کسی شخص کی شخصیت یا خیالات کی غیر مشروط تقلید اور اس کی ہر بات کو سچ سمجھنا، دماغی اور جذباتی طور پر اس پر قابو پانے کی ایک خطرناک صورت ہے۔ اس ذہنی عمل کو “برین واشنگ” یا دماغی دھلائی کہا جاتا ہے، جس کا مقصد فرد کے خیالات، عقائد اور احساسات کو مکمل طور پر کسی دوسرے کی مرضی یا نظریات کے مطابق بدل دینا ہے۔ اس عمل میں انسان کی عقل اور آزاد سوچ کمزور پڑ جاتی ہے، اور وہ ہر بات کو بغیر سوال کیے قبول کرنے لگتا ہے، چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔
دماغی دھلائی صرف فرد کی ذاتی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتی، بلکہ یہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ کسی گروہ یا رہنما کے اثر و رسوخ میں آ کر فرد اپنی شناخت اور آزاد سوچ سے بیگانہ ہو کر صرف اس کی رہنمائی کو درست سمجھتا ہے۔ یہ عمل اتنا گہرا اور طاقتور ہو سکتا ہے کہ فرد سچ اور جھوٹ کے فرق کو مٹا دیتا ہے، اور وہ ہر بات کو بغیر کسی تنقید یا سوال کے تسلیم کرنے لگتا ہے۔
تاریخ میں دماغی دھلائی کی سب سے خوفناک مثال “جم جونز اور جونز ٹاؤن” کا واقعہ ہے۔ جم جونز، جو کہ پیپلز ٹیمپل کے بانی تھے، نے 1970 کی دہائی میں اپنے پیروکاروں کو گیانا کے ایک دور دراز علاقے میں منتقل کر کے وہاں ایک سوشلسٹ یوٹوپیا قائم کرنے کا دعویٰ کیا۔ لیکن حقیقت میں، یہ کمیونٹی ایک جیل بن کر رہ گئی جہاں جونز کی ہر بات کو بلا چون و چرا تسلیم کیا جاتا تھا۔
جونز کی شخصیت اور اس کے نظریات نے پیروکاروں پر اتنا اثر ڈالا کہ انھوں نے اپنی آزاد سوچ کو مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا۔ 18 نومبر 1978 کو، جونز نے اپنے پیروکاروں کو اجتماعی خودکشی کرنے کی ترغیب دی، جس میں 909 افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سانحے نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ کس طرح ایک رہنما اپنی گمراہی میں پیروکاروں کو لے جا سکتا ہے اور ان کی زندگیوں کو تباہ کر سکتا ہے
اگرچہ ہم یہ واقعہ ماضی میں ہونے والی ایک افسوسناک غلطی کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی ذہنی گرفت کا سامنا آج بھی کئی جگہوں پر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر، تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے پیچھے اس طرح بے چون و چرا کھڑی ہے کہ وہ اپنی عقل اور تنقید کی صلاحیت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتی ہے۔ عمران خان کے پیروکاروں نے اپنے قائد کے حوالے سے اتنی عقیدت اور محبت پیدا کر لی ہے کہ ان کیلئے ہر بات سچ ہے اور ہر مخالف رائے کو سازش یا دشمنی سمجھا جاتا ہے۔
یہ صورتحال بالکل اسی طرح کی ہے جیسے “برین واشنگ” کے عمل میں ذہن کی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی یہ عقیدت صرف سیاسی وابستگی نہیں رہی، بلکہ ایک جذباتی وابستگی بن چکی ہے جس میں وہ اپنی آزاد رائے کو چھوڑ کر صرف اپنے قائد کی باتوں کو حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس طرح کی ذہنی حالت میں، سچ اور جھوٹ کی تمیز مٹ جاتی ہے اور فرد صرف اپنے قائد کی حمایت کو اپنی تقدیر سمجھتا ہے۔
یہ صورت حال نہ صرف ایک فرد کی ذاتی آزادی اور سوچ کے لیے خطرہ ہے، بلکہ یہ پورے معاشرتی اور جمہوری ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے۔ جمہوریت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو اپنی رائے آزادانہ طور پر بنانے کا حق حاصل ہو، اور کسی بھی رہنما یا گروہ کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو کر فیصلہ کیا جائے۔ اگر ہم سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا بھول جائیں اور صرف کسی کی باتوں کو اس کی شخصیت کی بنیاد پر تسلیم کرنے لگیں، تو ہم اپنے معاشرے کی آزادی اور جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
لہٰذا، ہمیں ہر صورت میں اپنے قائدین کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، اور اپنی عقل و فہم کو استعمال کرتے ہوئے ہر بات کو جانچنا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک آزاد اور جمہوری معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو سچ بولنے، سوال کرنے اور اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہو۔