برندر سنگھ:کینیڈا میں خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ نئے خدشات کو جنم دے رہی ہے اور اب وینکوور کے ایک مقامی فوڈ بینک نے حال ہی میں فرسٹ ایئر کے غیر ملکی طلبہ کو کھانا دینے سے منع کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گریٹر وینکوور فوڈ بینک نے کھانے کے طلبگاروں کی تعداد میں روز بروز اضافے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق چند برسوں میں ان پر بوجھ بڑھا ہے۔
گریٹر وینکوور فوڈ بینک کی کمیونیکیشن منیجر ایما نیلسن نے ای میل کے ذریعے میڈیا کو بتایا کہ موجودہ حکومتی پالیسی کے مطابق غیر ملکی طلبہ کو کینیڈا آنے سے پہلے اپنے ساتھ ’کافی پیسے‘ لانے کی ضرورت ہے۔
وفاقی ضوابط کے مطابق غیر ملکی طلبہ کے پاس کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے کیلئےٹیوشن اور سفری اخراجات کے علاوہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں 20,635 ڈالر ہونا ضروری ہے۔
کینیڈا میں بین الاقوامی طالب علموں کیلئے کام کرنے والے ایک طلبہ کارکن جسکرن بنیپال کہتے ہیں: ’یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ گریٹر وینکوور فوڈ بینک طلبہ کو ان کے ‘جی آئی سی’ کی وجہ سے کھانا دینے سے انکار کر رہا ہے۔’
جی آئی سی کا مطلب گائرنٹیڈ انویسٹمنٹ سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے۔ یعنی آپ کے اکاؤنٹ میں ایک خاص رقم ہونی چاہیے۔اس فیصلے کے بعد گریٹر وینکوور فوڈ بینک کو بھی تنقید کا سامنا ہے۔بی بی سی نے گریٹر وینکوور فوڈ بینک سے رابطہ کیا، لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
مقامی فوڈ بینک کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کینیڈا میں گروسری کی قیمتیں اور بے روزگاری ریکارڈ بلندیوں پر ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے وہاں کے عوام کی زندگی کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے۔کینیڈا پہنچنے والے غیر ملکی طلبہ کی بڑی تعداد کو روزگار کے ساتھ ساتھ اب خوراک کا بھی بڑا چیلنج درپیش ہے۔
گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے مینیجرز کا کیا کہنا ہے؟
کینیڈا کے گریٹر وینکوور فوڈ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ہر ماہ تقریباً 15,000 ضرورت مند لوگوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں۔گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے مطابق ان کی تنظیم کو حکومت کی جانب سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوتی ہے۔
انھیں صرف عوام اور صنعت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔گریٹر وینکوور فوڈ بینک کے سی ای او ڈیوڈ لانگ نے کینیڈا کے ٹی وی چینل سی ٹی وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چھ سال قبل ان کے پاس ساڑھے چھ ہزار رجسٹرڈ افراد تھے جن کی تعداد اب پندرہ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
انھوں نے کہا: ‘ہم خوراک کے حجم کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھ رہے ہیں، اور یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں۔’ان کا کہنا ہے کہ ان کے گاہکوں میں نوجوانوں سے لے کر مقررہ آمدنی والے معمر افراد تک شامل ہیں جو اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں۔
‘ہم خاص طور پر وینکوور میں بہت سارے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ان (میں ایسے بھی ہیں جن) کے پاس کل وقتی ملازمتیں ہیں اور وہ اپنی انشورنس خود ادا کرتے ہیں۔ ان کے پاس نوکری ہے لیکن وہ اپنا کرایہ، اپنی رہائش اور گاڑی (کی قسط) وقت پر ادا نہیں کر سکتے۔’