سیاست میں دلچسپی رکھنے والے یقینا سید شریف الدین پیر زادہ کو بھی جانتے ہوں گے، وہ پاکستان کے ذہین ترین وکیل ، وفاقی وزیر، قانونی مشیر، سفیر اور اٹارنی جنرل رہے۔ اُن کو تو اُن کے حلقہ احباب قانونی ”حافظ“ بھی کہا کرتے تھے، شریف الدین پیرزادہ 1923ءمیں پیدا ہوئے، اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے۔انھوں نے 1940ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکیرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔ پاکستان بننے کے بعد مختلف ادوار میں وہ سیاسی و غیر سیاسی عہدوں پر فائز بھی رہے، جیسے ایوب خان کے دور حکومت میں 1966ءسے 1968ءتک وزیر خارجہ رہے۔وہ ضیاءدور میں 1985ءسے 1988ءتک او آئی سی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔وہ یحییٰ خان اور ضیا الحق کے دور آمریت میں کم و بیش 9 برس تک اٹارنی جنرل آف پاکستان رہے۔1999ءکے بعد انھوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی مختلف مواقعوں پر قانونی مشاورت فراہم کی۔اس کے علاوہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں شریف الدین پیر زادہ کو خصوصی سفیر کا عہدہ تفویض کیا گیا تھا۔ انھوں نے متعدد اہم کیسز میں حکومت اور اہم سیاسی شخصیات کی وکالت بھی کی۔اُن کا انتقال 2017ءمیں ہوا۔
یقینا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج راقم کو شریف الدین پیر زادہ کی یاد کیسے آگئی توبتاتا چلوں کہ اُن کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ موصوف کسی نہ کسی طرح ، کسی بھی قانونی پیچیدگی کا حل نکال لیا کرتے تھے۔ اور حکومت وقت کو کبھی پریشانی نہیں آتی تھی۔ آپ اوپر والے پیراگراف پر غور کریں تو یہ بات آپ کو حیران کن لگے گی کہ موصوف نے جتنا بھی وقت سرکار کے ساتھ گزارا اُس کا 80فیصد انہوں نے ڈکٹیٹرز کو سہولیات فراہم کرتے گزارا۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ رہے، وہ جنرل ایوب خان کے ساتھ رہے، وہ جنرل ضیاءکے ساتھ رہے، وہ جنرل مشرف کے ساتھ بھی رہے۔جبکہ انہیں مارشل لاﺅں میں ہر فوجی آمر کی بیساکھی کاکام سرانجام دیتے رہے۔ لہٰذا سرکار کو آج بھی شریف الدین پیرزادہ جیسے وکیل، اٹارنی جنرل، مشیر یا وفاقی وزیر کی ضرورت ہے۔ آج جب سرکار کو آئینی ترامیم کروانی ہیں اور کوئی چارہ نہیں نکل رہا تو وزیر اعظم شہباز شریف کو شریف الدین کی یقینا بہت یاد آرہی ہوگی ،،، وہ اپنی کابینہ کو کوستے ہوں گے کہ اُن کے پاس ایک بھی شریف الدین جیسا وکیل یا وزیر نہیں ہے۔ یہ بات میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ جب ضیاءدور میں نواز شریف اپنی سیاست کو پروان چڑھا رہے تھے تو اُس وقت شریف الدین پیر زادہ سے بھی مشاورت کیا کرتے تھے، حالانکہ اُس وقت بھی اُن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ پاکستان میں عدلیہ نے جب بھی فوجی حکومت کو نظریہ ضرورت کے تحت زندگی بخشی تو اس میں ہر بار شریف الدین پیرزادہ کی حکمت عملی اور دلائل اہمیت کے حامل ہوتے۔ وہ آئین کی تشریح اپنے نظریے اور سوچ کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرنے میں اکثر کامیاب رہتے۔
خیر شریف الدین پیر زادہ اب چونکہ ہمارے درمیان نہیں ہیں اور ہمیں اُن کی برائی بھی نہیں کرنی چاہیے، مگر تاریخ بعض اوقات بہت ظالم ہوتی ہے، وہ ہر لمحہ تاقیامت اپنے آپ کو دہراتی اور کبھی کبھار آپ کو ذلیل بھی کرواتی ہے۔ خیر بات اگر ہو موجودہ آئینی ترامیم کے حوالے سے تو اس وقت عدلیہ میں اچھی خاصی کھچڑی پکی ہوئی ہے، ابھی گزشتہ روز ہی آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا جس کے بعد آئینی ترامیم کی راہ ہموارہوگئی اور اب منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا۔ اس پر تحریک انصاف احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے، مگر اُس کے لیے اسلام آباد کو قلعہ بند کر دیا گیا ہے، بلکہ دارلحکومت کے حالات یہ ہیں کہ آپ فیملی کے ہمراہ چاہ کر بھی وہاں نہیں جا پا رہے۔
پھر آپ سے اچھا تو وہی ہے جو سرکش رہنما ضرور ہے مگر سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے، کوئی گولہ بارود استعمال نہیں کر رہا بس ایک احتجاج کی کال دے دیتا ہے اور آپ کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ راولپنڈی میں لوگ جمع نہ ہو سکیں‘ اس لیے آپ شہر کو ایسا بند کردیتے ہیں کہ شاید کوئی تاتاری فوج بھی نہ کر سکتی۔ احتجاج کے نہ ہونے کو آپ اپنی کامیابی قرار دیں گے لیکن شہر کے بند ہونے کو ہم تو آپ کی ناکامی سے تعبیر کریں گے۔ ایک مثال شاید برمحل ہو‘ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم تھے تو بے نظیر بھٹو نے لیاقت باغ پر ہی لانگ مارچ کی کال دی۔ بھاری مینڈیٹ والی حکومت تھی لیکن پسینے چھوٹ گئے۔ جنرل آصف نواز فوج کے کمانڈر تھے‘ اُن سے امداد طلب کی گئی۔ فوجی دستے سامنے آ گئے اور پورے راولپنڈی کو بند کر دیا گیا۔ محترمہ چھپتی چھپاتیں پھر بھی ایک دو گاڑیوں کے ساتھ شام لیاقت باغ پہنچ گئیں۔ وہاں سے پھر اسلام آباد کو لوٹیں۔گواُن کے ساتھ دو ہی گاڑیاں تھیں لیکن شام ڈھلے اس دن کے واقعات کا تخمینہ لگایا گیا تو شکست حکومت کی بنتی تھی اور کامیابی محترمہ کی۔ اب بھی وہی ہو رہا ہے‘ ان سطور کے لکھنے کے وقت پورا اسلام آباد شہر بند ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کا زمینی رابطہ منقطع۔ راولپنڈی ، لاہور، فیصل آباد سمیت کئی اضلاع میں دفعہ 144نافذ ہے۔ خود انصاف کیجیے‘ سرکار چلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ سرکش جماعت کے لوگ سڑکوں پر نہیں آ سکے لیکن آپ کے ہوش تو ا±ڑ گئے۔ کامیابی پھر کس کی ہوئی؟
خیر واپس آتے ہیں آئینی ترامیم کی طرف تو ویسے میرے خیال میں حکومت سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ حضور سیدھا سیدھا وہ کیجیے جو ضیا الحق قبیل کے حکمرانوں نے کیا تھا، یعنی آئین کو ایک طرف رکھیے اور اپنی مرضی کیجیے۔ مسئلہ یہاں یہ بنا ہوا ہے کہ ہمارے کرم فرما کرنا وہ چاہتے ہیں جو ایوب خان اور ضیا الحق نے کیا تھا لیکن ویسا ماحول نہیں بنا پا رہے۔ اسی سے ان کے لیے سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ تبھی مجھے شریف الدین پیر زادہ یاد آگئے۔ ویسے حکمران تو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن عدالتیں آڑے آ رہی ہیں۔ عدلیہ کو صحیح راستے پر لانے کے لیے وہ زور لگانا پڑ رہا ہے کہ حلیہ بدل رہا ہے اور پسینے چھوٹ رہے ہیں مقصد پھر بھی حاصل نہیں ہو رہا۔
اسی لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ جن جھمیلوں میں آپ پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے لیے سیدھا سیدھا کام کیجیے۔ ایک تو کسی شریف الدین پیرزادہ کو ڈھونڈ نکالیے۔ معافی چاہتے ہیں لیکن آپ کے قانونی مشیران خاصے نکمے ثابت ہو رہے ہیں۔ کوئی شریف الدین پیرزادہ ہوتے تو اب تک کئی راستے نکال چکے ہوتے۔ ویسے آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آئینی ترامیم میں کچھ باتیں ٹھیک ہیں، مگر یہ وقت درست نہیں ہے۔ ایک آئینی عدالت ہونی بھی چاہیے جو صرف آئینی معاملات کو دیکھے، اس سے ہمارا بہت سا وقت بچ جائے گا، عدالتوں میں زیر التواءمقدمات میں کمی آئے گی، لیکن اس وقت ابہام یہ ہے کہ یہ عدالت کے لیے نہیں، نہ ہی عوام کے لیے بلکہ یہ ”25اکتوبر“ کے لیے ہو رہا ہے۔ بلکہ اتنے زیادہ مسائل کے بعد تو قاضی صاحب کو خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے، اور اعلان کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ کسی سرکاری عہدے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اور نہ ہی کسی آئینی عدالت کا سربراہ ہوں گا۔
اورپھر یہ بات بھی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ لوگ سینئر موسٹ سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی ہم اتنے قابل نہیں کہ ہم بھی امریکا کی طرح ججز کی سلیکشن کرکے اُنہیں عدلیہ کا سربراہ بنا سکیں۔ کیوں کہ ہماری جمہوریت کو میچور ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔کیا آپ میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے؟ کہ آئینی ترامیم کے بعد جو بھی جج وزیر اعظم کی طرف سے لگایا جائے گا، وہ ٹھیک ہوگا، یہاں تو وزیر اعظم ہی غلط طریقے سے منتخب ہوکر حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو وہ کیسے ممکن ہے کہ عدلیہ کے سربرہ کی تقرری میرٹ پر کرے۔ لہٰذ ااس ترمیم کو رہنے دیں، اور سینئر موسٹ کو ہی آگے آنے دیں۔ آپ نے ویسے بھی تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ آرمی میں اگر سینئر موسٹ کو سربراہ بنانے کا عمل بنایا جاتا تو آج تک اتنے مارشل کبھی نہ لگتے۔ وہاں پر بھی ایکسٹینشن کے لیے اور نیچے سے کسی جونیئر افسر کو اوپر لانے کے لیے سسٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ اس لیے میں یہ بات برملا کہتا ہوں کہ ایکسٹینشن اور بعد از ریٹائرمنٹ نوکری بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
بہرکیف عدلیہ کو چلنے دیں، پہلے ہی ہم انصاف کرنے والے ممالک دنیا بھر میں 144ویں نمبر پر ہیں، اب آگے پتہ نہیں کہاں جانا ہے، عدلیہ کے حوالے سے تاریخ کا ایک بڑا مشہور قول ہے کہ دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا اور ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے ان ابتر حالات میں ایک شخص نے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے پوچھا،”کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں“۔ اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ رب کا شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ مشکل حالات میں جج حضرات یا تو تاریخ کو دھراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں ہر ایک یہی سوال کر رہا ہے کہ ہمیں کیانصاف ملتا ہے۔ کیا ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں بھی گردش کرتا ہے۔ ہمارے نظام انصاف میں ایک اور خوبی بڑی نمایاں ہے۔ کوئی بااثر آدمی یا کوئی مالدار آدمی عدالت سے رجوع کرے، تو انصاف کے دروازے اس کے لئے فوراً کھل جاتے ہیں۔ چند دنوں میں وہ اپنا مقصد پا لیتا ہے۔لیکن عام عوام کے لیے میں یہی کہوں گے کہ فی الحال عدالتی نظام جام ہے،،، جسے کھولنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں، اور کم از کم عدلیہ کو ”سیاسی“ ہونے سے بچالیں، اسی میں سب کی بھلائی ہے!