُن کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دیا جائے تو یہی ہوگا کہ بڑھکیں بیکار کی اوربہت زیادہ اورہوش مند ی کی حکمتِ عملی خاصی کم۔ ویسے بھی کاروانِ جدوجہد کو سوچنا چاہیے کہ کسی صوبے کے چیف منسٹر کو یہ بات جچتی ہے کہ حکمرانی کے فرائض پر توجہ دینے کی بجائے ہر دو یا تین ہفتے بعد دارالحکومت پر چڑھائی کی باتیں کررہا ہو؟ چلیں چونکہ حکم کہیں اور سے آ رہا تھا اوراُس کی بجاآوری لازم تھی‘ کے پی کی حدود سے کارواں تو نکل آیا لیکن پھر دیکھنا چاہیے تھا کہ کارواں کو کس حد تک لے جاناہے۔ سنگجانی جاتے بہت کچھ بچ جاتا‘ شاید عزتِ سادات بھی رہ جاتی۔ لیکن ڈی چوک کے خبط نے مار دیا۔
پھبتی کَسنے والے تو بہت ہیں لیکن ان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اٹک پل عبور کرتے ہوئے شرکائے کارواں تمام تر جبر اور دشواریوں کے باوجود اسلام آباد پہنچ تو گئے۔ احتجاج کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی چھوٹی بات نہ تھی۔ دیگرکتنی سیاسی پارٹیاں ہیں جن کے ورکروں میں اتنی ہمت اور استقامت ہو؟ لیکن امرائے کارواں کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ بے لوث اور باہمت کارکنان کا امتحان ایک حد تک ہی ہو۔ باربار کی فضول ترکیبوں سے حوصلے پست پڑجاتے ہیں‘ وہ جو انگریزی کا لفظ ہے لوگ ڈِس ایلوژن (disillusion) ہو جاتے ہیں۔ کتنے بے لوث جتھے اُس فنکارنما لیڈر طاہرالقادری کے تھے؟ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں پولیس کی گولیوں سے چودہ افراد بشمول دوخواتین اپنی جانیں کھو بیٹھے تھے۔ لیکن اُس جگہ سے پیچھے نہیں ہٹے اور وہاں سے بھاگنے کا کسی نے نہ سوچا۔لیکن جب نام نہاد شیخ الاسلام اپنے کارکنان کو 2014ء کے دھرنے میں لے گئے اوروہاں ایک لمبے امتحان کیلئے بٹھائے رکھا تواُن جیسے کارکنان کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے۔ اورآج حالت یہ ہے کہ شیخ الاسلام کے اُس قسم کے جتھے ڈھونڈنے سے نہ ملیں۔ میرِکارواں تووہ ہوا جو یہ سب تقاضے اپنے سامنے رکھے۔
مجموعی صورتحال کا درست تجزیہ ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کی عوامی سپورٹ ہے‘ اس سے کوئی انکار ممکن نہیں لیکن ریاستی طاقت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ اس طاقت کے سامنے اپنے لیے کتنی جگہ بنانی ہے اوریہ جگہ کیسے بنانی ہے اس کیلئے مناسب حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ ایسی حکمتِ عملی جو خلا میں نہ معلق ہو بلکہ زمینی حقائق کے قریب ترہو۔ بغیر سوچے سمجھے کی چڑھائیوں سے ریاستی قوت میں کمی نہیں آتی‘ چڑھائی کرنے والے تھک ہار جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی سے ڈائیلاگ کسی نے نہیں کرنا۔ خاص کر حالیہ واقعات کے بعد اگلوں کو اس میں کوئی کشش محسوس نہ ہوگی اور یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کامزاج ڈائیلاگ والا نہیں ہے۔ لیکن پی ٹی آئی اپنی طاقت کو تو بچاسکتی ہے۔ اس کے ورکر تو وہیں موجود ہیں۔ اس کی حمایت کرنے والے لوگ کہیں نہیں گئے۔ وقت کی دھار دیکھیں‘ حالات کا جائزہ لیں ۔ اورہرممکن کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔
تزکِ بابری کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ہراہم موڑ پر ظہیرالدین بابر اپنے مشیران ‘ یا مغل فوج کے جو بڑے مرزا تھے‘ کو طلب کرتے اوراُن سے مشاورت ہوتی۔ ہربار مشاورت ہوتی‘ اپنے سے ہوا میں کوئی فیصلہ نہ کرتے۔ ہٹلرکبھی مشاورت کا قائل نہ تھا‘ بڑے فیصلے اُس نے خودہی کیے اور اپنی فہم و فراست پر بڑا ناز تھا۔ اسی گھمنڈ میں مارا گیا۔ اس کے برعکس لینن کے ہوتے ہوئے تمام بڑے فیصلے بالشِوک پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں ڈسکس ہوتے ۔بڑالیڈر وہی کہلاتا ہے جو اوروں کو ساتھ لے کرچلے۔