چھبیسویں ترمیم ہمارے آئین کا حصہ بنا دی گئی ہے، اس ترمیم سے کس کس کو فائدہ یا نقصان ہو گا یہ وقت بتائے گا، آئین و قانون انسانی معاشرے اور جنگل میں واحد فرق و امتیاز ہے، آئین ریاستی امور چلانے، ریاستی اداروں کو قاعدے ضابطے کا پابند کرنے کا نام ہے تو قانون اس ریاست کے شہریوں کومنظم اور متحد رکھنے اور پر امن بنانے کی کسوٹی ہے،جب باقاعدہ ریاستیں وجود میں نہ آئی تھیں اور لوگ قبیلوں کی صورت رہتے تھے تب بھی قبائل کو مہذب اور متمدن رکھنے کیلئے کچھ قاعدے ضابطے طے کئے جاتے تھے،جن کی پابندی ہر خاص و عام پر لازم ہوتی تھی،ہم شائد روئے زمین پر واحد ریاست اور معاشرہ کے امین ہیں جس میں آئین کو کبھی مذاق بنایا جاتا کبھی تماشا،کبھی موم کی ناک اور کبھی ذاتی و سیاسی اور گروہی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ۔زبانی کلامی ہر کوئی آئین کی تکریم،تحریم،تقدیس،اہمیت و افادیت کی مالا جپتا ہے مگر جب آئین کو مقدم رکھنے کی نوبت آتی ہے تو کسی خاص گروہ خصوصاً حکمرانوں کو آئین میں نقص ہی نقص دکھائی دیتے ہیں، موجودہ حکومت کے مختصر دور میں آئین کیساتھ وہی رویہ اختیار کیا گیا ہے جو دور قدیم میں آسمانی کتب کے ساتھ روا رکھا گیا تھا،نتیجے میں خدائی احکامات قصہ پارینہ ہو گئے اور اہم شخصیات کے اقوال خدائی احکامات کا درجہ اختیار کر گئے،معذرت کیساتھ ہم نے بھی اللہ جل شانہ کی آخری کتاب کو قسمیں کھانے،حلف اٹھانے یا ظاہری تعظیم تک محدود کر دیا ہے،نتیجے میں علامہ اقبال کو کہنا پڑا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرااٰں ہو کر
پاکستانی قوم نے آئین کیساتھ یہ رویہ آزادی کے فوری بعد اختیار کر لیا تھا،جس کے باعث 1956تک نو آزاد ملک برطانوی آئین و قانون کے تحت چلایا گیا،56 میں آئین بنا مگر تا دیر نافذالعمل نہ رہا،1962میں ایک اور کوشش کی گئی،فوجی دور ہونے کے باعث جیسے تیسے یہ آئین بروئے کار آیا،1973میں ذوالفقار بھٹو نے بے آئین ریاست کو آئین کا لبادہ اوڑھا یا جو کسی نہ کسی طور آج بھی نافذ ہے،مگر بھٹو دور میں ہی اس میں 6ترامیم کی گئیں،پہلے جنرل ضیاء الحق نے اور پھر پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا،دونوں جرنیلوں نے اسلام اور انسانی حقوق کے نام پر آئین کی بنیادیں ہلا دیں،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بھی آئین سے چھیڑ چھاڑ میں پیچھے نہیں رہیں اور اپنے سیاسی مفاد میں ترامیم متعارف کراتی رہیں،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی موجودہ مخلوط حکومت نے تو حد ہی کر دی اور مختصر دور میں بیسیوں ترامیم کی گئیں،مگر چھبیسویں ترمیم نے حمام میں ایک بار پھر بہت سے ننگوں کو آشکار کر دیا ، صرف عدلیہ کو اپنے ماتحت کرنے کیلئے وہ پاپڑ بیلے گئے کہ الامان و الحفیظ۔
ترمیم کے حق میں ایسے ایسے جواز پیش کئے گئے جواز گھڑے گئے کہ عقل بھی دنگ رہ گئی،لیکن شکر رب تعالیٰ کا کہ اس نے سب کو انہی کے دام فریب میں لا کر ان کی حقیقت عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی،یوں تو آج کی پاکستانی قوم کی سیاسی بلوغت عروج پر ہے اور سب جانتے ہیں کہ26ویں ترمیم سمیت 77ترامیم میں سے ایک بھی ان کے لئے نہ تھی،ان میں کوئی ایسی ترمیم نہ تھی جس سے مہنگائی بیروزگاری پر قابو پایا جا سکے،منافع خوری،ذخیرہ اندوزی،اشیا کی مصنوعی قلت کو روکا جا سکے،روزگار کے مواقع پیدا ہوں،عام شہری کو امن اور انصاف میسر آئے،غریب شہری کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولت آسانی سے مل سکے،تھانہ کلچربدلے،پولیس گردی کا خاتمہ ہو،انصاف عام ہو جائے،شہریوں کی جان مال آبرو کا تحفظ ممکن ہو سکے،ایک بھی ترمیم ایسی نہیں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے،سب ترامیم اپنی حکومت کے استحکام،طوالت اور اگلے الیکشن میں آسانی سے کامیابی حاصل کرنے اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کے بجائے قبر میں اتارنے کیلئے کی گئیں۔
جیسے یہ عقدہ آج تک حل نہیں ہو پایا کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈہ،ایسے ہی مملکت خداداد میں یہ معمہ بنا ہواہے کہ ہم آئین کے محافظ ہیں یا آئین ہمیں اور ہمارے حقوق کو تحفظ دیتا ہے،آئین کوحدود و قیود کا پابند ہم نے بنانا ہے یا آئین نے حکمرانوں، اداروں اور شہریوں کو حدود میں جکڑ کر رکھنا ہے،کوئی کہتا ہے عدلیہ بالا تر اور مقدس ہے،آئین کی تشریح کا حق رکھتی ہے،ہر کسی پر اس کے فیصلے تسلیم کرنا واجب ہے،کہیں سے صدا آتی ہے پارلیمنٹ بالا دست ہے،وہ آئین ساز ہے، مقدس ہے،مگر یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ تمام حقوق،اختیار اسے آئین دیتا ہے،حدود و قیود کا تعین بھی آئین کرتا ہے،ایسی صورت میں تو مقدم،مقدس بالا دست تو آئین کو ہونا چاہئے،مگر آئین کی اس سے زیادہ کیا توہین ہو گی کہ اس مقدس اور اہم ترین دستاویز میں ترمیم و تبدیلی کا حق اور اختیار ان کو دیا گیا ہے جو آئین کی ابجد سے واقف نہیں،جنہیں دستور اور آئین یا آئین و قانون میں امتیاز نہیں،دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی26ویں ترمیم کی تفصیل سے 80 فیصد ارکان ناواقف ہوں گے،پارٹی نے فیصلہ کیا پارلیمانی لیڈر نے سنایا، پارٹی سربراہ نے حکم دیا، انگوٹھا چھاپوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور کچھ نے جو مزاج یار میں آئے کہ دیا۔
دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں پارلیمنٹ ہی آئین سازی کرتی ہے،مگر پارلیمنٹ آئین پر حاوی نہیں ہوتی،ترامیم بھی آئینی دائرہ میں رہ کر کی جاتی ہیں،کسی ملک کی پارلیمنٹ اتنی مادر پدر آزاد نہیں کہ جو چاہے کرتی پھرے اس لئے کہ بالا دست اور مقدس ہے،ہر ریاستی ادارہ اپنی اپنی حدود میں مقدس،با اختیار ہے،یہ درجہ بندی بھی آئین فراہم کرتا ہے،لیکن جب کوئی ادارہ خود کو آئین سے بالا دست سمجھ لیتا ہے تب خرابی جنم لیتی ہے،پھر غنڈے قانون کے شکنجے میں نہیں جکڑے جاتے بلکہ رضیہ غنڈوں میں گھر جاتی ہے،اور ہمارا آئین بھی اس وقت نرغے میں ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم غلامی کی جکڑ بندیوں میں ہے،اس صورتحال سے نجات حاصل کرنا ہے تو آئین کو جکڑ بندیوں سے نکال کر مکمل اآزاد کرنا ہو گا،اس کے تقدس،تحریم،تکریم،تعظیم،اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرنا ہو گا،جس کو آئین جو حقوق اور اختیارات دیتا ہے وہ نہ صرف تسلیم بلکہ عملی طور پر فراہم بھی کرنا ہوں گے،ہر کسی کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کرنا ہوں گے،ذاتی،سیاسی،گروہی مفادات کی عینک اتار کر قومی اورملکی مفاد کو ترجیح بنانا ہو گا،ورنہ آئین بھی ایک مقدس دستاویز بن کر پارلیمنٹ کی الماریوں میں دفن ہو جائے گا۔
بھٹو دور کے آخری دن تھے،آرڈیننس پر آرڈیننس جاری ہو رہے تھے،فضل الٰہی چودھری نے ایوان صدر کو ڈاکخانہ بنا رکھا تھا،قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک عروج پر تھی تب یہ نعرہ لگافضل الٰہی چودھری کو رہا کرو،آج آئین کیساتھ جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے شائد مطالبہ کرنا پڑے کہ آئین کو رہا کرو۔