اہم ترین حالیہ ترامیم کی خبریں ، تجزیے اور تنقید امریکی الیکشن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے پیچھے چھْپ گئی ہیں۔ اپوزیشن نے تو ویسے بھی فی الوقت ساری اْمیدیں نومنتخب امریکی صدر پر لگا لی ہیں کہ اب وہ ہی ان کے غم کا مداوا کریں گے۔ تبھی اپوزیشن ایوانوں میں محض ’’پھوکا‘‘ احتجاج کرتی نظر آئی۔ بلکہ اتنا پھوکا کہ صاف لگا کہ ان میں اب دم خم نہیں رہا۔ بلکہ اپوزیشن کو ایک موقع پر تو ’’سلام‘‘ کرنے کو بھی دل چاہا۔ کہ جب پیر کو قوانین میں ترامیم کے چھ اہم سرکاری بلوں کی دونوں ایوانوں سے کثرت رائے سے منظور ی ہو رہی تھی تو اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا۔ خاص طور پر جب عدالتی اور دوسرے قسم کے بل پیش ہوئے تو تھوڑی بہت شدت بھی آئی، اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچے۔ نو ‘نو کے نعرے لگائے۔ بل کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔ نوبت حکومتی ارکان سے ہاتھا پائی اور گتھم گتھا ہونے تک بھی پہنچی۔ لیکن ’’سلام‘‘ اس بات پر کہ جیسے ہی آرمی چیف یا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ترامیم کا موقع آیا تو ہر طرف خاموشی طاری رہی۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے تا ہم غیر شرعی یا غیر آئینی فیصلوں کو ہم نہیں مانیں گے۔‘‘ خیر بات آئی گئی ہوگئی لیکن اس بات کا کھٹکا ضرور لگ گیا کہ من مرضیاں کرنے والی ن لیگ کی حکومت اب کوئی لوز شاٹ کھیلنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی۔ 1997ء والی حکومت میں بھی ایسا ہی لگ رہا تھا جب نواز حکومت زیادہ سے زیادہ اختیارات کو سمیٹنے کی دوڑ میں لگی ہوئی تھی۔ پھر ایک دم پلٹا کھایا اور 12اکتوبر کو سب کچھ ختم ہوگیا۔ پھر ہمیں کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد آپ 17کے بجائے 170کردیں، ہم اس پر اعتراض کرنے والے ہوتے ہی کون ہیں، ایسا کرکے ہم توہین عدالت کے زمرے میں تو کبھی بھی نہیں آنا چاہیں گے۔ اور ویسے بھی آئین و قانون پر عمل نہ کرنے والا شہری ہمیشہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ اور ہمیں کوئی شوق نہیں ہے اس عمر میں باغی بننے کا۔ چلیں مان لیا کہ یہ نام نہاد آئینی ترامیم بہترین ہیں،،،میثاقِ جمہوریت ملک میں فوجی مداخلت روکنے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی جب کہ یہ ترمیم کسی اورکی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کا نام استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ ان ترامیم سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے بیک لاگ کو ختم کرنے سے کوئی دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ اگر عدالتوں میں مقدمات کا انبار کم کرنا ہے تو حکومت کو کئی برسوں سے معلوم ہے کہ اس کے لیے کس قسم کی اصلاحات درکار ہوں گی۔ لیکن انہیں ایک خاص مقصد یعنی ایک جماعت کے پر کاٹنے کے لیے اپلائی کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سب کچھ عوام کے لیے ہو رہا ہوتا تو آپ داد کے مستحق تھے،،، جیسے واقعی اگر آپ کی سوچ درست ہوتی کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر34کرنے سے سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 60ہزار کو کم کرنا ہے تو واقعی یہ اچھا اقدام تھا۔ لیکن اس میں تو ’’ملاوٹ‘‘ لگ رہی۔ کیوں کہ جیسے ہی آپ کو خطرہ ہوا یعنی آپ نے الیکشن کمیشن والے فیصلے کے بعد بھانپ لیا کہ سپریم کورٹ اب اپنی نہیں پرائی ہو گئی ہے تو آپ نے ججز کی تعداد کو Maximumکر دیا۔ تاکہ کوئی رولا ہی نہ رہے۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے جہاں بہت سے نقصانات ہوئے ہیں وہیں یہ بڑا نقصان بھی ہوا ہے کہ بات تیرا جج یا میرا جج سے نکل کر آپ کا بینچ اور میرا بینچ تک آگئی ہے۔ اور یہ انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اور پھر اسی طرح آرمی چیف کی تقرری کو لے لیں، میں پھر یہی کہوں گا کہ ہمیں کیا اعتراض ہونا؟ لیکن یہ موقع و محل نہیں ہے۔ اس سے ادارے کے اندر ہلچل پیدا ہوگی۔ اور پھر ایک ترمیم دہشت گردی ایکٹ کے حوالے سے تھی کہ آپ 90دن کے لیے کسی کو بھی حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ ماضی میں ہزاروں گرفتاریاں سیاسی قسم کی تھیں۔ اور پھر کیا ہم گمشدہ افراد کے حوالے سے ایک بین الاقوامی مسئلے میں نہیں پھنسے ہوئے؟ یہ بلوچی یا پی ٹی ایم والے ہم سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا اس پر کبھی کسی نے غور کیا؟کیا یہ ایک نازی قانون نہیں بن گیا؟ ہٹلر کیا کرتا تھا؟ تاریخ پڑھیں تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ ان آئینی ترامیم میں عوام کہاں ہے؟ بلکہ عوام تو کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے، اسے رہنے دیں بلکہ صاف صاف یہ لکھ دیں کہ جو ایک بار وزیر اعظم منتخب ہوگیا وہ لائف ٹائم ہوگا۔ جو چیف جج بنے اْسے لائف ٹائم کے لیے لگا دیں۔ اس میں اتنی برائی بھی نہیں ہے، اس سکول آف تھاٹ میں بے شمار فائدے بھی ہیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے کم از کم سیاسی استحکام تو آجائے گا، یا وہ عہدیدار کم از کم ذمہ دار تو ہوگا۔ ورنہ تو کوئی سیاستدان ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے، جیسے موجودہ سیاستدانوں نے 75سالوں کی تباہی تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور پر ڈال دی ہے، کہ جو کچھ بیڑہ غرق ہوا وہ اسی دور کی مرہون منت ہے۔ لیکن بات نیت کی ہے، آئینی ترامیم کرنی ہیں تو نیت درست کریں۔ جب رات کے اندھیروں میں آپ آئینی ترامیم کریں گے تو وہ کیسے ایک نمبر ہو سکتی ہیں، جب آپ ایک آئینی ترمیم کے لیے مرے جا رہے ہوں گے تو اس میں شائبہ تو ضرور ہوگا ناں! اس لیے رولا ختم کریں، یہاں بادشاہت کا نظام قائم کرلیں، عوام کے ووٹ کی عزت ختم ہوگئی ہے، ہونا جب وہی ہے جو اگلوں نے چاہنا ہے تو پھر کاہے کا ووٹ۔ کاہے کی عدالتیں جب ہم دنیا بھر میں کسی رینکنگ میں ہی نہیں آرہے تو پھر کیسا عدالتی نظام۔ پرانے زمانے کی طرز پر ایک مستقل قاضی بٹھائیں وہی فوری فوری فیصلے کرے۔ نہ تاریخیں پڑیں اور نہ پیسہ ضائع ہو۔ فوری فوری انصاف بھی ہو جائے۔ اور رہی بات سرکاری اداروں کی تو وہاں ویسے بھی رشوت چلنی ہے، تو کیوں نہ رشوت کے ریٹس مقرر کردیے جائیں، اْس سے کم از کم آپ اس رشوت کی رقم میں سے ٹیکس تو کاٹ سکیں گے ناں! موجودہ صورتحال کے مطابق ظاہر ہے نئے ججوں کی تقرریوں کا جو طریقہ کار بنایا گیا ہے اْس سے اپنے ہی بندے اوپر آئیں گے۔ کیا فیصلے ہو سکیں گے اورحکومتی من مانیوں پر کیا نظر رکھی جا سکے گی!یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عوام بری طرح نظر انداز ہوئی ہے اور ان کے ہوتے ہوئے مسلسل ہوتی رہے گی۔
اشتہار
موسم کی صورت حال
More forecasts: Weather Johannesburg 14 days